علامہ اقبال کا فکری ویژن اور عصر حاضر کا تعلیمی بحران: تعلیم کا بحران یا تہذیب کا زوال؟ (حصہ دوم)

علامہ اقبال کا فکری ویژن اور عصر حاضر کا تعلیمی بحران: تعلیم کا بحران یا تہذیب کا زوال؟ (حصہ دوم)
تحریر: ڈاکٹر افضل رضوی---آسٹریلیا
پہلے حصّے میں ہم نے یہ دیکھا کہ جدید تعلیم انسانوں کو باخبر تو کر رہی ہے مگر باصلاحیت نہیں، ہنر تو دے رہی ہے مگر حکمت نہیں۔ اب سوال یہ ہے کہ یہ بحران کس مقام پر پیدا ہوا؟ کیا یہ مسئلہ نصاب کا ہے؟ اساتذہ کا ہے؟ نظامِ امتحانات کا ہے؟ یا خود تہذیب کے اندر کوئی دراڑ پیدا ہو چکی ہے؟ عصرِ حاضر میں ہم جب علامہ اقبال کے افکار کا مطالعہ کرتے ہیں تو کچھ نئی حقیقتیں آشکار ہوتی ہیں اور ان میں سے ایک یہ ہے کہ تعلیم کا بحران دراصل تہذیبی بحران ہے۔ یہ خیال کتنا عجیب لگتا ہے کہ ”تعلیم کے مسئلے“ کی جڑ کوئی تعلیمی معاملہ نہیں ؛ بلکہ تہذیبی بگاڑ ہے۔ علامہ اقبال نے اس حقیقت کو نہایت وضاحت سے بیان کیا ہے کہ جب قومیں اپنی فکری بنیادوں سے ہٹتی ہیں، تو ان کی تعلیم سب سے پہلے بے روح ہو جاتی ہے۔ نصاب باقی رہتا ہے، اساتذہ باقی رہتے ہیں، ڈگریاں تقسیم ہوتی رہتی ہیں ;مگر روحِ تعلیم دم توڑ دیتی ہے۔ وہ جب نوجوانوں کو اندھی تقلید میں گرفتار دیکھتے ہیں تو پکار اٹھتے ہیں :
نظر کو خِیرہ کرتی ہے چمک تہذیبِ حاضر کی
یہ صناعی مگر جھوٹے نگوں کی ریزہ کاری ہے
گویا دورِ حاضر کی چمک دمک جس نے بالعموم تمام لوگوں کو اور بالخصوص نوجوانوں کو اپنی لپیٹ میں لے رکھا ہے وہ جدیدیت کا واویلا ہے۔ ہم یہاں یہ واضح کر دینا چاہتے ہیں کہ علامہ اقبال کے نزدیک اصل خطرہ جدیدیت نہیں، بلکہ بے بنیاد جدیدیت ہے۔ وہ جدیدیت جو اپنی جڑیں کھو دے، اپنے مقصد سے دور ہو جائے، اور صرف ظاہری ترقی کا شور مچاتی رہے۔ مسئلہ ”تعلیم“ کا کم اور ”تربیت“ کا زیادہ ہے۔ کیونکہ جدید تعلیم تو خود علامہ اقبال نے بھی حاصل کی تھی۔ لہٰذا یہ اظہر من الشمس ہے کہ ہمارے اسکول اور جامعات معلومات کا انبار تو فراہم کر رہے ہیں، مگر کردار سازی کا نظام کہیں دکھائی نہیں دیتا۔ علامہ اقبال نے اسی فکری زوال کو یوں بیان کیا:
بدلی زمانے کی ہوا، ایسا تغیّر آ گیا
تھے جو گراں قیمت کبھی، اب ہیں متاعِ کس مخر
وہ شُعلہ روشن ترا، ظُلمت گریزاں جس سے تھی
گھَٹ کر ہُوا مثلِ شرر تارے سے بھی کم نور تر
شیدائیِ غائب نہ رہ، دیوانہ موجود ہو
غالب ہے اب اقوام پر معبودِ حاضر کا اثر
لیکن پھر انہیں احساس ہوتا ہے کہ نوجوانوں کے ذہن پر مرصع سازی اس قدر سوار ہو چکی ہے کہ:
ممکن نہیں اس باغ میں کوشِش ہو بارآور تری
فرسُودہ ہے پھندا ترا، زِیرک ہے مُرغِ تیز پر
