رسالہ بیتی: ماہ نامہ انوکھی کہانیاں کی سرگزشت(تنقیدی وتجزیاتی مطالعہ)

ازقلم؛ذوالفقار علی بخاری

’رسالہ بیتی‘ بچوں کے معروف رسالے ماہ نامہ انوکھی کہانیاں، کراچی کی سرگزشت ہے۔ اگست 1991سے شائع ہونے والا رسالہ گزشتہ تیس سالوں سے ادبی حلقوں میں زیربحث ہے۔رسالہ بیتی کی صورت میں ماہ نامہ انوکھی کہانیاں کی تاریخ منظرعام پرآئی ہے جو نہ صرف لکھنے والوں بلکہ مستقبل کے مورخ کے لیے بھی اہم دستاویز قرار دی جا سکتی ہے۔
بقول نوشاد عادل (ادیب، ڈراما نگار، ناول نگار):
”آپ بیتیاں تو آپ سنتے پڑھتے رہے ہیں،لیکن کسی رسالے کی ’آپ بیتی’پہلی مرتبہ منظرعام پر کتاب کی صورت میں شائع ہو رہی ہے، کوئی مانے یا نہ مانے، لیکن حقیقت اپنی جگہ مسلمہ ہے۔“
رسالہ بیتی کا انتساب خلائی سائنس دان،معتبر شاعر،نامور علمی، ادبی شخصیت ’خیام الپاک ظفر محمد خان ظفر‘اورعلمی، ادبی اورسماجی شخصیت ’سید محمد شاہ نواز اعظم‘ کے نام ہے۔
رسالہ بیتی میں کئی انکشافات موجود ہیں جو قاری کو حیران کرتے ہیں۔
نوشاد عادل کی تجویز پر ماہ نامہ انوکھی کہانیاں میں ’آپ بیتیاں‘ شائع کرنے کا سلسلہ 2012سے شروع ہوا۔جس کے تحت اولین آپ بیتی پروفیسر ظریف خان کی شائع ہوئی جب کہ نوشادعادل کی اپنی سرگزشت نومبر/دسمبر2015میں شائع ہوئی۔ماہ نامہ انوکھی کہانیاں نئے لکھنے والوں کی حوصلہ افزائی کرنے میں پیش پیش رہا ہے جس کی ایک مثال نوشاد عادل ہیں۔
نوشاد عادل کے بقول’اگر اس وقت ان کی انوکھی کہانیاں اتنی حوصلہ افزائی نہ کرتا تو وہ لکھنا چھوڑ چکے ہوتے۔‘
درج بالا فقرے نے راقم الحروف کو احساس دلوایا کہ اگر مدیران ادیبوں کے ساتھ اختلاف کو پیشہ ورانہ حدود میں مقید کرلیں اورذاتی رنجش کا سبب نہ بنائیں تو کئی لکھنے والے ادب سے دوری اختیار نہ کریں۔نئے لکھنے والوں کو رسائل کے مدیران کوسراہنا چاہیے تاکہ وہ ادب اطفال سے جڑے رہیں۔
ایک اورانکشاف پڑھ کر حیرت ہوئی، وہ کچھ یوں ہے:
”اسی طرح ایک اور بچوں کے ادب کے بڑے اورمہان ادیب اپنے آپ کو کہتے ہیں۔ہر دم نذیر انبالوی اور نوشاد عادل کو اپنا مقابل سمجھتے ہیں۔ان کو بھی نیشنل بک فاؤنڈیشن سے متعدد انعامات ہماری رہنمائی کی وجہ سے ملے۔مگر موصوف اس کے کچھ عرصہ بعد ’انوکھی کہانیاں‘ کے زبردست مخالف بن کر سامنے آئے۔“
اگر راوی (محبوب الہیٰ مخمور) دلیری کا مظاہرہ کرتے ہوئے ادیب کا نام عیاں کر دیتے تو رسالہ بیتی کی اشاعت ہنگامہ خیز ہوسکتی تھی۔
