امریکی صدر نے امریکہ کاسفارت خانہ فلسطین میں منتقل کرنے
کا اعلان کیا تو مسلم دنیا میں غم و غصے کی شدید لہر نظر آئی ۔لیکن چونکہ
ہماری قوم جذباتی نہیں ہے،اس لئے امت مسلمہ کے کسی رہنما نے امریکہ کو تنہا
کرنے کا اعلان نہیں کیا۔نہ کسی نے جذبات میں آکر امریکہ اور اسرائیل کے
خلاف جہاد کا اعلان کیا۔اور نہ ہی غصہ میں امریکہ سے سفارتی تعلقا ت ختم
کرنے کا اعلان کر تے ہوئے امریکی سفیر واپس بھیجے۔پوری دنیا کے مسلمانوں نے
اپنے ہی ملکوں میں گلی گلی کوچے کوچے احتجاج کا آغاز کیا،سڑکیں جام
کیں،امریکہ مردہ باد ،گو امریکہ گو اور دہشت گرد امریکہ کہ فلک شگاف نعرے
بلند کئے۔پاکستانی تو اس احتجاج میں سب سے آگے تھے اور سوشل میڈیا پر بھی
اہل پاکستان کی جانب سے اپنا بھرپور احتجاج رکارڈ کرایا گیا۔ڈسلپلے پکچر
لگائی گئیں،امریکہ مخالف تصاویر شئیر کی گئیں،جن کے نیچے کمنٹس آتے رہے۔کچھ
لوگ حضرت عیسیٰ ؑ کے آنے کی دعا کرتے رہے تاکہ وہ فلسطین آزاد کرائیں،کچھ
اپنے ہی منتخب کردہ نمائندوں کو برا بھلا کہتے رہے اور طیب اردوان کی
پاکستان میں بحیثیت حکمران نزول کی دعا کرتے رہے۔اگرچہ اس عمل نے امریکہ پر
دباؤ ڈالا مگر واضح رہے یہ وہی قوم ہے جس میں کبھی عمر بن خطاب ؓ،علیؓ،خالد
بن ولیدؓ،محمد بن قاسم اور ایوبی پیدا ہوا کرتے تھے۔
خیر مسلمانوں کے اس احتجاج کا نتیجہ یہ نکلا کے اقوام متحدہ کا اجلاس طلب
کرلیا گیا۔مصر نے امریکی فیصلے کے خلاف آواز بلند کی اور قرار داد پیش
کی۔اس قرارداد پر رائے شماری ہوئی۔امریکہ نے رائے شماری سے قبل امداد لینے
والے تمام ممالک کو ان کی حیثیت یاد دلا دی۔امریکہ صدر کی جانب سے کھلے عام
دھمکیاں دی گئیں۔اور کہا گیا کہ امریکہ کی مخالفت کرنے والے اپنا انجام سوچ
لیں اور ہم امداد بند کردیں گے وغیرہ وغیرہ۔امریکہ کی ان دھمکیوں کے بعد
امریکہ سمیت مسلم دنیا کی عوام بھی سوچ میں مبتلا تھے کہ آخر اب حکمران
کریں گے کیا؟تصور یہی کیا جارہا تھا کہ امریکہ کی ہلکی پھلکی مخالفت کی
جائے گی۔اسے سمجھایا جائے گا کہ امریکہ بہادر چھوٹے ممالک کو دھمکایا نہیں
کرتے یہ عمل درست نہیں ہوتا اور آخر میں اپنی عوام کو بیان بازی کی ٹافی دی
جائے گی ۔کہا جائے گا کہ ہم سخت رویہ اختیار کرتے تو امریکہ ہمیں پتھروں کے
دور میں دھکیل دیتا ۔
لیکن اس بار منظر کچھ اور تھا،ٹرمپ نے اپنے بیان اور بدترین عمل سے
مسلمانوں کو ایک کردیا ،ٹرمپ کی کوششیں رنگ لے آئیں ۔اقوام متحدہ میں
پاکستان کی مستقل مندوب ملیحہ لودھی نے خطاب شروع کیا تو امریکہ اور اس کے
چمچوں پر پہاڑ ٹوٹ پڑے۔ملیحہ لودھی نے نہ صرف پاکستانیوں بلکہ پوری دنیا کے
مسلمانوں کا پیغام صاف صاف سناتے ہوئے کہا کہ امریکی فیصلہ عالمی قوانین کی
کھلی خلاف ورزی ہے،آج کے اجلاس سے اس غیر قانونی فیصلے کے خلاف پیغام جائے
گا،مسلم دنیا اور پاکستان امریکی فیصلے کو مسترد کرتی ہے۔ہم فلسطین اور ان
کے مطالبات کہ حق میں ہیں،پاکستان فلسطینیوں کے حقوق کی حمایت کرتا
ہے،پاکستان فلسطینیوں کی جدوجہد کی حمایت کرتا ہے،بیت المقدس کی حیثیت
بدلنے والا کوئی منصوبہ قابل قبول نہیں،پاکستان فلسطینیوں کی حمایت جاری
رکھے گاامریکہ جان لے کہ دنیا برائے فروخت نہیں۔دیگر ممالک کی طرح ترک
مندوب نے بھی امریکہ کو آئینہ دکھاتے ہوئے کہاکہ ہم القدس کی ہمایت جاری
رکھیں گے،فلسطین کے لوگوں کو اکیلا نہیں چھوڑیں گے انہیں آزاد اور محفوظ
رہنے کا حق ہے۔
مسلم دنیا کے مندوب کے خطاب امریکہ پر بجلی بن کر گر رہے تھے،مسلم ممالک کے
