2014-15سے مقبوضہ کشمیر میں یہ مناظر دیکھے جانے لگے کہ
ہندوستان مخالف عوامی مظاہروں میں دو،تین افراد داعش کے نشان والے جھنڈے
اور بینر لیکر کھڑے ہو جاتے تھے۔اسی سال داعش کی طرف سے جنوبی ایشیا میں
اپنا وجود قائم کئے جانے کا اعلان کیا۔جنوبی ایشیا داعش کے قیام کی کوششوں
میں تیزی دیکھنے میں آ رہی ہے تاہم اس سے قطع نظر اقوام متحدہ کی سلامتی
کونسل کی قرار دادوں کے مطابق رائے شماری کے ذریعے مستقل حل تک متنازعہ
قرار دی گئی ریاست جموںو کشمیر میں داعش کی موجودگی کشمیریوں کی منصفانہ
جدوجہد آزادی کے لئے نہایت خطرناک ہے اور داعش کے طرز فکر و عمل کو
کشمیریوں کی حمایت حاصل نہیں ہے۔کشمیر کے دانشور کشمیر میں داعش کے قیام کی
کوششوںکو کشمیر کاز کے لئے مہلک نتائج پر مبنی خطرات کا پیش خیمہ قرار دیتے
ہوئے تحریک آزادی کشمیر کے تمام حلقوں سے مطالبہ کرتے ہیں کہ کشمیریوں کی
جائز جدوجہد آزادی کو داعش کے نام سے تباہ کرنے کی کاروائیوں کا سختی سے
نوٹس لینا اور اس کا تدارک کرنا ناگزیر ہے۔اپنے بنیادی حق آزادی کی جدوجہد
کرنے والے کشمیری پہلے ہی لال قلعے، انڈین پارلیمنٹ اورممبئی حملے جیسے چند
واقعات کے مہلک ترین نائج بھگت رہے ہیں، اب داعش کے نام پر کشمیریوں کے طوق
غلامی کو مضبوط بنانے کے اقدامات پر خاموش رہنا مجرمانہ غفلت قرار پا سکتا
ہے۔ اہل دانش کی رائے میں کشمیر میں داعش ہندوستانی خفیہ ایجنسیوں کی
کاروائی ہے تا کہ کشمیریوں کی جائز جدوجہد آزادی کو دنیا میں بدنام کرتے
ہوئے ناقابل قبول قرار دیا جا سکے۔کشمیر میں داعش کے جراثیم پھیلانے کی
کوششوں کے تناظر میں بھی پاکستان کی کشمیر پالیسی کو بہتر اور موثر بنانے
کے اقدامات ناگزیر ہیں۔پاکستان کی کشمیر پالیسی پر کشمیری حیران ہی نہیں
پریشان بھی ہیں کہ کچھ معلوم نہیں ہوتا کہ کشمیر کاز کے حوالے سے پاکستان
کی حکمت عملی کیا ہے اور اقدامات کیا ہیں۔
گزشتہ دنوں اسلام آباد میں پاکستان ،ایران،افغانستان،ترکی ،چین اور روس کی
سپیکر کانفرنس منعقد ہوئی۔اس کانفرنس میں ،خطے میں دہشت گردی کی صورتحال
اور اس کے تدارک کے حوالے سے باہمی تعاون پر غور کیا گیا۔ اس حوالے سے داعش
کے بڑہتے خطرات کا ادراک کیا گیا اور دہشت گردی کے خلا ف مشترکہ تعاون کو
موثر بنانے سے اتفاق کیا گیا۔کانفرنس میں کہا گیا کہ عالمی سیاست پر امریکی
تسلط کے مقابلے میں پاکستان، ایران، ترکی، افغانستان، چین اور روس کا اتفاق
رائے بہت اہمیت کا حامل ہوگا، امریکہ اپنے اقدامات سے اسرائیل اور انتہا
