تیرے قدموں کو جو منزل کا نشا ن جانتے تھے
بھول بیٹھے تیرے نقشِ کف پا تیرے بعد
ہمارے آباؤ اجدادنے اپنا گھر بار ،مال وجان کی قربانی دے اسلامی جمہوریہ
پاکستان کوحاصل کیا ہمارے اسلاف نے یہی طے کیا تھا کہ ہم ہندوؤں اور سکھوں
سے جدا ایک قوم ہیں اور ہم اسی لیے ایک علیحدہ وطن بنائیں گے تاکہ وہاں
اسلامی تعلیمات کے مطابق زندگی گزار سکیں لیکن آج افسو س کے ساتھ فاشزم کو
فروغ دینے والے اسلامی فلاحی ریاست کا راگ آلاپ رہے ہیں اور بابانگ دھل
فاشزم کو قائداعظم محمدعلی جناح کی طرف منسوب کیا جارہاہے۔وہ سرحدیں جو
شہیدوں کے خون سے وضع کی گئی ہیں جن کی بنیادوں میں لاکھوں ماؤں کے نوحے
اور بیٹیوں کی عصمتیں دفن ہیں کیا ہمارا موجودہ رویہ اس کی توہیں کے مترادف
نہیں ہے کیا نظریاتی سرحدوں پر ضرب لگا کر حضرت قائد اعظمؒ کی توہیں کار
ارتکاب نہیں کیا جا رہا ہماری سلامتی اور بقاء کی ضمانت اسی میں ہے کہ ہم
اپنے مفادات کیلئے حضرت قائد اعظم کے فرمودات کو نہ بھولیں ہمیں یقین کرنا
ہو گا کہ ہمارا راستہ وہ نہیں جس پر ہم چل رہے ہیں بلکہ درست سمت وہی ہے جو
اس مملکت خداداد کے عظیم المرتبت بانی نے ہمارے کے لیے متعین کی تھی۔ ہم
بحیثیت پاکستانی قوم زندہ روایات کے امین حضرت ڈاکٹر علامہ محمد اقبال کے
شاہیں کی تصویر ہیں۔ قائد کے نظریات کی بنیاد اسلام کے فلسفہ پر ہے ۔آل
انڈیا مسلم سٹوڈنٹس فیڈریشن کے اجلاس منعقدہ 15 نومبر 1942 ء میں قائد اعظم
نے فرمایا :مجھ سے اکثر پوچھا جاتا ہے کہ پاکستان کا طرز حکومت کیا ہوگا؟
پاکستان کے طرز حکومت کا تعین کرنے والا میں کون ہوتا ہوں۔ مسلمانوں کا طرز
حکومت آج سے تیرہ سو سال قبل قرآن کریم نے وضاحت کے ساتھ بیان کر دیا تھا۔
الحمد ﷲ ، قرآن مجید ہماری رہنمائی کے لیے موجود ہے اور قیامت تک موجود رہے
گا ،6دسمبر 1943 کو کراچی میں آل انڈیا مسلم لیگ کے 31 ویں اجلاس سے خطاب
کے دوران قائد اعظم نے فرمایا:وہ کون سا رشتہ ہے جس سے منسلک ہونے سے تمام
مسلمان جسد واحد کی طرح ہیں ، وہ کون سی چٹان ہے جس پر ان کی ملت کی عمارت
استوار ہے ، وہ کون سا لنگر ہے جس پر امت کی کشتی محفوظ کر دی گئی ہے ؟ وہ
رشتہ ، وہ چٹان ، وہ لنگر اﷲ کی کتاب قرانِ کریم ہے۔ مجھے امید ہے کہ جوں
جوں ہم آگے بڑھتے جائیں گے ، قرآنِ مجید کی برکت سے ہم میں زیادہ سے زیادہ
اتحاد پیدا ہوتا جائے گا۔ ایک خدا ، ایک کتاب ، ایک رسول ، ایک امت ،10
ستمبر 1945 ء کو عید الفطر کے موقع پر قائد اعظم نے فرمایا :ہمارا پروگرام