پس ان کی نظرِ تیز تر نے یہ سمجھ لیا تھا کہ تربیت کا یہ بحران نوجوانوں کو اپنے اصل مقاصد سے دور کردے گا اور یہ حقیقت دورِ موجود میں کماحقہ ’دیکھی جا سکتی ہے کہ ہماری نوجوان نسل پاسورڈز جانتی ہے مگر اپنے مقاصد نہیں۔ وہ مصنوعی ذہانت سمجھتی ہے مگر اخلاقی ذہانت سے خالی ہے۔ وہ دنیا کی زبانیں سیکھتی ہے مگر اپنے اندر کی زبان سے نابلد ہے۔ یہ صرف تعلیمی مسئلہ نہیں، یہ وجودی بحران ہے۔ استاد کا کھویا ہوا مقام اصل انقلاب کا دروازہ ہے۔ ماضی بعید میں ایشیائی اور اسلامی دنیا میں ہمیشہ تعلیم کا مرکز ”استاد“ ہوتا تھا۔ کیونکہ استاد محض معلّم نہیں بلکہ:مربی، مصلح، رہبر، اور روحانی نگہبان ہوتا تھا، مگر آج استاد ”فائلوں کا مزدور“ بن چکا ہے۔ رزلٹ شیٹ، حاضری رجسٹر، نصاب کی ٹک مارکنگ۔ یہ وہ زنجیریں ہیں جنہوں نے استاد کی روحانی عظمت کو ختم کر دیا ہے۔ علامہ اقبال نے استاد کے لیے جو مقام تجویز کیا تھا، وہ اس سے کہیں بلند تھا:
اس دور میں بھی مردِ خُدا کو ہے میَسّر
جو معجزہ پربت کو بنا سکتا ہے رائی
اور پھر مزید کہتے ہیں :
تیرے نفَس سے ہوئی آتشِ گُل تیز تر
مُرغِ چمن! ہے یہی تیری نوا کا صِلہ
ایک وقت وہ تھا جب شاگرد اپنے استاد کی خدمت کو اعزاز سمجھتا تھا، اور دل چاہتا تھا کہ استاد کی خدمت کے صلے میں دل کا تحفہ پیش کرے ؛یعنی اخلاص، ادب اور وفاداری۔ استاد علم کا نہیں بلکہ کردار اور تہذیب کا مرکز سمجھا جاتا تھا۔ لیکن عصر حاضر میں استاد ایک مشین بن کر رہ گیا ہے وہ علم تو فراہم کرتا ہے مگر تربیت کرنے سے قاصر ہے کیونکہ اب تعلیم ایک تجارتی معاہدہ بن چکی ہے۔ شاگرد سبق ختم ہوتے ہی استاد سے مؤدبانہ یا شکر گزار ہونے کے بجائے حساب مانگتا ہے، گویا علم نہیں بلکہ کوئی خریدی ہوئی خدمت حاصل کی جا رہی ہو۔ استاد مربی نہیں رہا، بلکہ ایک سروس پروائیڈر بن گیا ہے، اور شاگرد طالبِ علم نہیں بلکہ صارف۔ علامہ اقبال نے اسی نکتے کو طنزیہ انداز میں یوں بیان کیا ہے کہ ”ہماری تہذیب ایک گہرے مرض میں مبتلا ہو چکی ہے، مگر ہم اس کے علاج کے لیے سنجیدہ اور بنیادی اصلاح کے بجائے وقتی اور سطحی حل تلاش کر رہے ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ تہذیب جیسے پیچیدہ اور دیرینہ مرض کا علاج کسی طاقتور دوا یا گولی سے نہیں ہو سکتا، بلکہ اس کے لیے باقاعدہ، مسلسل اور اصولی علاج درکار ہے“ ۔
علامہ کہتے ہیں کہ اس سوچ کو بدلنے کے لیے ضروری ہے کہ استاد کی نظر میں ایک بار پھر فکر رومی بیدار ہو اور وہ صلے سے بے نیاز ہو کر نئی نسل کی تعلیم کے ساتھ ساتھ تربیت کی ذمہ داری بھی ادا کرے کیونکہ:
بھروسا کر نہیں سکتے غلاموں کی بصیرت پر
کہ دنیا میں فقط مردانِ حُر کی آنکھ ہے بِینا
وہی ہے صاحبِ امروز جس نے اپنی ہمّت سے
زمانے کے سمندر سے نکالا گوہرِ فردا
فرنگی شیشہ گر کے فن سے پتھّر ہو گئے پانی
مری اِکسیر نے شیشے کو بخشی سختیِ خارا