پسند ہندو ریاست بھارت کی سرپرستی کررہا ہے، داعش کے خطرے سے آگاہی بھی
سپیکرز کانفرنس کی بڑی کامیابی ہے، کیونکہ شام اور عراق سے شکست کے بعدداعش
کے افراد افغانستان میں اکٹھے ہو چکے ہیں، انہیں یہاں سے نکالنا ضروری ہے
ورنہ یہ پاکستان اور خطے کے دوسرے ممالک کیلئے خطرے کا باعث ہوں گے۔انہی
دنوں روسی حکومت نے کہا کہ ازبکستان اور راجکستان سے ملحقہ افغانستان کے
علاقوں میں داعش کی قوت میں تیزی سے اضافہ ہورہا ہے اور ان کی تعداد تقریبا
دس ہزار ہے۔روسی حکومت نے یہ بھی بتایا کہ بغیر نشان والے نامعلوم ہیلی
کاپٹر عراق،شام سے داعش کے اہم عسکریوں کو افغانستان پہنچا رہے ہیں۔جنوبی
ایشیا میںتقریبا چار سال قبل داعش کی مختلف سرگرمیوں کی اطلاعات عمومی طور
پر آنے لگیں۔۔فرقوں کے نام پر۔افغان طالبان، پاکستانی طالبان اور القاعدہ
سے وابستہ افراد داعش میں شامل ہورہے ہیں ۔قبائلی علاقوں میں پاکستان کے
فوجی آپریشن سے یہ عناصر افغانستان منتقل ہوئے ہیں۔افغانستان اور پاکستان
میں دہشت گرد کاروائیوں میں ملوث گروپ ،دہشت گرد حملوں کے لئے ایک دوسرے کی
مدد بھی کرتے دیکھے گئے ہیں۔یہ بات بھی اہم ہے کہ داعش کے نام پر اسلامی
ملکوں میں اسلامی فرقوں کو ایک دوسرے کے خلاف لڑایا جا رہا ہے۔کانفرنس
کے29نکاتی مشترکہ اعلامیہ میں 19ویںنمبر پر مسئلہ کشمیر کے حوالے سے کہا
گیا کہ عالمی اور علاقائی امن و استحکام کے لئے کشمیر کا مسئلہ پاکستان اور
ہندوستان کے درمیان پرامن طورپر اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کی قرار دادوں
کے مطابق حل کیا جانا ضروری ہے۔یہ کانفرنس دہشت گردی کے تدارک کے لئے منعقد
کی گئی ،تاہم کانفرنس میں شریک دنیا کے چھ اہم ملکوں نکی یہ کانفرنس جنوبی
ایشیا،خطے سے متعلق امریکہ کے حالیہ اعلانات اور اقدامات کو '' کائونٹر''
کئے جانے کے حوالے سے بھی نہایت اہم ہے۔
گزشتہ روز برطانوی نشریاتی ادارے '' بی بی سی'' نے ''کشمیری تنظیم کا دولت
اسلامیہ سے وفاداری کا اعلان'' کے عنوان سے اپنی ایک رپورٹ میں کہا کہ 'شدت
پسند تنظیم دولت اسلامیہ نے ایک ویڈیو شیئر کی ہے جس میں کشمیری مجاہدین کی
جانب سے ان کے ساتھ وفاداری کا اعلان کیا گیا ہے۔مبصرین کا خیال ہے کہ اس
سے انڈیا کے زیر انتظام کشمیر میں دولت اسلامیہ کی شاخ کھلنے کا راستہ
ہموار ہوتا نظر آتا ہے۔تقریبا 14 منٹ کی اس ویڈیو کو 25 دسمبر کو دولت
اسلامیہ کے ناشر نیوز نیٹ ورک چینل پر ٹیلی گرام میسجنگ ایپ کے ذریعے ولایت
کشمیر ہیش ٹیگ کے ساتھ شیئر کیا گیا ہے۔اس میں ایک نقاب پوش نظر شخص نظر آ