قرآنِ کریم میں موجود ہے۔ تمام مسلمانوں پر لازم ہے کہ قرآن غور سے پڑھیں۔
قرآنی پروگرام کے ہوتے ہوئے مسلم لیگ مسلمانوں کے سامنے کوئی دوسرا پروگرام
پیش نہیں کر سکتی،اسی طرح قائد اعظم 4مارچ 1946ء کو شیلانگ میں خواتین کے
جلسے سے خطاب کرتے ہوئے کہاکہ ''ہندو بت پرستی کے قائل ہیں، ہم نہیں ہیں ہم
مساوات، حریت اور بھائی چارے کے قائل ہیں جبکہ ہندو ذات پات کے بندھن میں
جکڑے ہوئے ہیں۔ہمارے لئے یہ کس طرح ممکن ہے کہ ہم صرف ایک بیلٹ بکس میں
اکٹھے ہو جائیں۔ آئیے اپنی کتاب مقدس قرآن حکیم اور حدیث نبوی ﷺ اور اسلام
کی عظیم روایات کی طرف رجوع کریں جن میں ہماری رہنمائی کے لئے ہر چیز موجود
ہے ۔ہم خلوص نیت سے ان کی پیروی کریں اور اپنی عظیم کتاب قرآن کریم کا
اتباع ،2 جنوری 1948 ء کو کراچی میں اخبارات کے نمائندوں سے بات کرتے ہوئے
قائد اعظم نے ارشاد فرمایا :اسلامی حکومت کے تصور کا یہ امتیاز پیش نظر
رہنا چاہیے کہ اس میں اطاعت اور وفا کا مرکز اﷲ تعالی کی ذات ہے جس کی
تعمیل کا عملی ذریعہ قرآن کے احکام و اصول ہیں۔ اسلام میں اصلا نہ کسی
بادشاہ کی اطاعت ہے نہ پارلیمنٹ کی نہ کسی شخص یا ادارے کی۔ قرآن کریم کے
احکام ہی سیاست و معاشرت میں ہماری آزادی اور پابندی کی حدیں مقرر کر سکتے
ہیں۔ دوسرے لفظوں میں اسلامی حکومت قرآنی احکام و اصولوں کی حکومت ہے ،فروری
1948 میں امریکی عوام کو ریڈیو کے ذریعے خطاب کرتے ہوئے جناح نے
کہا:پاکستانی قانون کو ابھی پاکستانی اسمبلی نے بنانا ہے، مجھے یہ بات
معلوم نہی کہ قانون کی اصل وضع کیا ہوگی، لیکن مجھے یقین ہے کہ یہ ایک
جمہوری قسم کی ہو گی،جس میں اسلام کے بنیادی اصول بھی شامل کئے جائیں گے۔
آج بھی یہ قانون ایسے ہی قابل عمل ہیں جیسے کہ وہ 13 سو سال قبل تھے۔اسلام
اوراسکے نظرئے نے ہمیں جمہوریت سکھائی ہے۔ یہ ہمیں آدمی،انصاف کے مساوات
اور دوسروں سے اچھائی کا درس دیتی ہے۔ہم ان اقدار کے وارثین ہیں اور مستقبل
کے پاکستانی قانون کو بنانے کی مکمل ذمہ داری کا احساس رکھتے ہیں،14 فروری
1948 ء کو قائد اعظم نے بلوچستان میں خطاب کرتے ہوئے فرمایا:میرا ایمان ہے
کہ ہماری نجات کا واحد ذریعہ اس سنہری اصولوں والے ضابطہ ء عمل میں ہے جو
ہمارے عظیم واضع قانون پیغمبر اسلام نے ہمارے لیے قائم کر رکھا ہے۔ ہمیں
اپنی جمہوریت کی بنیادیں سچے اخلاقی اصولوں اور تصورات پر رکھنی چاہئیں۔
اسلام کا سبق یہ ہے کہ مملکت کے امور و مسائل کے بارے میں فیصلے باہمی بحث
و تمحیص اور مشوروں سے کیا کرو،13 اپریل 1948 ء کو اسلامیہ کالج پشاور میں
