حضرت عیسیٰؑ کے انتقال آسمان کے 6 سوسال بعد جب آسمان کا
زمین کے ساتھ بذریعہ وحی سلسلہ قائم ہوا تو ظلمت و تاریکی اور جہالت کے
گھٹاٹوپ اندھیروں میں ڈوبے ہوئے انسانی معاشرے کی داد رسی ہوئی۔حضرت آدمؑ
سے لیکر خاتم النبیینؐ کی بعثت تک ہمیشہ اﷲ کا مقبول دین ایک ہی دین حنیف
یعنی اسلام ہی رہاہے۔تاہم اﷲ تعالیٰ نے جمیع انبیاء رسل کو مخصوص وقت
،مخصوص علاقہ اور مخصوص قوم کیلئے مبعوث فرمایا اور اس کے ساتھ حضرت موسیؑ،
حضرت عیسیٰؑ،حضرت داؤدؑ،حضرت ابراہیمؑ و دیگر کتب ہدایت اور صحف عنایت کیے
جس میں اس وقت اور اس قوم کی رہبری کا سامان تیار رکھا گیا تھا۔اﷲ تعالیٰ
نے بعثت اسلام کے بعد حضرت موسیؑ اور حضرت عیسیؑ کے مرکز نبوت فلسطین میں
بیت المقدس کوجو انکی عبادتوں کا مرجع تھا کو مسلمانوں کیلئے بھی قبلہ اول
کے طور پر برقرار رکھا۔اور اس امر کو دیکھ کر ابتداً یہودی خوش ہورہے تھے
کہ مسلمانوں نے بیت المقدس کو اپنا قبلہ بنادیا ہے ۔چونکہ دین اسلام دین
فطرت ہے اور اس میں کسی طرح کی بے اعتدالی اور روگردانی نہیں ہے جس کی
بناپر انسان کی خواہش آرزو کا خاص لحاظ و پاس رکھا جاتاہے جیساکہ نبی کریمؐ
نے فرمایا کہ اگر تمہارے سامنے میرا کوئی فرمان نقل کیا جائے اور تمہیں اس
سے نامانوسیت ہوتو اس کو ترک کردیں کیونکہ میں غیرفطری و غیر وحی کے کوئی
کلام نہیں کرتا یہی وجہ ہے کہ خود حضوراکرمؐ نے جب کفار مکہ کے ہاتھوں
مدینہ منورہ کی جانب ہجرت کی تو آپؐ کا میلان قلب مکہ کی طرف بدستور قائم
رہا اور حضرت ابراہیمؑ اور حضرت اسماعیلؑ کے تعمیر کردہ بیت اﷲ سے محبت و
عقیدت لیل و نہار میں بدستور الفت قائم رہی اور اسی وجہ سے آپؐ کے ارادہ کو
اﷲ تعالیٰ نے بھانپ کردوران نماز حکم دیا کہ آپؐ بیت المقدس کی بجائے بیت
اﷲ کی طرف رخ کرکے نماز اداکیا کریں ۔
مسلمانوں کی تاریخ شاہد ہے کہ انہوں نے جب بھی کسی ریاست پر غلبہ حاصل کیا
تو انہوں نے کسی طورپر بھی وہاں کے باسیوں پر ظلم و جور اور عدوان کا سلسلہ
روا نہیں رکھا ۔یہی بنیادی سب کے باوجود مسلمانوں کے قلب و ذہن میں بیت
المقدس کی اہمیت محبت بھی ختم نہیں ہونے پائی یہی وجہ ہے کہ حضرت ابوعبیدہ
بن الجراحؓ،سیدنا خالد بن ولیدؓ فسلطین کوفتح کرنے کیلئے پہنچے تو خود
عیسائی راہبوں نے اعلان کیا کہ ہم مدینہ آپ کے حوالے صرف اس بنیاد پر کرتے
ہیں کہ ہمیں معلوم ہے کہ آپ لوگ عہدکو پوراکرنے والے ہیں ۔لہذا ہم ان شرائط
