یہ بات صرف الیکشنز کے منعقد ہونے یا نہ ہونے کی نہیں
ہے بلکہ پاکستان کی بقاء ، استحکام و حرمت کی ہے ۔اس وقت ہر طرف شور ہے کہ
کیا 2018 میں الیکشن ہو پائیں گے ؟ کیا مارشل لاء لگ جائے گا؟ یا عبوری
حکومت کو طوالت دینے کی کوشش کی جائے گی ؟ ایسا کچھ نہیں ہونے والا ہاں مگر
ایک بات ضرور ہو گی کہ پاکستان کی بقاء کے ساتھ کھیلنے والوں کو نکیل ڈال
دی جائے گی ۔اگر ہم دیکھیں تو ایسی خبریں ہر بار الیکشنوں کے انعقاد کے
نزدیکی عرصے میں سننے کو ملتی ہیں اور ہر بار ہی بے بنیاد ثابت ہوئیں ہیں ۔لیکن
ا یسا کرنے سے ایک بات ضرور ہوتی ہے اور وہ یہ کہ عوام کو کسی ایک طرف
سوچنے پر مجبور کر کے اسے تمام تر ذہنی صلاحیتوں سے مفلوج کر دیا جاتا ہے ۔جیسا
کہ حال ہی میں معاشی عدم استحکام انتہائی بری شکل میں سامنے آیا ہے ۔ایک
طرف شوگر ملز مالکان نے کرشنگ سیزن میں تاخیر کر کے گنے کی خرید ترک کر
رکھی ہے تو دوسری جانب اس کا ریٹ ہی اتنا کم رکھا ہے کہ کسان اسے کاٹنے سے
بھی گریزاں نظر آتا ہے۔اس سے پہلے چاول کے ساتھ جو زیادتی کی گئی کہ خریدنے
کا وقت آیا تو سرکاری ریٹ 700 روپے فی من کے لگ بھگ تھا اور جب خرید لیا
گیا تو اسی چاول کا ریٹ اب دوہزار روپے فی من سے زائد ہو چکا ہے ۔ حکومت نے
جو اپنی دور کے درمیانی حصے میں کسانوں کو سہولیات دی تھیں اس سے دوگنا ہ
زیادہ ان کا نقصان کر چکی ہے ۔ اول دن سے ہی موجودہ ن لیگی حکومتی دور میں
ورلڈ بنک سے ریکارڈ قرضہ جات لئے گئے جبکہ کافی حد تک اداروں کی بھی نجکاری
کر دی گئی لیکن سب سے بڑی ظلم کہانی اس وقت شروع ہوئی جب میاں محمد نواز
شریف کو سپریم کورٹ نے پاناما کیس کی سماعت میں اقامہ پر نا اہل کیا اور
انہیں اسلام آباد سے واپس لاہور بھیج دیا ۔لیکن کیا کریں کہ اس بار اداروں
نے اپنا کام کیا ایمانداری سے تو عوام ہی اداروں کا ساتھ دینے سے گریز اں
ہیں ۔ ملک میں معاشی عدم استحکام کی مصنوعی صورتحال پیدا کر کے یہ باور
کروایا جا رہا ہے کہ جب تک میاں محمد نواز شریف وزیر اعظم رہے تب تک اچھا
نظامِ حکومت قائم رہا اور سبھی کو سہولیات میسر تھیں ۔کونسی گڈ گورننس ؟
اور کب تھی گڈ گورننس؟ اگر دیکھا جائے تو حکومت نے سوائے مقروض کرنے کے
عوام کو کچھ بھی نہیں دیا۔ ان کے نا اہل ہوتے ہی اور ان کے مختلف کیسز
کھلنے کی وجہ سے اب عوام کو ذلیل کرنا شروع کر دیا ہے ۔ تمام تر ان کے دعوے
کھوکھلے نکلے ہیں جہاں ان کی ذات کو فائدہ ہوا وہاں انہوں نے کام کروایا
اور جہاں عوامی یا ملکی مفاد تھا وہیں پیٹھ پھیر گئے ۔اگر ذاتی مفادات کی
بات کی جائے تو ہم دیکھتے ہیں زرداری صاحب کو اراضی اور شوگر ملیں بہت پسند
ہیں ، ہر سال کی طرح امسال بھی گنے کے سیزن میں مسئلہ بنایا ہوا ہے ۔پہلے
تو یہ ہوتا تھا کہ شوگر ملز مالکان کسانوں کو پیسے ہی نہیں دیتے تھے اور
پھر بڑی منتوں سے کسانوں کو ان کا پیسہ ملتا اور وہ بھی کافی کٹوتی کے بعد
لیکن اس پر جب کیسز کئے گئے تو امسال ریٹ ہی اتنا کم دیا ہے کہ کسان کھڑی
فصلوں کو جلانے پر مجبور ہو گئے ہیں جبکہ سندھ ہائیکورٹ نے بھی فیصلہ دے
دیا ہے کہ گنے کا ریٹ 170 روپے فی من دیا جائے لیکن اب اس پر عملدرآمد کون
