امریکی صدرڈونلڈ ٹرمپ نے جس طرح یروشلم کو اسرائیل کا
دارالحکومت تسلیم کرتے ہوئے اپنا سفارت خانہ تلِ ابیب سے یروشلم منتقل کرنے
کا اعلان کیا ہے اس کے بعد دنیا بھر میں امریکہ کے خلاف صدائے احتجاج بلند
ہوا اور بڑے پیمانے پر جلسے و جلوس منظم کئے گئے ۔ عالمی سطح پر امریکہ کو
یکہ و تنہا کردیا گیا ، چند ممالک نے امریکہ کی تائید و حمایت کا فیصلہ کیا
۔ مصر کی جانب سے امریکہ کے خلاف سیکیوریٹی کونسل میں پیش کی گئی قرار داد
کو امریکہ نے ویٹو کے ذریعہ ناکام بنادیا ۔ اس کے بعد جنرل اسمبلی میں یہ
قرارداد پیش کی گئی ،جنرل اسمبلی میں امریکہ کے خلاف ووٹ ڈالے گئے اس ووٹنگ
سے قبل امریکی صدر نے دھمکی دی تھی کہ اقوام متحدہ کے جنرل اسمبلی اجلاس
میں امریکی فیصلے کے خلاف ووٹ دنے والوں کو امریکہ کی جانب سے دی جانے والی
امداد بند کردی جائے گی۔امریکی صدر کی دھمکی کو نظر انداز کرتے ہوئے تقریباً
تمام امداد حاصل کرنے والے ممالک نے امریکی فیصلہ کے خلاف ووٹ دیا۔ امریکہ
کے خلاف ووٹ دینے کے بعد امریکہ ان ممالک کے ساتھ کس قسم کا فیصلہ کرتا ہے
اس سلسلہ میں ابھی کوئی واضح اعلان نہیں ہواہے البتہ امریکہ نے سب سے پہلے
اقوام متحدہ کے بجٹ میں 28 کروڑ 50لاکھ ڈالر کی کٹوتی کرتے ہوئے اسکے خلاف
ووٹ ڈالنے والے ممالک کو خبردار کردیا ہیکہ ان کے خلاف بھی کارروائی کی
جاسکتی ہے۔یہکٹوتی اقوام متحدہ کے نئے بجٹ کے موقع پر کی گئی ہے۔اقوام
متحدہ کے اجلاس میں اگلے دو برس کے لیے 5ارب 39 کروڑ 60 لاکھ روپے کا بجٹ
پیش کیا گیا تھا۔اقوام متحدہ میں امریکہ کی مستقل مندوب نکی ہیلی نے کہا ہے
کہ بجٹ کٹوتی درست سمت میں ایک بڑا قدم ہے،انہوں نے امریکی صدر کی دھمکی کے
بعد اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی میں امریکہ کے خلاف ڈالے گئے ووٹ کے سلسلہ
میں کہا کہ کسی کو امریکی عوام کی سخاوت کا ناجائز فائدہ اٹھانے نہیں دیا
جائے گا، ذرائع ابلاغ کے مطابق امریکہ کا کہنا ہیکہ اقوام متحدہ کی
ناکامیاں اور شاہ خرچیاں سب جانتے ہیں اس لیے اقوام متحدہ کے بجٹ میں 285
ملین ڈالرز کم کیے جارہے ہیں۔خیال رہے کہ امریکہ اقوام متحدہ کو فنڈ دینے
والا سب سے بڑا ملک ہے جو مجموعی بجٹ کا 22فیصد فراہم کرتا ہے جب کہ بقیہ
بجٹ دنیا بھر کے دیگر ارکان ممالک پورا کرتے ہیں۔اب دیکھنا ہے کہ اسرائیل
کے بعد امریکی امداد حاصل کرنے والوں میں سب سے آگے مصر ہے جس نے اقوام
متحدہ کے سیکیوریٹی کونسل میں امریکہ کے خلاف قرار داد پیش کی تھی۔ ان
اسلامی ممالک نے جس طرح امریکی فیصلہ کے خلاف اتحاد کا ثبوت دیا ہے اگر یہ
اسی طرح مستقبل میں بھی امریکی فیصلہ کے خلاف ڈٹے رہتے ہیں تو اس کے نتائج
ثمر آور ثابت ہونگے ۔ اس کے علاوہ اسرائیلی اشیاء کا عالمی سطح پر بائیکاٹ
