سکھوں کی جاویداں جدوجہد
(Haseeb Ejaz Aashir, Lahore)
حسیب اعجاز عاشر تاریخ کے صفحات پر بعض لمحے ایسے ثبت ہو جاتے ہیں جو محض ایک دن یا ایک واقعہ نہیں رہتے، بلکہ ایک پوری قوم کی تقدیر بدلنے والے موڑ بن جاتے ہیں۔17 اگست 2025 کا دن بھی ایسا ہی دن تھا، جب واشنگٹن ڈی سی کے نیشنل مال پر ہزاروں سکھ جمع ہوئے۔فضا آزادی کے نعروں سے گونج رہی تھی، پرچم ہوا میں لہرا رہے تھے، آنکھوں میں صدیوں کے زخم اور دلوں میں ایک ہی نعرہ "بھارت کی غلامی نہیں، ہمیں خالصتان چاہیے!"یہ منظر محض ایک اجتماع نہیں تھا، یہ صدیوں کی قربانیوں اور جبر کے خلاف اٹھنے والی وہ گونج تھی جسے دنیا اب نظرانداز نہیں کر سکتی۔ برصغیر کی تقسیم کے بعد سے سکھ قوم ایک الگ شناخت کی تلاش میں رہی ہے۔ لیکن ہر بار انہیں جبر، دھوکہ اور خونریز واقعات کا سامنا کرنا پڑا۔ آج واشنگٹن کے اس ریفرنڈم نے دنیا کو یاد دلایا کہ یہ قوم نہ صرف زندہ ہے بلکہ اپنے حقِ خود ارادیت کے لیے پرامن مگر مضبوط آواز بلند کر رہی ہے۔ سکھ برادری کی تحریک آزادی کوئی نئی بات نہیں۔ تقسیمِ ہند کے وقت سکھ نہ صرف پنجاب کے بٹوارے کی آگ میں جلے بلکہ لاکھوں جانوں کی قربانی بھی دی۔ 1947 کے فسادات میں ہزاروں سکھوں کو بے گھر ہونا پڑا اور یہ زخم آج تک تازہ ہیں۔اسی کے بعد 1984 کا سیاہ باب آیا، جب امرتسر کے مقدس ترین مقام "گولڈن ٹیمپل" پر بھارتی فوج نے "آپریشن بلیو اسٹار" کے نام سے خونریز کارروائی کی۔ ہزاروں سکھ شہید ہوئے، مذہبی مقامات کی بے حرمتی ہوئی اور پوری قوم کو خوف و دہشت میں مبتلا کر دیا گیا۔ اس کے بعد اندرا گاندھی کے قتل کے انتقام میں دہلی اور دیگر شہروں میں ہزاروں سکھوں کو جلایا گیا، ان کے گھروں کو لوٹا گیا اور عورتوں کی عصمت دری کی گئی۔یہ سب واقعات تاریخ کے اوراق پر ثبت ہیں اور سکھ آج بھی انہیں اپنی اجتماعی یادداشت کا حصہ سمجھتے ہیں۔ یہی ظلم و ستم ہے جو سکھوں کو بار بار یاد دلاتا ہے کہ بھارت کے اندر وہ کبھی مکمل طور پر محفوظ یا آزاد نہیں ہو سکتے۔ واشنگٹن ڈی سی میں ہوا یہ ریفرنڈم محض ایک سیاسی سرگرمی نہیں بلکہ عالمی سطح پر بھارت کے چہرے پر ایک طمانچہ تھا۔ امریکہ جیسے جمہوری ملک میں آزادیٔ اظہار اور حقِ اجتماع کے تحت ہزاروں سکھوں نے یکجہتی کا عملی مظاہرہ کیا۔ امریکی حکومت نے نہ صرف اس ریفرنڈم کو سہولت فراہم کی بلکہ بھارتی مداخلت کے خدشات کے باوجود سیکیورٹی کے سخت انتظامات بھی کیے۔ یہاں تک کہ سابق صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے تحریکِ خالصتان کے رہنما گرپتَوَنت سنگھ پنوں کو ایک خط کے ذریعے مکمل تحفظ کی یقین دہانی کرائی۔ یہ سب اس بات کا اعلان تھا کہ بھارت کا پروپیگنڈا اپنی موت آپ مر چکا ہے۔ یوٹیوب، گوگل اور ایکس (ٹویٹر) جیسے پلیٹ فارمز نے بھی بھارتی دباؤ کو مسترد کر کے واضح کر دیا کہ سکھوں کی جدوجہد ایک پرامن اور جائز تحریک ہے۔مودی سرکار نے اس تحریک کو دبانے کے لیے ہر حربہ آزمایا۔ کبھی اسے دہشت گردی کا لیبل دیا، کبھی عالمی سطح پر لابنگ کی گئی، کبھی سوشل میڈیا سے مواد ہٹوانے کی کوشش کی گئی۔ لیکن ہر کوشش ناکام ہوئی۔ آج سچائی یہ ہے کہ بھارت عالمی برادری کے سامنے بے نقاب ہو چکا ہے۔ یہ ریفرنڈم ایک نئی بحث کو جنم دے چکا ہے۔ بھارت بظاہر ایک "اکھنڈ" ملک دکھائی دیتا ہے، مگر حقیقت یہ ہے کہ اس کی بنیادیں لسانی، مذہبی اور نسلی تقسیم پر استوار ہیں۔ پنجاب میں خالصتان کی تحریک اپنی موجودگی کا ثبوت دے رہی ہے، کشمیر دہائیوں سے آزادی کی جدوجہد میں ہے، آسام، ناگالینڈ اور میزورم جیسے علاقے بار بار علیحدگی کی بات کرتے ہیں، اور جنوبی ہند میں "در اویڈا تحریک" بھی وقتاً فوقتاً سر اٹھاتی رہی ہے۔اگر خالصتان قائم ہوتا ہے تو یہ "ڈومینو ایفیکٹ" ثابت ہو سکتا ہے—ایک کے بعد ایک ریاست علیحدگی کا مطالبہ کرے اور یوں "اکھنڈ بھارت" کا خواب بکھر جائے۔امریکہ اور یورپ اس معاملے کو "حقِ خود ارادیت" کے تناظر میں دیکھ رہے ہیں۔ اقوام متحدہ کے چارٹر اور انٹرنیشنل کونویننٹ آن سول اینڈ پولیٹیکل رائٹس (ICCPR) کے مطابق ہر قوم کو خودمختاری کا حق حاصل ہے۔ سکھ فار جسٹس تنظیم نے اعلان کیا ہے کہ دنیا بھر میں ہونے والے ریفرنڈمز کے نتائج 2026 میں اقوامِ متحدہ میں پیش کیے جائیں گے۔ یہ بھارت کے لیے ایک سنگین سیاسی دھچکا ہوگا۔ سوال یہ ہے کہ بھارت پر اس کے کیا اثرات ہوں گے؟ کیا خالصتان بننے کے بعد دیگر ریاستیں بھی علیحدگی کا مطالبہ کریں گی؟ کیا بھارت اپنی ہی بنیادوں سے ٹوٹ جائے گا؟ اگر ایسا ہوا تو "اکھنڈ بھارت" کا خواب چند ٹکڑوں میں بٹ کر رہ جائے گا۔آج دنیا یہ دیکھ رہی ہے کہ سکھوں کی جدوجہد محض ایک تحریک نہیں بلکہ ایک تاریخی عمل ہے جو نسل در نسل منتقل ہو رہا ہے۔ ظلم جتنا بڑھتا ہے، مزاحمت اتنی ہی توانا ہوتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ واشنگٹن کے ریفرنڈم نے مودی سرکار کو ہلا کر رکھ دیا ہے۔سکھوں نے دنیا کو یہ پیغام دیا ہے کہ وہ غلامی میں نہیں رہنا چاہتے۔ اُن کی آواز آج عالمی میڈیا، عالمی فورمز اور جمہوری حلقوں تک پہنچ چکی ہے۔ بھارت جتنا دبانے کی کوشش کرے گا، یہ تحریک اتنی ہی طاقتور ہوگی۔واشنگٹن کا یہ منظر بھارت کے لیے خفت اور سکھوں کے لیے ایک نئی امید کی علامت ہے۔ وقت کے ساتھ ساتھ دنیا یہ طے کرے گی کہ کیا بھارت ایک متحد ملک رہ پائے گا یا پھر اس کے خواب ٹوٹ کر زمین پر بکھر جائیں گے۔ |