پر مدینہ آپ کے حوالے کریں گے کہ اول تو شہر کی کسی چیز کو نقصان نہیں
پہنچائیں گے۔اور آپ کا وقت کا امیر المؤمنین جس کی گواہی و شواہد انجیل میں
مذکور ہیں کو ہم مدینہ کی چابیاں عنایت کرینگے۔ پھر تاریخ شاہد ہے کہ سیدنا
عمرفاروقؓ اوربعد کے ادوار میں سلطان صلاح الدین ایوبیؒ نے جب رومی و صلیبی
گروہوں کو شکست فاش سے دوچار کیا توانہوں نے بیت المقدس کی حفاظت اسی طرح
کی جیسے بیت اﷲ یعنی مسجد حرام کی کرتے تھے ۔ مسلمانوں نے غیر مسلموں کے
حقوق کو بغیر کسی تفریق و تقسیم کے بھی محفوظ رکھا اور ان پر کسی قسم کی
زیادتی و ظلم نہیں کیا ماعدا ان لوگوں کے جنہوں نے اسلام کی راہ میں روکاوٹ
ڈالی یا اسلام کے خلاف سازشیں تیار کیں ۔مگر تصویر کا دوسرا رخ یہ ہے کہ
یہودیت و مسیحیت کو جب بھی مسلمانوں پر بالادستی حاصل ہوئی تو انہوں نے
مسلمانوں کی جان و مال اور علمی ورثہ کا بدترین خون کیا جس پر تاریخ خود
بھی شرمندہ ہے۔
موجودہ حالات اسی پر دال ہیں کہ مغربی اقوام اور امریکہ اسرائیل کی طفیلی
ریاست کو دوام و استحکام بخشنے کیلئے پورے مشرق وسطیٰ کو میدان جنگ میں
تبدیل کرچکے ہیں اور مسلم ریاستوں کو پارہ پارہ کرنے میں کوئی لمحہ ہاتھ سے
جانے نہیں دیتے کہ جمہوریت ہو یابادشاہت جو بھی یہود و نصاریٰ کے ایجنڈے کے
راہ میں حائل ہو کو دہشت گردی و بدامنی سے منسوب کرکے سکھ کا سانس لیتے
ہیں۔موجودہ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے بھی مسلمانوں کے احساسات و جذبات کو
مجروح کرتے ہوئے مسلمانوں کے قبلہ اول کو اسرائیل کا دارالحکومت قرار دینے
کا فیصلہ کردیا ہے۔ یہ امر جہاں پر ملت اسلامیہ کے جذبات کو مجروح کرنے اور
اسلام دشمنی کا بین ثبوت ہے وہیں پر اس ناپاک جسارت و ظالمانہ قدم کے نتیجہ
میں امریکہ و اسرئیل اپنی تباہی و بربادی اور ذلت کے ساتھ دنیا کے خسران کا
پیش خیمہ بھی بنے گا۔ امریکہ ناصرف خود تباہی و بربادی کا شکار ہوگا بلکہ
اس کی احمقانہ حرکتوں کی وجہ سے دنیا بھر کا امن و سکون غارت ہوجائے گا۔
اسی لیے دنیابھر کے ممالک نے مسلمانوں کے پرزور احتجاج اور شدید مزاحمت کو
دیکھتے ہوئے اور ترکی کے جرأت مند عالم اسلام کے محافظ رجب طیب اردگان نے
او آئی سی کے اجلاس میں یہ فیصلہ کیا کہ ہم اپنا سفارت خانہ القدس میں
کھولیں گے ۔اگر ہمت و جرأت ہے امریکہ کی تو وہ اپنا سفارت خانہ القدس میں
قائم کرکے بتائے ۔یہی وجہ ہے کہ سلامتی کونسل کے اجلاس میں امریکہ کے فیصلہ