کیا جانا چاہیے اگر اسرائیل کے خلاف معاشی بائیکاٹ کیا جاتا ہے تو اس سے
اسرائیل کی معیشت بُری طرح متاثر ہوگی اوروہ فلسطینی عوام اور مسلمانوں کے
اس مقدس ترین قبلۂ اول کو نقصان پہنچانے کی ہمت نہیں کرپائے گا۔اسرائیل کے
بعد مصر ، اردن ، عراق، کولمبیا، پاکستان، صومالیہ ، شام ، افغانستان،
یوکرین پیرو جیسے ممالک امریکہ سے سلامتی اور امن امداد حاصل کرتے ہیں ۔
امریکہ جس طرح اسرائیل کو امداد فراہم کرتے ہوئے اسرائیلی حکومت کے کھاتوں
میں یہ امداد منتقل کرتا ہے اس کی نوعیت الگ ہے جبکہ دیگر ممالک کو دی جانے
امداد کی نوعیت الگ ہے ۔یعنی اسرائیل کو پورا ختیار حاصل ہے کہ وہ اس امداد
کو جس مد میں چاہے استعمال کرے ۔ دوسری جانب دنیا کے دیگر ممالک کو اس
نوعیت کی رعایت اور سہولت نہیں ہوتی اور جو امداد امریکہ سے ان ممالک وصول
کرتے ہیں یہ امدادی رقم امریکی حکومت کے اکاؤنٹس میں ہی رہتیہے اور امداد
وصول کرنے والی حکومتیں امریکی انتظامیہ کی مرضی اور منشا سے پہلے متعین
کردہ مدوں میں ہی اس رقم کو استعمال کرسکتے ہیں۔اسرائیل کو ہر سال تین ارب
ڈالر سے زائد امداد دی جاتی ہے جس کے بعد مصر کو جو امداد دی جاتی ہے وہ
1.6ارب ڈالر کے قریب ہے ۔اب دیکھنا ہیکہ مصر ، پاکستان، افغانستان اور دیگر
ممالک کے ساتھ امریکہ کا رویہ مستقبل میں کس طرح رہتاہے کیونکہ ان ممالک نے
امریکی دھمکی کو نظرانداز کیا ہے اور یہ نظرانداز کرنا ان ممالک کے لئے
کتنا نقصاندہ ثابت ہوسکتا ہے ۔ البتہ چند ممالک پر امریکی دھمکی کا اثر
دکھائی دیتا ہے ان میں یوگینڈا، کینیا اور زیمبیا وغیرہ ہیں جنہوں نے اقوام
متحدہ کی جنرل اسمبلی کے اجلاس میں شرکت ہی نہیں کی اس طرح 35ممالک نے
مذکورہ قرارداد پر ہونے والی رائے شمالی میں شرکت نہیں کی ۔
امریکہ بغیر تاخیر اپنا فیصلہ واپس لے، ترکی،ایران،برطانیہ
صدر ترکی رجب طیب اردغان نے بیت المقدس کو اسرائیلی دارالحکومت قرار دینے
کے امریکی فیصلے کوناجائز ثابت ہوگیا، ترک صدر رجب طیب اردغان نے مطالبہ
کیاہیکہ امریکہ بغیر تاخیر اپنا فیصلہ واپس لے، جبکہ ایرانی وزیر خارجہ
جواد ظریف نے کہاہیکہ عالمی برادری نے امریکی صدر کی دھمکی کو مسترد
کردیا۔برطانیہ نے بھی ٹرمپ کا متنازعہ فیصلہ مسترد کرنے کے اقوام متحدہ کی
جنرل اسمبلی میں قرارداد کے حق ہی میں ووٹ دیا، جو امریکہ کا قریبی اتحادی
ہے۔ذرائع ابلاغ کے مطابق اردن کی جانب سے بھی قرارداد منظور ہونے کا
خیرمقدم کیا گیا جبکہ غزہ اور اردن میں اسرائیل اور امریکہ کے خلاف مظاہرے
بھی کیے گئے۔فلسطین کی جانب سے قرارداد کے حق میں ووٹ دینے والے ممالک کا
شکریہ ادا کیا گیا جبکہ غزہ میں اسرائیلی وزیر اعظم کے خلاف احتجاجی مظاہرہ
ہوا۔ادھر تنظیم آزادی فلسطین کی جانب سے کہا گیا کہ 128 ممالک نے امریکہ
