ہماری سیاست، سیاستدان اور بے چارے عوام

پاکستانی سیاست کا تو باوا آدم ہی نرالا ہے، آج کی سیاست کا شتر بے مہار کس کروٹ بیٹھتا ہے، گرگٹ کی طرح رنگ بدلتی ہماری سیاست کے خدوخال آنے والے دنوں میں واضح ہونے کا امکان ہے، قرائین اور شواہد اس بات کا اشارہ دے رہے ہیں کہ میاں نوازشریف اور اُن کی فیملی کی سیاست اب عہد رفتہ کا خواب بنتا جارہا ہے، قدرت نے جتنا موقع اِس دھرتی کے ساتھ کھلواڑ کرنے کا میاں نوازشریف کو دیا شاید تاریخ اس روپ میں کسی اور کو نہ دیکھے، اب تو ایسا لب رہا ہے کہ اپنی بے پناہ غلطیوں اوردولت بنانے کی بے پناہ صلاحیتیوں کے باوجود اُن کی ہنڈیا بیچ چوراہے میں پھوٹ گئی ہے، میاں صاحب کا ببانگِ دہل اداروں کو للکارنا اُن پر خوب گرجنا برسنا اب بے کارکی چیزیں بن چکی ہیں۔ ہماری بدقسمتی کیساتھ ساتھ اس خطے کا وطیرہ رہا ہے کہ ہم تشدد کی سیاست کو ہی اپنا اوڑھنا بچھونا سمجھ بیٹھے ہیں، ہم ہیں تو ملک بھی ہو، اگر ہم نہیں تو یہ دھرتی ماں جائے بھاڑ میں، ہمیں کیا، ہم تو صرف اقتدار کیلئے یہاں آتے ہیں، پروٹوکول انجوائے کرنا اور اِس ملک کی جڑوں کو کھوکھلا کرنا ہی ہم اپنا نصب العین سمجھتے ہیں۔ کہتے ہیں کہ ایک شخص انتہائی مفلسی کی زندگی گزار رہا تھا، اپنی مرادیں، منتیں پوری کرنے کیلئے پیروں فقیروں اور درباروں پر مارا مارا پھرتا تھا کہ کہیں سے کوئی فیض مل جائے، بغیرمحنت مزدوری، ہاتھ پاؤں ہلانے کے دنیا بھر کی دولت اُس کے پاس آجائے، اِسی بھاگ دوڑ میں اُسے ایک پیر نے چلا کاٹنے کا عمل دیا، اُس نے اس پر عمل کرتے ہوئے اپنے گھر کے صحن میں چلا کاٹنا شروع کردیا، جسے ہر روز اُس کا ہمسایہ بھی دیکھا کرتا اور دل ہی دل میں اُس کا مذاق بھی اُڑایا کرتا، پھر چلے کاٹائم ختم ہونے کو آیا تو آخری روز ایک بڑا موٹا تازہ جن حاضر ہوگیا، جن نے آتے ہی اُسے کہا کہ حکم میرے آقا میں آپ کیلئے کیا کرسکتا ہوں، وہ تو بیچارہ اِسی روز کا بے صبری سے انتظار کررہا تھا اُس نے فوراً بنگلہ، گاڑی اور بہت سا روپیہ مانگ لیا، دیکھتے ہی دیکھتے ایک بڑا بنگلہ بن گیا، گاڑی بھی آگئی، روپے پیسے کی ریل پیل بھی ہوگئی، اُس کی امیدیں برآئیں، اگلے روز اُس کا ہمسایہ گھر سے نکلا تو اپنے سامنے بنگلہ گاڑی دیکھ کر پریشان ہوگیا کہ یہ راتوں رات تبدیلی کیسے آگئی، اب اُس کی آنکھوں کے سامنے وہ ساری چلہ کشی آگئی جسے وہ ہر روز طنزیہ انداز میں دیکھا کرتا تھا، اب اُس نے بھی اُسی انداز میں چلہ کاٹنے کی ٹھان لی، اُس نے زیادہ جوش وجذبے سے محنت اور لگن کے ساتھ چلہ کشی شروع کردی، آخر کار چلے کا وقت پورا ہوا اور جن صاحب حاضر ہوگئے اور ہاتھ باندھ کر عرض کیا حکم میرے آقا تو اُس نے بلاکسی تاخیر آرڈر کیا کہ مجھے کچھ نہیں چاہئے میرے ہمسایے سے سب کچھ واپس لے لو، یہی حال ہمارا ہوگیا ہے، اگر ہم نہیں تو کوئی نہیں، جیسے پنجابی کی مثال ہے کہ ’’کھیڈاں گے ناں کھیڈن دیاں گے‘‘۔ افسوس اس روش سے ہم ملک و قوم کی تباہی کا سبب بن رہے ہیں، نوشتہ دیوار ہمارے سامنے ہونے کے باوجود ہم بڑے طمطراق کے ساتھ اپنی حب الوطنی کی ڈگڈگی بجا کر ملک کو عضو معطل بنا دینا چاہتے ہیں، اس بلیم گیم سے ہم باہر ہی نہیں آنا چاہتے، پچھلے چار سالوں سے تحریک انصاف دھرنا، جلسے، جلوس پارٹی بنی رہی، ملک کا پہیہ جام کرنے میں کوئی کسر نہ چھوڑی، اب میاں نوازشریف عدلیہ اور فوج مخالف مہم جوئی کی دھمکیاں دے رہے ہیں، آفرین ہے فوج کے اس ادارے پر جس نے تمام سیاسی قوتوں کے منہ پر طمانچہ رسید کرتے ہوئے اپنے آپ کو بدلتے ہوئے اداروں کے آگے پیش کردیا۔ گذشتہ روز سینیٹ کے اجلاس میں تمام عسکری قیادت نے خود کو پیش کرکے سیاسی افراد کے چھبتے ہوئے سوالوں کے جواب دے کر اُن کی بولتی بند کردی ہے، تاریخ میں اِس کی مثال نہیں ملتی، اُنھوں نے قوم کو واضح پیغام دیا ہے کہ پارلیمینٹ ہی سب کچھ ہے، آئینی حدود میں رہ کر ملک و قوم کیلئے ہم کردار ادا کرتے رہیں گے، سیاستدان فوج کو سیاست میں مداخلت کا موقع نہ دیں، اُنھوں نے بڑی خوش اسلوبی سے ایک ایک سوال کا انتہائی خندہ پیشانی سے جواب دیا ہے، عسکری قیادت تو اپنی جگہ چیف جسٹس آف پاکستان کو بھی بولنا پڑا ہے، جو خود نہیں بولا کرتے اُن کی فیصلے بولتے ہیں مگر ہم نے الزامات کی بوچھاڑ کرکے اداروں کو اس قدر مجبور کردیا ہے کہ اُن کا تقدس تہہ تیغ ہو کر رہ گیا ، کھلے عام دشنام طرازی ہمارا وطرہ بن چکا ہے، صرف اس لیے کہ ہم طاقتور ہیں، کوئی ہمارے خلاف کوئی فیصلہ دینے کی جرأت کیونکرکرے۔ خدا کیلئے ملک کو انارکی سے بچا کر الیکشن کی طرف لے جانے کیلئے اپنا مؤثر اور مثبت رول ادا کیجئے، قیادت کی سولو فلائیٹ اب نیچے ورکروں کو اچھی نہیں لگتی، پیپلز پارٹی تو اب اپنی ڈوبتی ناؤ کو بچانے کیلئے ہاتھ پاؤں مار رہی ہے، ملک نظر آنے والی دو بڑی پارٹیوں مسلم لیگ اور تحریک انصاف کو بھی پیپلزپارٹی کا انجام سامنے رکھ کر ہوش کے ناخن لینا ہوں گے، میاں محمد نوازشریف کے ’’مجھے کیوں نکالا‘‘ کے نعرۂ مستانہ کے بعد اداروں کو سخت الفاظ سے للکارنا اور اُن کے خلاف تحریک ِعدل جیسے احتجاج ، پھر بکریوں اور سکھا شاہی تک چلے جانا کس مہذب معاشرے کی مثال ہے، سب کو معلوم ہے کہ مسلم لیگ کے اندرونی اختلافات کیا ہیں، عام پارٹی ورکر اس بیان بازی سے بددل اور مایوس ہے، مسلم لیگ (ن) کے کا رکن اور عام لیڈر تحفظات کا شکار ہیں، پارٹی کو شریف فیملی لمیٹڈ کمپنی بنا کر رکھ دیا گیا ہے، اب پارٹی کی کرتا دھرتا محترمہ مریم نواز ہیں، اُن کے قریبی ساتھی کسی اور کو لیڈر ماننے کو تیار نہیں جس سے پارٹی میں شدید اضطراب پایا جاتا ہے، پارٹی کیلئے قربانیاں دینے والے، پارٹی کے بڑے بڑے مہرے بھی مریم نواز کے پرسنل سٹاف آفیسر تک محدود ہیں، عام کارکنوں کے مطابق مریم بی بی کو پارٹی میں ’’ملکہ‘‘ کا پروٹوکول حاصل ہے، پارٹی کے ورکروں اور عہدیداروں کی کیڑے مکوڑوں سے زیادہ اہمیت نہیں۔ یہی حال تحریک انصاف کا ہے، عمران خان تک رسائی بھی عام کارکن ، عہدیدار کے بس کی بات نہیں۔ سپریم کورٹ کے فیصلے کے بعد تحریک انصاف کا فراف مزید بلند ہوا ہے مگر عوام کیلئے تو بلندیوں سے نیچے آکر سوچنا ہوگا کیونکہ یہی عوام آپ کو بلندیوں پر پہنچانے میں اپنا خون پسینا دیتے ہیں، جہانگیر ترین کی نااہلی کے بعد بھی پارٹی پر اُن کی گرپ مضبوط رہے گی مگر تحریک انصاف میں سابق گورنر چوہدری سرور، شاہ محمود قریشی اور اسد عمر جیسے افراد بھی شامل ہیں جنھیں عوام تک رسائی حاصل ہے، عمران خان کیلئے تو اب وزیراعظم کی سیٹ تک الیکشن لڑنے کیلئے راستہ صاف ہوچکا ہے مگر اندر کی کہانی میں وزیراعظم کیلئے اسد عمر فیورٹ بتائے جارہے ہیں، عمران خان ایک قائد کے طور پر کام کرنا ہی اپنے لیے بہتر جانیں گے۔ یہ تو الیکشن کے بعد ہی معلوم ہوا، ہماری تو اِن دونوں بڑی پارٹیوں سے گزارش ہے کہ تصادم کی راہ سے اجتناب کریں، دھرنوں، جلوسوں اور ہڑتالوں کی مشکلات سے مارے ہوئے عوام پر رحم کھائیں اور اگلے الیکشن کا پرامن انعقاد یقینی بنائیں، اِسی میں ملک و قوم کی بقا اور سلامتی ہے۔
 

ATIQ YOUSAF ZIA
About the Author: ATIQ YOUSAF ZIA Read More Articles by ATIQ YOUSAF ZIA: 30 Articles with 28693 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.