3 اکتوبر 2017 کو 86 برس کا ایک شہرت یافتہ پاکستانی
آرٹسٹ پاکستان کے افق کا ستارہ گل ہوگیا۔ تصدق سہیل 1930 میں بھارتی شہر
جالندھر میں پیدا ہوئے ہجرت کے وقت لاہور آئے بعد ازاں اپنے خاندان کے ساتھ
کراچی میں مقیم ہو گئے 1961 میں لندن چلے گئے وہاں مصوری کا آغاز کیا۔
انہوں نے اپنی زندگی میں بے تحاشہ فن پارے تخلیق کیے اور ان کی بے شمار
نمائشیں منعقد ہوئیں۔ مگر ان کے فن پاروں کا ریکارڈ نہ رکھا جا سکا ان کی
مصوری کئی مضوعات پر مشتمل تھی
تصدق سہیل کے بارے میں کچھ یادیں عرفان جاوید کی زبانی
جب برطانیہ میں ان کا تین دہائیوں سے بڑھ کر قیام تھا تو قریب میں تصدق
سہیل جنگلی لومڑوں اور دیگر جانوروں کو کھانا دیتے تھے اور گوشت کاٹ کر صرف
کیا کرتے تھے جب ان سے گوشت کاٹنے کی وجہ پوچھی گئی تو بولے پرندوں کے حلق
چھوٹے ہوتے ہیں جب میں ابتداء میں بڑے ٹکڑے ڈالتا تھا تو میں نے دیکھا کہ
دل اور دوسرے حصے پرندوں کے حلق میں پھول جاتے ہیں اور ان کا دم گھٹ جاتا
ہے چنانچہ جب میں نے ان کو اس طرح سے زمین پر گرتے تڑپتے دیکھا تو چھوٹے
چھوٹے پارچے کاٹنے لگا
عرفان جاوید
”جب مجھے ان سے ملے دس برس گزر گئے تو ایک روز میں نے تصدق صاحب سے پوچھا
میں پچھلے دس برس سے آپ کے پاس آرہا ہوں ہماری دنیا جہاں کے ہر موضوع پر
گفتگو ہوتی ہے کیا آپ جانتے ہیں میں کون ہوں کیا کرتا ہوں کہاں رہتا ہوں؟
وہ درویش صفت گہری سوچ میں مبتلا ہو گئے تھوڑی دیر بعد میری طرف دیکھا اور
بولے واقعی میں نے آج تک آپ سے پوچھا ہی نہیں کہ آپ کہاں رہتے ہیں کیا کرتے
ہیں تو اب بتائے آپ کیا کرتے ہیں؟ یہ سن کرمیں ہنس پڑا
ایک واقعے کے گواہ ان کے قریبی عزیز اور آرٹ ڈیلر تھے
ایک دفع ان کو پینٹنگ کمیشن دی گئی اور ایڈوانس میں 32 لاکھ دیے گئے وہ
بینکاری نظام پر یقین نہیں رکھتے تھے اس لئے ان کو رقم کیش میں دی گئی اگلے
روز جب ان سے اس 32 لاکھ کا پوچھا گیا تو انہوں نے بتایا ایک ضرورت مند
خاتون ان کے پاس آئی تھی اس نے اپنے شوہر کی بے روزگاری اور بچوں کی بیماری
کی داستان ان کو سنائی تو آپ نے 32 لاکھ سارے کے سارے اس خاتون کو تھما دیے
اور اگلی صبح وہ پھر خالی ہاتھ بیٹھے تھے
وہ تنہائی پسند تھے ان کے تحریر کردہ افسانوی مجموعے کا نام بھی ”تنہائی کا
سفر ” ہے۔ اپنے عزیزوں اور رشتے داروں سے وہ بلکل نہ ملتے تھے کہتے تھے
خاندانی معملات اور الجھنیں میری یکسعوئی کو متاثر کرتی ہیں۔ ان کی تین