کروائے؟ کہ شرفاء تو سبھی مستثنیٰ ٹھہرے!!پھر زرداری صاحب کے منظور نظر
سابق نیشنل بنک کے صدر علی رضا کی ضمانت بھی ضبط ہو گئی ہے اور نیب نے
گرفتار کر لیا ہے ۔اس کے بعد اور بھی بہت سے سکینڈلز سامنے آنے والے ہیں
سیکرٹری خزانہ سندھ کو بھی بر طرف کر دیا گیا ہے جس کے ساتھ ساتھ دو سو کے
قریب بیوروکریٹس جو پیسوں کے عوض تعینات کئے گئے تھے بھی پکڑے جائیں
گے۔پنجا ب بنک سکینڈل ، خیبر پختونخواہ بنک سکینڈل کے بعد بہت جلد سندھ بنک
سکینڈل بھی سننے کو ملے گا جس میں تمام ادائیگیاں کی جاتی ہیں اور پیسہ
اکٹھا ہوتا ہے۔ شاہد خاقان عباسی کی فضائی بلیو لائن بھی ان کے وزیر اعظم
بننے کے بعد دن دوگنی رات چوگنی ترقی کر رہی ہے لیکن پی آئی اے خسارے میں
ہے اور پھر جہاں دیکھئے وزیر اعظم صاحب کسی نا کسی پائپ لائن کا افتتاح
کرتے نظر آتے ہیں ۔پسند کی بات ہے نا !جیسے نواز شریف کی پسند موٹر وے
بنانا ، شہباز شریف کی پسند فلائی اور ، میٹرو پراجیکٹ ہیں۔ ہم دیکھتے ہیں
کہ چند اشرافیہ نے اپنی معیشت کو مضبوط کرنے کیلئے ملکی معیشت و استحکام کو
داؤ پر لگا رکھا ہے ۔پورے ملک پر صرف ستائیس خاندانوں نے قبضہ کر کے عوام
کو معاشی یرغمال بنایا ہوا اور جس طرح چاہتے ہیں روزگار اور مفلسی سے مجبور
عوام کو اپنی انگلیوں پر نچاتے ہیں ۔ عوام کو یہاں ایک بات اچھے سے سمجھنے
کی ضرورت ہے کہ نواز شریف کو نکالنے کی وجہ سے مہنگائی پیدا نہیں ہوئی بلکہ
یہ مصنوعی معاشی عدم استحکام ہم پر تھوپا گیا ہے اور اس سے نجات اسی صورت
ممکن ہے کہ نواز شریف ، زرداری اور ملک کے دیگر لٹیروں سے جب تک ملک کا
لوٹا ہوا پیسہ نکلوایا نہیں جاتا ، محض اقامہ ہی بنیاد نہیں بلکہ یہ بھی
سمجھنے کی ضرورت ہے کہ جے آئی ٹی اور ججز کوئی فالتو نہیں تھے اور نا ہی
پانامہ کے کاغذات کوئی دھوکا ۔اگر عوام اداروں کا تحفظ اور آئین و قانون کی
پاسداری یقینی نہیں بنائے گی اور شخصیت پرستی جیسی غلاظت سے باہر نہیں آئے
گی تو وہ دن دور نہیں کہ جب ملک شدید قحط سالی کا شکار ہو جائے ۔اس وقت
ملکی خزانہ خالی ہو چکا ہے اور اداروں کی نجکاری کے بعد اب سی پیک کی باری
ہے ۔ سندھ طاس معاہدے کا کیس بھی ہم ہار چکے ہیں اور اس پر دوبارہ اپیل کر
رکھی ہے لیکن اس کا بھی کچھ نتیجہ نکلتا نظر نہیں آتا ۔ پاکستان کے بیشتر
علاقوں میں پانی پینے کے قابل بھی نہیں رہا اور دن بدن زیر زمین پانی کی
سطح بھی نیچے جا رہی ہے اور پھر بھارت نہ صرف اپنے بلکہ ہمارے دریاؤں پر
بھی ڈیم بنا کر قابض ہوا بیٹھا ہے جبکہ پاکستان کے خلاف امریکہ بھی اپنی
تمام تر تیاریاں مکمل کر چکا ہے ۔ایوب خان کے دور میں پاکستان میں جس قدر
صنعت کو ترقی ملی اس کی نظیر آج تک نہیں ملتی لیکن بھٹو کی پالیسیوں نے اس
کا بیڑہ غرق کر دیا اور ملکی معیشت کا دارومدار پھر سے زراعت پر قائم ہے
جبکہ پچھلے پیپلز پارٹی کے دور حکومت اور حالیہ ن لیگی دور حکومت میں زراعت
کا بھی بیڑہ غرق کر کے رکھ دیا گیا ہے ۔ اس کے بعد دیوالیہ ہونے کے سوا کچھ
نہیں رہ گیا ۔مرزا اسداﷲ خان غالب کیا خوب فرماتے ہیں :
ہم نے مانا کہ تغافل نا کرو گے ، لیکن
خاک ہو جائیں گے ہم ، تم کو خبر ہونے تک |