یہ ہماری خوش قسمتی ہے کہ اﷲ تعالیٰ نے ایک عظیم اور قابل
شخص کو ہماری سرزمین پاکستان کے شہر کراچی میں پونجا جناح کے ہاں5
دسمبر1876کو پیدا فرمایا۔قائد اعظم کی قابلیت ،،عزم و ہمت ،سیاسی بصیرت سے
کسی کو انکار نہیں اس کا اندازہ ہم14 اگست 1947کو ایک اسلامی جمہوریہ مملکت
کے وجود سے لگا سکتے ہیں۔قائد اعظم کی انتھک محنت اور مدبرانہ صلاحیتوں کی
وجہ سے ہی یہ سب ممکن ہواآپ کی انھی کوششوں کی وجہ سے ا ٓج ہم آزادی کے مزے
لوٹ رہے ہیں۔آزادی کی قیمت پوچھنی ہے تو مقبوضہ کشمیر کے مسلمانوں سے
پوچھیں ،آزادی کی قدروقیمت جاننی ہے تو روہنگیا کے مسلمانوں سے جانیں جو آج
اپنا وطن نہ ہونے کی وجہ سے دنیا میں در بدر ہیں۔
1896 کے وسط میں اپنی تعلیم مکمل کر کے واپس وطن پہنچے ۔یہاں آپ کراچی سے
ممبئی منتقل ہو گئے ۔یہاں آپ نے 24اگست1896کو اپنا نام ہائی کورٹ میں رجسٹر
کروایا اور باقائدہ ایک وکیل کی حیثیت سے اپنی پریکٹس کرنے لگے۔اس کے بعد
آپ نے اپنی سیاست کا آغاز کانگریس میں شمولیت سے کیا اس وقت مسلم لیگ کا
قیام عمل میں نہیں آیا تھا ۔آپ اپنی صلاحیتوں کی وجہ سے جلد ہی کانگرس میں
نمایاں مقام حاصل کرنے میں کامیاب ہو گئے۔لیکن کانگریس کا مسلمانوں کے ساتھ
متعصبانہ رویے کی وجہ سے آپ کانگریس سے علیحدہ ہو گے۔اسی دوران آپ دوبارہ
لندن روانہ ہوگئے اور وہاں وکالت شروع کر دی۔
ہندوستان میں مسلمانوں کا کوئی خاص لیڈر نہیں تھا جو مسلمانوں کے لئے اپنی
آواز بلند کر سکتا ۔مسلمانوں کے انہی حالات کو دیکھتے ہوئے آپ واپس
ہندوستان آ گئے اور مسلم لیگ میں شامل ہو گئے اور اپنی مدبرانہ صلاحیتوں
اور فہم و فراست کی وجہ سے مسلم لیگ کو مسلمانوں کی ایک سیاسی جماعت بنا
دیا آپ کی زیر قیادت بہت جلد ہندو اور انگریز مسلمانوں کی اس جماعت کو ایک
جدا گانہ سیاسی قوت ماننے لگے اسی سیاسی جماعت مسلم لیگ نے آگے چل کر
مسلمانوں کے وقار اور الگ مملکت کے لئے ایک تحریک کی شکل اختیار کر لی اس
تحریک کا سہرا بھی آپ کے سر ہے آپ کی سیاست جھوٹ و فریب اور ریاکاری سے پاک
تھی آپ ہمیشہ سچ بولتے تھے آپ کی انہی خوبیوں کی وجہ سے ہمیں ایک آزاد ملک
حاصل ہوا جس میں ہم آج سکھ کا سانس لے رہے ہیں یہ ہمارے قائد کی ہی مرہون
منت ہے۔
آپ کا انتقال 11ستمبر 1948 کو ہوا جس کا نہ صرف پاکستان کے مسلمانوں بلکہ
دنیا بھر کے مسلمانوں کو غم تھا ،یقینا ہم ایک عظیم لیڈر سے محروم ہو گئے
آپ کی کوششوں سے مملکت پاکستان متحد تھے اور سب میں آگے بڑھنے کا جذبہ کوٹ
کوٹ کر بھرا ہوا تھا لیکن ہماری بد قسمتی تھی کہ قائد ہم سے جلد جدا ہو گئے
اور اس کے بعد ہمیں کوئی ایسا لیڈر میسر نہ ہو سکا جو قوم کو متحد کرتا اور
وطن پاکستان کی ترقی کا سوچتا قائد کے وصال کے بعد بد قسمتی سے ہمیں کوئی
قائدانہ صلاحیتوں کی قیادت میسر نہ ہو سکی جس کی وجہ سے رفتہ رفتہ اندرونی
و بیرونی مسائل سر اٹھانے لگے اور ملک میں انتشار سی کیفیت ہونے لگی اور
آخر کار 1971 میں ہمارا ملک دو لخت ہو گیا لیکن ہم نے پھر بھی اس سے کوئی
سبق حاصل نہیں کیا ۔
اگر میرے قائد زندہ ہوتے تو میرا پاک وطن کبھی دو لخت نہ ہوتا افسوس کہ ہم
نے ابھی تک اس سانحہ سے کوئی سبق حاصل نہیں کیا اور اپنی انا کی خاطر وطن
کی انا کو بالائے تاک رکھ دیتے ہیں ہمیں پھر سے قائد کے فرمودات پر عمل
کرنا ہو گا تا کہ ہمارا پیارا وطن جلد ہی دنیا میں ایک روشن ستارہ بن کر
ابھرے ہمیں قائد جیسی صلاحتیں رکھنے والے لیڈر کی اشد ضرورت ہے خدا کرے کہ
میرے ملک کے تمام سیاسی لیڈران اپنی اپنی انا کو چھوڑ کر وطن کی خاطر ایک
پلیٹ فارم پر یکجا ہو جائیں اور مل کر اس وطن کی ترقی و ترویج کے لئے کوشاں
ہوں۔آمین ثم آمین |