کیخلاف پیش کردہ قرارداد کثرت رائے سے منظور ہوئی تو امریکہ نے اسے ویٹو
کرکے ہٹ دھرمی کا ثبوت دیا۔جس کے بعد اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کے اجلاس
میں پاکستان ،ترکی اور یمن کے اشتراک سے ٹرمپ فیصلہ کیخلاف قرارداد پیش کی
گئی تو اس پر بھی دنیا بھر کے اکثریتی ممالک نے امریکہ کے جارحانہ اور
جابرانہ فیصلہ کو مسترد کرتے ہوئے 128ووٹ قرارداد کے حق میں 9مخالفت میں
ووٹ پول ہوئے جبکہ 35ممالک نے ووٹنگ میں حصہ ہی نہ لیا۔اس قرار داد کی
منظور کے بعد اقوام متحدہ نے یہ اعلان کردیا کہ القدس بدستور فلسطین کا
دارالحکومت رہے گا۔جبکہ امریکہ اپنی جارحیت پر مصر ہوتے ہوئے امریکہ مخالف
ووٹ کاسٹ کرنے والے ممالک کی فہرستیں طلب کرکے ان کیخلاف کارروائی کا ارادہ
رکھنے کے ساتھ اقوام متحدہ کے اعلان کو مسترد کرچکا ہے۔یہ تکبر و غرور
امریکہ کی تباہی و بربادی کا پیش خیمہ ثابت ہوسکتاہے۔اور اسی طرح ٹرمپ کا
یہ رویہ اس کی نام نہا دجمہوریت کا بھی منہ چھڑا رہی ہے کہ وہ دنیا بھر کے
فیصلوں کوتسلیم کرنے سے انکاری ہوچکا ہے۔
ضرورت اس امرکی ہے کہ مسلم ممالک باہم متحد و متفق ہوکر فتنہ مسیح دجال کے
ظہور کیلئے فضا ہموار کرنے والے امریکہ و اسرائیل کیخلاف سیسہ پلائی دیوار
بن جائے ۔مسلمانوں کو یہ بات ذہن نشین کرلینی چاہیے کہ یہود ونصاریٰ کسی
بھی صورت مسلمانوں کے دوست نہیں ہوسکتے تاوقتیکہ مسلمان ان کی ہرجائز و
ناجائز خواہش پر سرتسلیم خم نہ کرلیں اور امریکہ صرف القدس کو اسرائیل کے
دارالحکومت تسلیم کرنے اور بنانے پر اکتفاء نہیں کرے گا بلکہ وہ مسجد اقصیٰ
کی شہادت اور ہیکل سلیمانی کی تیاری کیلئے عملی کوششوں کے ساتھ ہی حرمین
شریفین پر بھی حملہ آور ہوگا۔ لہذا ایسے میں ہم جمیع ملت اسلامیہ پر لازم
ہے باہم نزعی و فرقہ بندیوں کے اختلافات سے بالاتر ہوکر مسلم ممالک کو
عالمی اتحاد تشکیل دیکر اپنے ممالک اور اپنے افراد کی حفاظت کیلئے سنجیدہ
بنیادوں پر کوشش کرنی ہوگی۔ بصورت دیگر عالم کفر سینڈویچ کی طرح ہمیں مسلنے
کی کوشش بھی کرے گا۔ اس امر میں کوئی شک و شبہ نہیں کہ مسلمانوں کو اﷲ
تعالیٰ دنیاکے تمام ممالک پر بالادستی عنایت کرے گا۔ تاہم مسلمانوں پر
ضروری ہے کہ عالم کفر کے مقابلے اعداد اسلحہ و ٹیکنالوجی اور افرادی عسکری
قوت کے ساتھ سرد و گرم جنگ کی تیاری کیلئے اپنے آپ کو بہر طور پر مضبوط
کریں اور اﷲ تعالیٰ اپنے دین متین کی خدمت کرنے والوں کو کسی صورت ناامید
ومایوس نہیں ہونے گا۔ |