اس بہترین اقدام اور اتحاد کا نتیجہ یہ نکلا کہ امریکہ کے اتحادیوں نے بھی
اس کا ساتھ نہیں دیا ،افغانستان نے بھی سر عام اس فیصلہ کے خلاف آواز بلند
کی۔مسلم ممالک کے ساتھ دنیا کے دیگر ممالک نے بھی امریکہ کے فیصلے کو مسترد
کردیا۔جب رائے شماری کی گئی تو 35ممالک غیر حاضر رہے 128نے امریکی فیصلے کی
مخالفت میں ووٹ دیا جبکہ صرف 9ممالک نے امریکہ کی حمایت میں ووٹ دیا ان
9ممالک میں اسرائیل،یونائیٹڈ اسٹیٹ،ٹوگو،گئٹے مالا،نورو،مارشلآئس لینڈ
،پلاو،میکرونیشیا اور ہونڈراس شامل ہیں۔امریکی شکست اس رائے شماری سے کھل
کر سامنے آگئی تھی،امریکہ کو بھی معلوم ہوچکا کہ اس کی حقیقت و حیثیت کیا
ہے اور کتنے ممالک اس کے ساتھ کھڑے ہیں۔
سوال یہ ہے کہ کیا امریکہ کو رائے شماری میں شکست دے دینا اور اس کیخلاف
تقاریر کردینا کافی ہے؟یا کچھ اور بھی کرنا ہوگا؟دنیا کے حالات اس وقت بہت
تیزی سے تبدیل ہورہے ہیں۔امریکہ کے منصوبے ناکام ہوچکے ہیں،امریکہ اپنی
مسلم دشمن سوچ کی وجہ سے پستی کا شکار ہورہا ہے۔امریکہ اس وقت افغانستان
میں بر ی طرح پھنس چکا ہے،دہشت گردی کے خلاف جنگ کے نام پر مسلمانوں کا خون
ناحق بہانے والا امریکہ اپنے حالات سے خود پریشان ہے،امریکی معیشت تباہی کے
قریب ہے۔امریکہ کے اہم اتحادیوں میں بھارت اور افغانستان شامل ہیں،افغان
حکومت خود امریکہ کے سہارے پر چل رہی ہے جس سہارے کو کسی بھی افغان طالبان
چھین کر توڑ سکتے ہیں ،ایسا ملک امریکہ کی کیا مدد کرے گا اور کیا ساتھ دے
گا؟ رہا سوال بھارت کا تو اسے بھی امریکہ کی طرح دوسروں کے معاملات میں
کودنے کا شوق ہے،بھارت سے خود کشمیر اور خالستان تحریک کنٹرول نہیں ہورہی
اور ہوگی بھی نہیں کیوں کہ ظلم کا راج نہیں چل سکتا ۔
دوسری جانب روس اور چین ہیں ۔یہ دونوں ممالک نہایت عقل مند ہیں ،انہوں نے
امریکہ کی طرح شارٹ کٹ استعمال لرنے کی کوشش نہیں کی،دنیا میں جنگیں نہیں
چھیڑیں،انہوں نے اپنی معیشت اور تعلقات پر توجہ دی ۔آج ان دونوں ممالک کی
معیشت مستحکم ہے اور ان کے دیگر ممالک سے تعلقات بھی اچھے ہیں۔آنے والے
دنوں میں روس یا چین ہی سپر پاور بنتے نظر آرہے ہیں۔
اس صورت حال میں مسلم ممالک کو بھی دنیا میں اپنی حیثیت منوانا ہوگی۔مسلم
ممالک کو اب آپس کے اختلافات بھلا کر ایک ہونا ہوگا۔سعودی عرب کی جانب سے
مسلم اتحاد فوج کا قدم اٹھانے بالکل درست اور وقت کی ضرورت تھا،مسلم ممالک
کو اس فوج کو منظم و مستحکم کرنا ہوگا ۔مسلم ممالک کو سعودی عرب پاکستان
اور ترکی کی قیادت میں ایک ہونا ہوگا۔یہ تینوں ممالک اس وقت دنیا میں اہمیت
رکھتے ہیں۔ان ممالک کو بھی بڑے پن کا مظاہر ہ کرتے ہوئے سب مسلمان ممالک کو
ساتھ لے کر چلنا ہوگا۔مسلم اتحاد دنیا کے بڑے ممالک کی مجبوری بن جائے گا
۔اگر تمام مسلمان ملک ایک پیج اور ایک ایجنڈے پر جمع ہوگئے تو سپر پاور جو
بھی اس مسلمانوں کو اپنے برابر تسلیم کرنا ہوگا اسی میں ان کی کامیابی
ہے۔مسلم دنیا کے حکمرانوں کو اس پر سوچنا ہوگا۔
دنیا کی صورت حال سے پریشان امریکہ اپنی شکست سے بوکھلاہٹ کا شکار
ہے،امریکہ دنیا میں تیسری جنگ شروع کرنے کی کوشش کرے گا۔اگر ایسا ہوتا ہے
دنیا میں بے انتہا تباہی ہوگی لیکن یہ بات واضح ہے کہ یہ جنگ امریکہ کے
طابوت میں آخری قیل ثابت ہوگی۔میری حکومت پاکستان سے گزارش ہے کہ فاٹا کی
قسمت کا فیصلہ ان کی خواہشات کے مطابق کیا جائے کیوں کہ پاکستان کی جانب
میلی آنکھ سے دیکھنے والے امریکی کی آکھیں پھوڑنے میں قبائلی بھی اہم کردار
ادا کریں گے۔خدا پاکستا اور پوری مسلم دنیا کا حامی وناصر ہو۔ |