رہا ہے جس کی شناخت ابو البرا الکشمیری کے طور پر کی گئی ہے۔ وہ اردو زبان
میں دولت اسلامیہ کے رہنما ابوبکر البغدادی کے ساتھ وفاداری کا اعلان کر
رہے ہیں۔ اس بیان کے ساتھ انگریزی زبان میں سب ٹائٹل ہیں۔ وہ اس خطے کے
دوسرے شدت پسند گروہوں کو اس کی ترغیب بھی دیتے ہیں۔الکشمیری نے حال ہی میں
ذاکر موسی کی قیادت میں کشمیر میں قائم ہونے والے القاعدہ سے منسلک جہادی
گروپ انصار غزو الہند کا نام لیتے ہوئے اسے بیعت کی دعوت دی۔ویڈیو میں نظر
آنے والے شخص نے پاکستانی انٹیلی جنس سروس آئی ایس آئی اور انڈیا کے باطل
نظام کی مذمت کی اور مقامی نام نہاد جہادی گروپ حزب لشکر جیش تحریک کو جعلی
گروہ قرار دیا۔ویڈیو کا اختتام ایک گلی میں چند نقاب پوش لوگوں پر ہوتا ہے
جو جنگجو تنظیم دولت اسلامیہ کا پرچم لہرا رہے ہیں اور زور زور سے دولت
اسلامیہ کے رہنما ابوبکر البغدادی سے وفاداری کا اعلان کر رہے ہیں۔ '
امریکہ کے ایک تھنک ٹینک''ووڈرو ولسن انٹر نیشنل سنٹر''واشنگٹن سے منسلک
جنوبی ایشیائی امور کے ماہر مچل کوگلمین نے 2015میں اپنی ایک رپورٹ میں
بتایا کہ داعش جنوبی ایشیا کو عدم استحکام سے دوچار کر سکتی ہے،داعش کے
جنگجو عراق اور شام سے افغانستان منتقل ہو رہے ہیں،پاکستان میں داعش کا
لٹریچر تقسیم کیا جا رہا ہے اور کشمیر (بھارتی مقبوضہ کشمیر) میں بھی داعش
کے جھنڈے نظر آ رہے ہیں،کئی پاکستان جنگجوئوں نے داعش میں شمولیت کا اعلان
کیا ہے،افغانستان اور پاکستان میں القاعدہ اور طالبان سے وابستہ مختلف
تنظیموں کے افراد داعش میں شامل ہورہے ہیں۔بہ الفاظ دیگر افغانستان اور
پاکستان میں دہشت گرد کاروائیوں کرنے والے مختلف گروپوں کے افراد کو داعش
میں جمع/اکٹھا کیا جا رہا ہے اور داعش کو مضبوط بناتے ہوئے اس کا دائرہ کار
جنوبی ایشیا میں پھیلایا جا رہا ہے۔امریکی ماہر کا یہ بھی کہنا ہے کہ جنوبی
ایشیائی عسکریت پسند گروہوں نے آئی ایس ایس کے ساتھ موقف پرست شراکت داری
کا آغاز کیا ہے۔اس امریکی رپورٹ کے مطابق مشرق وسطی اور شمالی افریقہ کے
بعدجنوبی ایشیا میں داعش کو پھیلانے،مضبوط بنانے کا مطلب دنیا بھر میں داعش
کو وسعت دینا ہے اور داعش کی کاروائیوں سے برصغیر میں جنگ شروع ہو سکتی
ہے۔ایک دوسری رپورٹ کے مطابق خطے کے مسلح گروپ اور وسیع پیمانے پربے
روزگاری کا شکار یہ خطہ داعش کے پھیلائو کا باعث بن سکتا ہے۔رپورٹ کے مطابق
افغانستان،پاکستان،ہندوستان اور بنگلہ دیش میں داعش کے ایسے ہم خیال موجود
ہیں جو داعش کی حمایت کی سوچ رکھتے ہیں۔ |