تقریر کرتے ہوئے بانی پاکستان نے فرمایا:ہم نے پاکستان کا مطالبہ زمین کا
ایک ٹکڑا حاصل کرنے کے لیے نہیں کیا بلکہ ہم ایسی جائے پناہ چاہتے تھے جہاں
ہم اسلامی اصولوں کے مطابق زندگی بسر کر سکیں،یکم جولائی 1948 ء کو سٹیٹ
بنک آف پاکستان کا افتتاح کرتے ہوئے قائد اعظم نے فرمایا :میں اشتیاق اور
دل چس پی سے معلوم کرتا رہوں گا کہ آپ کی ریسرچ آرگنائزیشن بینکاری کے ایسے
طریقے کس خوبی سے وضع کرتی ہے جو معاشرتی اور اقتصادی زندگی کے اسلامی
تصورات کے مطابق ہوں۔ مغرب کے معاشی نظام نے انسانیت کے لیے بے شمار مسائل
پیدا کر دیے ہیں اکثر لوگوں کی یہ رائے ہے کہ مغرب کو اس تباہی سے کوئی
معجزہ ہی بچا سکتا ہے۔ یہ تباہی مغرب کی وجہ سے ہی دنیا کے سرپر منڈلا رہی
ہے۔ مغربی نظام انسانوں کے مابین انصاف اور بین الاقوامی میدان میں آویزش
اور چپقلش دور کرنے میں ناکام رہا ہے ،25 جنوری 1948 ء کراچی بار ایسوسی
ایشن کے اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے فرمایا : آج ہم یہاں دنیا کی عظیم ترین
ہستی حضرت محمد صلی اﷲ علیہ و آلہ وسلم کو نذرانہ ء عقیدت پیش کرنے کے لیے
جمع ہوئے ہیں۔ آپ صلی اﷲ علیہ و آلہ و سلم کی عزت و تکریم کروڑوں عام انسان
ہی نہیں کرتے بلکہ دنیا کی تمام عظیم شخصیات آپ صلی اﷲ علیہ و آلہ وسلم کے
سامنے سر جھکاتی ہیں۔ وہ عظیم مصلح تھے ، عظیم رہنما تھے ، عظیم واضع قانون
تھے ، عظیم سیاستدان تھے اور عظیم حکمران تھے ، ہم ان کی تعلیمات پر عمل
کرتے رہے تو کسی میدان میں کبھی بھی ناکامی نہ ہوگی ،آخر میں ہم قائد اعظم
محمد علی جناح رحمۃ اﷲ علیہنے 30جولائی 1948کو اسکاوٹ ریلی لاہور سے خطا ب
کرتے ہوئے کہا:" میں نے بہت دنیا دیکھ لی۔ اﷲ تعالی نے عزت ، دولت ، شہرت
بھی بے حساب دی۔ اب میری زندگی کی ایک ہی تمنا ہے کہ مسلمانوں کو باوقار و
سر بلند دیکھوں۔ میری خواہش ہے کہ جب مروں تو میرا دل گواہی دے کہ جناح نے
اﷲ کے دین اسلام سے خیانت اور پیغمبر اسلام حضرت محمد صلی اﷲ علیہ و آلہ
وسلم کی امت سے غداری نہیں کی۔ مسلمانوں کی آزادی ، تیظیم ، اتحاد اور
مدافعت میں اپنا کردارٹھیک ٹھیک ادا کیا اور میرا اﷲ کہے کہ اے میرے بندے!
بے شک تو مسلمان پیدا ہوا۔ بے شک تو مسلمان مرا، مگر افسوس ہر آنے والے
حکمران نے قائداعظم ؒ کے خواب کی اپنے انداز میں تشریح کی یہی وجہ ہے کہ ہم
آج بھی بہ ہے ثیت قوم ترقی یافتہ قوموں سے بہت پیچھے ہیں بقول شاعر:
مل ہی جاتی کبھی ان خوابوں کی تعبیر کہیں
تیرے وہ خواب مگر ہم سے سنبھالے نہ گئے
|