بہنیں تھیں دو معاشی طور پر خوشحال تھیں اور ایک ان کے آبائی شہر شیخوپورہ
میں بیوگی اور غربت کی زندگی گزار رہیں تھیں یہ بات بہت بعد میں جاکر کھلی
کہ تصدق سہیل اپنی بیوہ بہن کو خاموشی کے ساتھ ہر ماہ ایک مناسب رقم بھجوا
دیا کرتے تھے اور اس کا کسی سے تذکرہ نہیں کرتے تھے
وہ کسی خاص پلاننگ کے تحت پینٹنگ نہیں بناتے تھے بلکہ کینوس پر رنگ لگا کر
چھوڑ دیتے تھے اس کے بعد دیکھتے تھے تو انہی رنگوں میں کوئی تصویر نمایاں
ہوتی نظر آتی تھی وہ اسے بہت توجہ سے پینٹ کر دیتے تھے گویا یہ شعوری کوشیش
نہیں ہوتی تھی بلکہ ان کا لاشعور تہہ شعور کارفرما ہوتا تھا وہ کہتے تھے
میں اس دور میں زندہ ہوں جب انسانوں نے اس خوبصورت دنیا کو پامال نہ کیا
تھا یہاں کنکریٹ کی عمارتیں، تارکول کی سڑکیں، گندگی اور قدرتی عناصر پر
تجاویزات موجود نہ تھے وہ گھنے جنگلوں، پرندوں، جانوروں کے بیچ ڈہنی طور پر
زندگی بسر کرتے تھے انہوں نے ساری زندگی شادی نہ کی تھی انہوں نے اپنے
تخلیقی جنون کے خاطر کسی عورت کی زندگی متاثر نہیں کی تھی۔ محبتیں کئی کی
تھیں عشق ایک برطانوی لڑکی اینگریٹ سے ہوا بقول ورفان جاوید ” میں نے ایک
طویل مضمون انگریزی رسالے کےلئے لکھا اس میں برطانوی لڑکی کا ذکر کیا مضمون
کے چند ہفتے بعد مجھے ایک email آئی email برطانیہ سے کسی صاحب نے کی تھی
جنہوں نے مضمون پڑھا تھا انہون نے برطانوی لڑکی کا تڈکرہ کرتے ہوئے کہا
بڑھاپے میں آکر اس نے خودکشی کرلی تھی۔ تصدق سہیل اس خبر سے کافی دن تک
افسردہ رہے ان کی ملاقات اس لڑکی سے 40 برس پہلے ہوئی تھی۔
تصدق سہیل صاحب کو پیسے جمع کرنے سے نفرت تھی اس معاملے میں آرٹ گیلری
والے، ان کے مداحوں اور کئی چند دیگر لوگوں نے ان کی مدد کی۔
عرفان جاوید کہتے ہیں
ہم شدت پسندی کے حوالے سے دکھ میں مبتلا رہتے ہیں مگر مجھے ان کے چند روشن
خیال مداح پر بھی دکھ ہوتا ہے جن کو تصدق صاحب نے اپنی بے شمار تصویریں
تحفتاً دی تھیں اور بیماری کی حالت میں جب وہ ان لوگوں کو یاد کرتے تھے تو
میں نے ان سب سے ہی رابطہ کیا مگر چونکہ ان کا مقصد پورا ہو چکا تھا تو
کوئی بھی تصدق سہیل سے ملنے نہیں آیا۔
جب میں یہ تحریر سن رہی تھی تو خیال آیا ہمارے اکابرین میں کتنے ایسے عظیم
لوگ ہوں گے جن کو ہم نوجوان نسل والے جانتے بھی نہیں۔ کچھ چند نام ہیں جو
ہمیں رٹا دیے گئے ہیں۔ ہر سال بس وہی ہمارے ذہنوں میں رہ جاتے ہیں مگر
حقیقت یہ ہے یہ ایک پورا قافلہ ہے۔ |