سیاسی قیادت کا رویہ بڑا غیر حقیقت پسندانہ رہا ہے۔شیخ
چلیوں جیسا یہ رویہ بڑا عجیب ہے۔ وہ ہمالیہ کی تسخیر کا خواب دیکھتے ہیں
مگر جو بندوبست پاس ہے۔وہ تو کسی چھوٹی موٹی چوٹی سر کرنے کو بھی کافی
نہیں۔بڑی بڑ ماردینا پھر خواہ مخواہ کی مشقت میں کود جا نا ایسی ہی حماقتیں
ہیں۔پھر ہوتا یوں ہے کہ خود بھی نامرادرہتے ہیں۔اور ایک ہجوم کی تھکن کا
باعث بنتے ہیں۔یہاں بڑی بڑی سیاسی تحریکیں چلانے کے اعلان ہوئے۔مگر جو منزل
طے کی گئی تھی۔اس کا عشر عشیر بھی نہ حاصل ہوپایا۔اپنی جان بھی جوکھم میں
ڈالی اور دنیا سے مذاق بھی اڑوایا۔کچھ تحریکیں تواعلان ہی ثابت ہوئیں جوں
جوں مقررہ تاریخ قریب آنے لگی۔قیادت نے جھوٹ موٹ مقاصد پالیے جانے کا دعوی
کردیا، تحریک چلانے کی نوبت نہ آئی۔کبھی یوں ہوا کہ مہینوں تحریک چلانے کا
کہاگیامگر دنوں میں ہی کسی بہانے سے سمیٹ لی گئی۔ مقاصد پورے ہوجانے کا
روایتی اعلان ہوا او رمیدان چھوڑدیا گیا۔ قوم کو ٹکڑوں میں بانٹ کر اپنا
اپنا مقصد پورا کرنے کی خودغرضی اپنائی جارہی ہے۔ کسی متحد قوم کی بجائے
سیاسی و مذہبی دھڑے بندیوں میں تقسیم کررہے ہیں۔علامہ ڈاکٹر طاہر القادری
نے فرمایا ہے کہ نوازشریف تم تحریک عدل شروع کرو ہم قصاص کی تحریک شرو ع
کردیں گے۔تحریک انصاف کے چئیرمین عمران خاں بھی کہ رہے ہیں کہ نوازشریف تم
عدل کی تحریک شروع کروں میں بھی عدلیہ بچانے کے لیے عوام کو سڑکوں پر لے
آؤں گا۔دونوں رہنماؤ ں کی جانب سے سڑکوں پر نکلنے کا اعلان اس وقت کیا
جارہاہے۔جب سابق وزیر اعظم عدلیہ سے آنے والے کچھ فیصلوں پر عدم اطمینان کا
اظہار کرہے ہیں۔انہیں ایک سے معاملات پر کچھ لوگوں کو ریلیف ملنے او رکچھ
کو ریلیف نہ ملنے کا گلہ ہے۔وہ سمجھتے ہیں کہ عدلیہ پرباؤ ڈال کر فیصلے
دلوائے جارہے ہیں۔عدلیہ میں موجود کچھ لوگوں کا رویہ غیر پیشہ ورانہ ہے۔جو
اس بات کا ثبوت ہے کہ وہ انصا ف کی بجائے جانبداری کی طرف مائل ہیں۔اسی لیے
سابق وزیر اعظم نے اعلان کیا ہے کہ پہلے عدلیہ بحال کروائی تھی۔اب عدل
بحالی کی تحریک چلائیں گے۔ان کے اعلان کے بعد ہی دھرنا جوڑی نے عدل بحالی
تحریک کے خلاف جوابی تحریک چلانے کا اعلان کردیاہے۔
پاکستان میں اب تک جتنی تحریکیں چلیں۔ان کی کامیابی یا ناکامی کا فیصلہ
کرنا آسان نہیں۔یہاں ایسی تحریکں بھی چلیں۔جو بظاہر ناکام کہی گئیں۔مگر بڑی
تبدیلی کو جنم دے گئیں۔کچھ تحریکیں ایسی بھی رہیں جو بظاہر کامیاب قرار
پائیں۔مگر عملا ایک تنکا تک نہ ہلاپائیں۔ کامیاب تحریکوں کی کامیابی کے
حقیقی حق دار کا تعین بھی مشکل رہا۔نوازشریف کی نااہلی کوکسی تحریک کی
کامیابی تصور کیا جاتاہے۔مگر اس کامیابی کاکسی ایک شخص یا دھڑے سے منسوب
کرنا مشکل ہوگیا۔نوازشریف نااہل ہوچکے۔مگر اب یہ طے کرنا آسان نہیں کہ آیا
یہ کریڈٹ علامہ قادری صاحب کو جانا چاہیے یاعمران خان کو یہ شاباشی ملنی
چاہیے۔یہ طے کرنا آسان نہیں کہ بیس سال یاد رکھے جانے والا فیصلہ سنانے
والے ججوں کو خراج تحسین پیش کیا جانا چاہیے یا کچھ مذہبی دھڑوں کی محنت اس
کا سبب سمجھا جائے۔یہ بھی شبہ ظاہر کیا جارہا ہے کہ ا س پہاڑ کے گرانے میں
اصل ہاتھ ان لوگوں کا ہے جو سات پردو ں میں رہتے ہیں۔جن کی کوئی آوازتو
نہیں مگر گرچ بہت ہے۔جو نظر تو نہیں آتے مگر ہرسو ان کی پرچھائیں محسوس کی
جاسکتی ہیں۔نوازشریف کی نااہلی کو کس کے کھاتے میں ڈالا جائے درجنوں حق دار
موجود ہیں۔جانے اب اول نمبر پر کسے قراردیاجائے گا۔ایک سوال اس تحریک کے
کامیاب ہونے یا نہ ہونے کا بھی موجود ہے۔ اگر نوازشریف مخالف تحریک کامیاب
ہوچکی ہے۔تو پھر علامہ طاہر القادری اور عمران خاں کی بے چینیوں کو قرار
کیوں نہیں آسکا۔ وہ اب بھی میدان میں کیوں اترے ہوئے ہیں؟ اصل منزل
نوازشریف کے ہاتھ کھڑے کروانا تھی۔اب تک نواز شریف اپنی ہارتسلیم نہیں کرتے
نظر آئے۔پہلے ان کی طرف سے ووٹ کی حرمت بحال کرنے کی تحریک چلانے کی بات
کررہے ہیں۔عدل بحالی کی تحریک چلانے کا اعلان کررہے ہیں۔عمران خاں اور طاہر
القادری کی جوڑی اور ان کے دیگر وابستہ گان نوازشریف کو ہتھل کرنے میں
ناکام رہے۔انہیں بے بس کرنے کے لیے بیسیوں ہتھیار استعمال ہوئے۔مگر وہ اب
بھی سب سے بڑی سر در د بنے ہوئے ہیں۔یہ ان کے مخالفین کی ناکامی تصور کی
جارہی ہے۔ان کے خلاف جوابی تحریک چلائی جانے کا اعلان کیا جارہا ہے۔مگر اس
جوابی تحریک سے کوئی بڑی کامیابی ملنے کے امکانات کم ہیں۔جوابی تحریک چلانے
والے عاجز ہیں۔ان کے پاس اب کرنے کونیا کچھ ہے نہ کہنے کو نیا کچھ۔جوابی
تحریک کا اعلان تو کیا جارہا ہے۔مگر عوام کو مائل کرنے کے لیے اس دفعہ کیا
نسخہ ڈھونڈا جائے یہ جوابی تحریک میں تاخیر کا سبب بنا ہواہے۔
|