اور اسرائیل کو بتادیاکہ وہ جو کررہے ہیں وہ غلط اور ناقابل قبول
ہے۔اسرائیل نے قرارداد مسترد کردی جبکہ اسرائیلی وزیر اعظم نیتن یاہو کا
کہنا تھا کہ امریکہ اور اقوام متحدہ میں امریکی مندوب نکی ہیلی کا شکریہ
ادا کرتے ہیں جنہوں نے اسرائیل کا دفاع کیا۔دوسری جانب امریکا سے بیت
المقدس سے متعلق فیصلہ واپس لینے کی قرار داد منظور ہونے پراردن میں جشن
منایا گیا، عمان میں امریکی سفارتخانے کے باہر شہری جمع ہوئے اور ان کا
کہنا تھا کہ پوری دنیا امریکی اقدام کی مخالفت کررہی ہے۔ترک صدر رجب طیب
اردوان نے کہا کہ قرارداد منظور ہونے کے بعد وہ توقع رکھتے ہیں کہ امریکا،
القدس کو دارالحکومت قرار دینے کا فیصلہ واپس لے۔
سعودی پر حوثی باغیوں کے حملے ۰۰۰
یمن کی جنگ ابھی کتنی طول پکڑے گی اس سلسلہ میں کچھ کہا نہیں جاسکتا۔ ایک
طرف داعش کے خاتمہ کی بات کی جاتی ہے یا اسے کمزور بتایا جاتا ہے تو دوسری
جانب یمن میں حوثی باغیوں کے حوصلے مضبوط بتائے جارہے ہیں۔ یمن میں عبدربہ
منصور ہادی کے اقتدار کے خلاف حوثی باغیوں جس ثابت قدمی سے آگے بڑھتے بتائے
جارہے ہیں اور انکی ہمت میں اس قدر اضافہ بتایا جارہا ہے وہ پہلے طائف میں
حملے کئے اور پھر سعودی عرب کے دارالحکومت ریاض کو نشانہ بنانے کی کوشش
کررہے ہیں۔ یمن کے حوثی باغیوں کو ایران کی سرپرستی و تائید حاصل ہے۔ گذشتہ
دنوں حوثیوں کی جانب سے ریاض پر بیلسٹک میزائل حملہ کیا گیا اس کی تحقیقات
سے پتہ چلا کہ وہ ایرانی میزائیل تھا۔ ایک اور مرتبہ سعودی عرب پر بیلسٹک
میزائل حملے کی کوشش ناکام ہوگئی، یہ میزائل سعودی عرب کے کسی علاقے میں تو
نہ گرا البتہ یمن کے شہرصنعا میں آبادی پر آگرا جس کے نتیجے میں کم سے کم
10عام شہری جاں بحق اور کئی زخمی بتائے گئے۔ جیسا کہ اوپر بتایا گیا ہے کہ
حوثیوں کی جانب سے سعودی عرب کو نشانہ بنانے کئی بار بیلسٹک میزائل حملے
کیے گئے جن میں سے بیشتر میزائل یمن کے اندر ہی مختلف مقامات پر گر کر تباہ
ہوگئے یا انہیں عرب اتحادی فوج نے مار گرایا۔حالیہ ہفتوں کے دوران حوثیوں
نے سعودی عرب کے دارالحکومت ریاض کودو مرتبہ بیلسٹک میزائل حملوں سے نشانہ
بنانے کی کوشش کی مگر دونوں میزائلوں کو کسی جانی نقصان کے بغیر ہی فضا میں
مار گرایا گیا تھا۔ حوثی باغیوں کی بڑھتی ہوئی طاقت کے خلاف سعودی اتحاد
مدمقابل ہے جس کی وجہ حوثی باغی سعودی عرب کو نشانہ بنانے کی بار بار کوشش
کررہے ہیں اب دیکھنا ہے کہ سعودی عرب جو کروڑہا ڈالرس کے ہتھیار امریکہ اور
دیگر مغربی و یوروپی ممالک سے حاصل کیا ہے اس کے خلاف کس قسم کی کارروائی
کرتا ہے ۔ ماضی میں سعودی اتحاد کی فضائی کارروائیوں کے نتیجہ کئی معصوم و
بے گناہ افراد ہلاک ہوچکے ہیں جس کی کئی جانب سے مذمت کی گئی ۔
افغانستان میں امریکی فوج کی موجودگی کتنی فائدہ مند!
