کسے معلوم تھاکہ 30 مارچ 2003 کو کراچی کے علاقے گلشن
اقبال سے گھر سے بچوں کے ہمراہ نکلنے والی پاکستان کی غیور بیٹی امریکہ کی
قید خانے میں جا پہنچے گی ڈاکٹر و سائنسدان عافیہ صدیقی کو امریکی قید میں
چودہ برس مکمل ہونے کو ہیں عافیہ کی بہن ڈاکٹر فوزیہ صدیقی نے ڈاکٹر عافیہ
کی رہائی کے لئے ملک گیر تحریک چلارکھی ہے ہر سیاستدان، ہر حکمران سے ملیں،
سب نے وعدے کئے مگر چودہ برس بیت گئے وعدہ وفا نہ ہوسکے سابق وزیراعظم نواز
شریف نے وعدہ کیا تھا کہ وہ اپنی حکومت کے ابتدائی 100دنوں میں عافیہ صدیقی
کی رہائی کو یقینی بنائیں گے مگر اپنا وعدہ وفانہ کرسکے اوراقتدار کی کرسی
سے ہمیشہ کے لیے فارغ ہوگئے سابق ہونے کے باوجود موصوف ہی وزیراعظم ہیں
احکامات کا اختیار ابھی تک ان کے پاس ہی ہے ،رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم کا
ارشادِ پاک ہے قیدی کوچھڑاؤ ،عافیہ صدیقی صاحبہ کی آزادی کے لیے ہر فریق کو
آواز بلندکرنی چاہیے اورمیڈیا بالخصوص پرنٹ میڈیا اس ذمہ داری کو بخوبی
احسن طریقے سے سرانجام دیا ہے مگر حاصل جمع کچھ نہیں ہوا عافیہ تب بھی قید
تھی آج بھی قید ہے اپوزیشن پارٹیاں اپنے مفادات کے لیے دھرنے اورریلیوں کی
راہ ہموار کرلیتی ہیں مگر عافیہ صدیقی کے لیے کوئی موثر آواز نہیں اٹھائی
گئی ایسی آواز جس سے عافیہ صدیقی قید وبند سے آزاد ہوجاتی اس قوم کی بیٹی
کو کراچی سے امریکی غنڈوں نے اٹھایا پھر اسے افغانستان منتقل کردیا یہ سابق
صدرپرویزمشرف کا دور تھا بعدازاں سابق وزیراعظم یوسف رضاگیلانی نے یقین
دلایا کہ عافیہ صدیقی کو رہائی دلائیں گے مگر یہ وعدہ بھی شرمندہ تعبیر نہ
ہو اس بنیا دی وجہ یہ ہے ایسے ہلکے پھلکے کام ان کی شایانِ شان نہیں ہوتے
کیونکہ ایسے اقدامات سے امکان ہے کہ ٹرمپ ناراض ہوجائے یا ائی ایم ایف قرضہ
دینا بند کردے یایہ اقدام سیکولر ریاست کا خواب شرمندہ تعبیر کرنے کی راہ
میں رکاوٹ ثابت ہوجائے وغیرہ وغیرہ وزیر خارجہ صاحب جس جسارت سے حافظ سعید
صاحب کو آڑے ہاتھوں لیتے ہیں کاش وہ اس انداز سے عافیہ صدیقہ کے لیے آواز
بلند کرتے سوال یہ ہے وہ بھی کیوں کریں یہ قومی ایشو نہیں ہے جس پر آواز
بلند کی جائے اگر قومی ایشو ہوتا تو وہ ضرورآواز بلندکرتے مقتدر حکومت کی
جانب سے اس ایشو پر کوئی خاص کام نہیں کیاگیا خادم اعلی پنجاب شہباز شریف
کو چاہیے کو وہ اس پر سنجیدگی سے غور کریں یقینا بہن عافیہ صدیقی کی رہائی
پوری قوم کی لیے خوشخبر ی ثابت ہوسکتی ہے اوریہ اقدام موصوف کی ہمدردی میں
اضافہ کا باعث ہوگا جناب عمران خان صاحب کوبھی چاہیے کہ وہ بھی اپنے ایجنڈا
میں عافیہ صدیقی کی رہائی کوشامل کریں اگر وہ واقعی نیا پاکستان تعمیر کرنا
چاہتے ہیں تو ورنہ بادی النظر میں انہیں بھی سابقین کی صف میں شامل کرنے
میں لوگ تعمل سے کام نہیں لیں گے وہ وقت امت مسلمہ کے ضمیر کو جھنجھوڑنے کے
لیے کافی تھا جب مسلمہ امہ کی بیٹی ڈاکٹر عافیہ صدیقی نے بھری عدالت میں جج
کو مخاطب کرکے کہا کہ میں پاگل نہیں ہوں میں ایک مسلمان عورت ہوں مجھے مرد
فوجی زبردستی برہنہ کرکے تشدد کا نشانہ بناتے ہیں اور میرے قدموں میں قرآن