گویا آج بھی استاد دنیا بدل سکتا ہے ؛ اگر اس کے ہاتھ میں فائل نہیں، فکر ہو۔ اگر اس کے سامنے کاغذ نہیں، انسان ہو۔ طلبہ کو کتابوں کا نہیں، سمت کا مسئلہ ہے۔ ہمارے نوجوان کے پاس کتابیں بہت ہیں، سکرینیں بہت ہیں، لیکچرز بہت ہیں ؛جو نہیں ہے وہ ہے مقصد، سمت، اعتماد، اور اپنی پہچان۔ نوجوان سے اگر پوچھا جائے کہ تم زندگی میں کیا بننا چاہتے ہو تو وہ لمبی فہرست تو دے دیتا ہے، مگر اپنے ”مقصدِ حیات“ پر خاموش ہو جاتا ہے۔ یہ خاموشی کسی ایک فرد کی نہیں بلکہ یہ پوری تہذیب کی خاموشی ہے۔ اسی نکتے کو بھانپتے ہوئے علامہ اقبال نے کہا تھا:
جوانوں کو میری آہِ سحر دے
پھر ان شاہین بچوں کو بال و پر دے
علامہ اقبال کی یہ ”آہِ سحر“ دراصل ایک تعلیمی فلسفہ ہے، جسے ہم ابھی تک تعلیم کے ہنگاموں میں تلاش ہی نہیں کر پائے۔ جدید دنیا میں علامہ اقبال کی فکر محض ماضی نہیں، مستقبل کی سمت ہے۔ بعض لوگ یہ سمجھتے ہیں کہ علامہ اقبال کا فلسفہ آج کی ٹیکنالوجی کے دور میں شاید ”پرانی بات“ ہو گیا ہے۔ مگر سچ یہ ہے کہ جتنی ٹیکنالوجی بڑھے گی، اتنی ہی خودی کی ضرورت بڑھتی جائے گی۔ دنیا آرٹیفیشل انٹیلی جنس بنائے گی لیکن ہمیں اخلاقی انٹیلی جنس پیدا کرنا ہو گی۔ دنیا ڈیجیٹل تعلیم دے گی لیکن ہمیں اخلاقی تربیت دینا ہو گی۔ دنیا روبوٹ بنائے گی لیکن ہمیں انسان بنانے ہوں گے۔ علامہ اقبال کا یہی فلسفہ ہے نیا علم اپناؤ، نئی دنیا میں جیو، مگر اپنی اصل نہ چھوڑو۔ مسلم دنیا کی اصل ناکامی اپنی علمی روایت سے کٹ جانے میں ہے۔ ہماری نصابی کتب مغرب سے منگوائی ہوئی ہیں۔ ہماری مثالیں مغرب سے لی گئی ہیں۔ ہمارے تجربات مغرب کی نقل ہیں۔ حتیٰ کہ ہماری کامیابی کا معیار بھی مغربی ذہن نے مقرر کیا ہے۔ پھر ہماری نئی نسل اپنی تہذیب سے وفادار کیسے رہے؟
پس مستقبل اُن کا ہے جن کے پاس ویژن ہو۔ دنیا بدل چکی ہے، مگر انسان کی ضرورت آج بھی وہی ہے۔ معنی، مقصد، شناخت، حکمت اور کردار۔ اگر مسلم دنیا نے یہ بات آج نہ سمجھی تو کل کا مورخ یہی لکھے گا کہ:
”ان کے پاس ڈگریاں تھیں، مگر قوم نہ بن سکی۔ ان کے پاس ٹیکنالوجی تھی، مگر تہذیب نہ بن سکی۔ ان کے پاس علم تھا، مگر روشنی نہ بن سکا“ ۔
اقبال نے جو راستہ دکھایا تھا، وہ آج بھی زندہ ہے۔ کیونکہ وہ راستہ مستقبل کا راستہ ہے۔ یہ مٹی آج بھی زرخیز ہے۔
نہیں ہے نا امید اقبال اپنی کشتِ ویراں سے
ذرا نم ہو تو یہ مٹی بڑی زرخیز ہے ساقی
Dr Afzal Razvi
About the Author: Dr Afzal Razvi Read More Articles by Dr Afzal Razvi: 140 Articles with 232924 views Educationist-Works in the Department for Education South AUSTRALIA and lives in Adelaide.
Author of Dar Barg e Lala o Gul (a research work on Allamah
.. View More