افغانستان میں طالبان کی حکومت کو بے دخل کرنے کے بعد امریکہ اور اسکے
تائیدی ممالک نے مسلمانوں کے درمیان تفرقہ ڈال کر لڑانے کی بھرپور کوشش کی
ہے ایک طرف طالبان کی سرگرمیوں کو کچلنے کے لئے ان کے ٹھکانوں کو نشانہ
بنایا جاتا رہا ہے تو دوسری جانب طالبان کی جانب سے عام شہریوں کی ہلاکت
مختلف طریقوں سے کی جاتی رہی ہے۔ غرض کہ طالبان کو جس دہشت گرد کے طور پر
پیش یا جاتا رہا ہے آج روسی صدر ولادی میر پیوٹن کا کہنا ہے کہ امریکہ اگر
افغانستان میں نہیں ہوتا تو وہاں امن و امان کی صورتحال آج سے زیادہ خراب
ہوتی۔روسی ذرائع ابلاغ کے مطابق ولادی میر پیوٹن نے روس میں پارلیمانی
رہنماؤں کے اجلاس کے دوران کہا ہے کہ روس اور امریکہ کے درمیان معاملات
ٹھیک نہیں لیکن ہمیں اس معاملے کو معروضی طور پر لینا چاہیے۔ دہشت گردی کے
خطرات کے لحاظ سے افغانستان کی صورتحال پہلے سے زیادہ بدتر ہوئی ہے، داعش
کی کارروائیاں صورتحال کومزید خراب کررہی ہیں، امریکہ اگر افغانستان میں نہ
ہوتا تو صورتحال اور بھی گھمبیر ہوجاتی۔روسی صدر نے افغانستان، تاجکستان
اور ازبکستان کی سرحدوں پر طالبان کی موجودگی پر تشویش کا اظہار کرتے ہوئے
کہا کہ اس وقت دہشت گرد گروہ داعش افغانستان میں قدم جمانا چاہتا ہے، انہوں
نے داعش اور طالبان کا جھگڑے کو خطرے کی گھنٹی بتایا۔ انہوں نے اس حوالے سے
ترکمانستان کے صدرسے بات کی ہے۔وہ ترکمانستان گیس ٹرانسمیشن نظام افغانستان
سے پاکستان اور ہندوستان لے جانا چاہتے ہیں، اس پراجیکٹ میں انھوں نے روس
کو بھی شرکت کی دعوت دی ہے۔ ہمیں دیکھنا ہوگا کہ اس منصوبے کی کامیابی کے
امکانات کس حد تک ہیں۔۔
امریکی نائب صدر کی پاکستان کو دھمکی۔؟
امریکہ کے نائب صدر مائیک پینس نے کہاہے کہ دہشت گردوں اور مجرموں کو پناہ
دینے سے پاکستان کو بہت کچھ کھونا پڑے گا، لیکن امریکہ کی شراکت داری سے
پاکستان کو بہت کچھ حاصل ہوگا۔ یقین ہے کہ ہم افغانستان میں فتح سے زیادہ
قریب ہوگئے ہیں۔ امریکہ کو درپیش خطرے کے خاتمے تک امریکی فورسز افغانستان
میں رہیں گی،ذرائع ابلاغ کے مطابق نائب امریکی صدرمائیک پینس گذشتہ دنوں
افغانستان کے غیر اعلانیہ دورہ پر بگرام ایئربیس سے کابل پہنچے۔انہوں نے
صدارتی محل میں افغان صدر اشرف غنی لون اور چیف ایگزیکٹو عبداﷲ عبداﷲ سے
ملاقات کی۔مائیک پینس نے افغان رہنماؤں کو یہ بتانے کی کوشش کی کہ ان کی
یہاں موجودگی اس بات کا ثبوت ہے کہ امریکہ افغانستان کی صورتحال پر نظر
رکھے ہوئے ہے۔امریکی نائب صدر مائیک پینس نے افغان صدر سے ملاقات کے بعد اس
یقین کا اظہار کیا کہ ہم افغانستان میں فتح سے زیادہ قریب ہوگئے ہیں انہوں
نے امریکہ کو درپیش خطرے کے خاتمے تک امریکی فورسز افغانستان میں مقیم رہنے
کی بات کہی ہے۔اس موقع پر پاکستان کے حوالے سے گفتگو کرتے ہوئے مائیک پینس
نے امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ جیسا لب ولہجہ استعمال کرتے ہوئے کہا کہ دہشت
گردوں کو پناہ دینے کے دن ختم ہوگئے، پاکستان کو امریکہ کی شراکت داری سے
بہت کچھ حاصل ہوگا، لیکن دہشت گردوں اور مجرموں کو پناہ دینے سے بہت کچھ
کھونا پڑے گا۔اس موقع پر افغان صدر اشرف غنی لون نے امریکی حکومت کا شکریہ
ادا کیا اور کہا کہ افغانستان کی امریکہ کے ساتھ شراکت داری میں بہت سی
قربانیاں بھی شامل ہیں۔پاکستانی حکومت اور فوج نے ماضی میں ملک سے دہشت
گردوں کے خاتمہ کے لئے کئی اقدامات کرنے کے دعوے کئے ہیں اور ملک میں دہشت
گردوں کے خاتمے کیلئے وسیع تر آپریشنس کئے ۔ ان کے کئی مرتبہ دعوے جھوٹے
ثابت ہوئے ۔اب دیکھنا ہیکہ امریکہ پاکستانی عوام کو پھر ایک مرتبہ کس طرح
نشانہ بناتا ہے۔ کیونکہ ماضی میں ڈرون حملوں اور دیگر فضائی کارروائیوں میں
کئی بے قصور افراد کا قتل عام ہوچکاہے۔ امریکی نائب صدر کی پاکستان کو
دھمکی مستقبل قریب میں کچھ نئے خطرناک کاررائیوں کی طرف اشارہ کرتی ہے۔
*** |