شریف ڈالا جاتا ہے اور یہ سب کچھ جج کے حکم پر کیا جاتا ہے انہوں نے کہا کہ
میں اسی دن مر چکی تھی جب مجھے پہلی بار برہنہ کرکے میری وڈیو بنائی گئی
اور مجھے بتایا گیا کہ یہ وڈیو انٹر نیٹ پر جاری کردی گئی ہے انہوں نے کہا
کہ میں دنیا میں امن و آشتی پھیلانا چاہتی ہوں میں امریکہ سمیت کسی ملک کے
خلاف نہیں ہوں اور نہ ہی میں عیسائیوں اور یہودیوں کے خلاف ہوں بلکہ مجھے
یہودیوں کے ایک مختصر گروہ صیہونیوں نے سازش کا نشانہ بنایا ہے عدالت میں
موجود مسلم خواتین ڈاکٹر عافیہ صدیقی کی مظلومیت پر اشکبار تھیں اور انہیں
حوصلہ دے رہی تھیں کہ پاکستانی قوم اور دنیا بھر کے مسلمان آپ کے ساتھ ہیں
ڈاکٹر عافیہ صدیقی اس کی بے گناہی ثابت ہونے پر86برس کی سزاسنادی گئی بین
الاقومی حقوق کی تنظیمی خاموش تماشائی بنی رہیں انسانی حقوق کا علمبردار
انتہاپسندی اور قتل وغارت کا چمپئن امریکہ کے لیے یہ دن سیاہ دن تھا جب
امریکی عدالت ناانصافی کی تمام حدیں عبور کرچکی تھی انتہاپسندی اورتعصب میں
اعلیٰ عدلیہ کی آنکھیں اندھی ہوچکی تھیں ،انصاف کا قتل ہوا مگر کسی عالمی
تنظیم کواس پر لب کشائی کرنے کی زحمت گوار نہ ہوئی کیوں ہوتی کیوں کہ یہ
فیصلہ بے ضمیرے مسلمانوں کے منہ پر طمانچہ تھا جو صہیونیوں کی محبت میں
اپنا سب کچھ قربان کرچکے ہیں آج صورتحال یہ ہے کہ قوم کی بیٹی ایک امریکہ
قیدخانے میں مقید ہے اور اس کے مسئلے پر اپنی سیاست چمکانے والوں کاکردار
صم بکم عمی کا مصداق ہوچکا ہے اور اب انہیں اس مسئلے کے حل سے کوئی پروا
نہیں عافیہ صدیقی کی پاکستان واپسی کا معاملہ ہماری قومی حمیت کی ابتری کا
ایک بہت بڑا ثبوت ہے کیونکہ ایک مرحلہ تو ایسا بھی آگیا تھا کہ یہ مسئلہ
فوری طور پر حل ہوسکتا تھا کہ جب ریمنڈ ڈیوس کو گرفتار کیا گیا تھا اور
اسکی رہائی کیلئے پوری امریکی انتظامیہ و مقننہ اپنے گھٹنوں کے بل جھکنے پر
مجبور ہوگئی تھی اور اگر اس وقت ریمنڈ ڈیوس کی رہائی کو عافیہ کی رہائی کے
تبادلے سے مشروط کیا جاتا تو عافیہ کی واپسی اسی وقت ممکن ہوجاتی مگر یہاں
موجود انکے چند طاقتور امریکی غلاموں نے مسئلے کا یہ حل نکلنے ہی نہ دیا
اوراب جبکہ امریکا کے ساتھ تحویل مجرمان کا سمجھوتہ بھی ہوچکا ہے تو حکومت
پاکستان کے پاس کوئی بھی بہانہ باقی نہیں رہا کہ وہ عافیہ کو وطن واپس نہ
لاسکے اور اس حوالے سے عافیہ کی وطن حوالگی حکومت کی محض ایک رسمی درخواست
پہ منحصر ہے عافیہ کی بہن ودیگر رفقا در در انصاف کا دروازہ کھٹکھٹاتے ہوئے
تھک چکے ہیں مگر ہمت نہیں ہارے اور یہی وجہ ہے کہ حکومت اور غفلت شعار قوم
کے ضمیر کو جھنجوڑنے کے لیے عافیہ موومنٹ کی جانب سے ڈاکٹرعافیہ صدیقی کی
رہائی کے لیے کوششیں جاری وساری ہیں بحثیت قوم سب ڈاکٹر عافیہ صدیقی کی
آواز بننا چاہیے میڈیا اور قلم کار تو پہلے بھی اس آواز کو مضبوطی سے
اٹھائے ہوئے تھے اور آج بھی عافیہ صدیقی کی آواز بنے ہوئے ہیں مختصر یہ
حکمرانوں کو عافیہ صدیقی کے لیے صدق دل سے کام کرناچاہیے یہ قومی فریضہ
ہونے کے ساتھ ساتھ اسلامی فریضہ بھی ہے۔ |