اگست 1991سے مئی 2025تک جنھوں نے ماہ نامہ انوکھی کہانیاں کے لیے لکھا ہے۔اُن کے ناموں کی تفصیلات رسالہ بیتی کا حصہ ہیں جو ظاہر کرتا ہے کہ کتنی محنت سے معلومات کو یکجا کیا گیا ہے جو کہ قابل تعریف ہے۔
کچھ معلومات کو درج ذیل عنوانات کے تحت رسالہ بیتی میں پیش کیا گیا ہے۔
٭انوکھی کہانیاں کے خاص نمبرز، ایوارڈز اور اعزازت
٭انوکھی کہانیاں کے خاص شمارے ایک نظر میں
جن ادیبوں کی زیادہ تحریریں شائع ہوئی ہیں،اُن میں نوشاد عادل کا نام نمایاں ہے جن کی 208تحریریں رسالے کا حصہ بنی ہیں۔آصف جاوید نقوی کی 126،محمد مشتاق قادری کی 117،ضیاء الحسن ضیاء کی 115، رضیہ خانم کی 109،الطاف حسین کی 108 اورامان اللہ نئیرشوکت کی 101تخلیقات شامل ہوئی ہیں۔جن کی سو سے کم لیکن پچاس سے زائد تخلیقات شائع ہوئی ہیں اُن میں محمد انواراحمد،محمد سعید عباس، حکیم خان حکیم، سہیل اختر ہاشمی، محبوب الہی مخمور، قمر جہاں علی پوری،امین بابر، محمد عادل منہاج، ڈاکٹر عمران مشتاق، احمد عدنان طارق، آصف جاوید سکندر، اشرف بیتھوی شامل ہیں۔ اشتیا ق احمد کی صرف ایک تحریر رسالے کا حصہ بنی ہے۔ جب کہ کئی ادیبوں کی صرف ایک تخلیق ہی تیس برسوں میں رسالے میں شامل ہوئی ہے جو کہ باعث حیرت ہے۔ رسائل میں مخصوص ادیبوں کو مسلسل جگہ دینا ایک اہم معاملہ ہے جس پر نظرثانی کرنے کی ضرورت ہے۔ کسی بھی رسالے کی سرکولیشن میں اضافہ کرنے کے لیے نئے ناموں کی ضرورت ہوتی ہے تاکہ قارئین کو منفرد مزاج کی تخلیقات پڑھنے کا موقع ملے۔محبوب الہیٰ مخمور نے رسالہ بیتی کے ذریعے نہ صرف تعاون کرنے والوں کو سراہا ہے بلکہ اُن افراد کو بھی عیاں کیا ہے جنھوں نے اشتہارات کے لیے تعاون نہیں کیا۔ڈان بریڈسے تعلق رکھنے والے موصوف کا نام اشتہار جاری نہ کرنے پر اُجاگر کرنا حیران کن محسوس ہوا ہے۔اُن ادیبوں کا تذکرہ بھی ہے جنھوں نے قلمی تعاون کے ذریعے رسالے کو مقبولیت بخشی۔رسالے کے مختلف سلسلوں اور تحریروں کے حوالے سے معلومات پیش کی گئی ہیں۔
رسالہ بیتی کوتنقیدی نگاہ سے دیکھنے سے محسوس ہوا کہ رسالہ بیتی کو مزید بہتر انداز میں پیش کیا جا سکتا تھا۔رسالے کے خاص نمبرز کے آئیڈیاز کن کی جانب سے پیش ہوئے،اِس حوالے سے آگاہ نہیں کیا گیا ہے۔ اگررسالہ ازخود داستان بیان کرتا تو قارئین کے لیے زیادہ دلکشی محسوس ہو سکتی تھی۔اشتہارات کے حوالے سے مفصل اظہار خیال قاری کو بوریت کی جانب مائل کرتا ہے، اگرچہ کچھ واقعات دلچسپ ہیں۔ تیس برسوں میں کن ادیبوں اورسماجی شخصیات کواداریے میں خراج تحسین پیش کیا گیا،اُسے بیان کرنے سے گریز کیا گیا ہے حالاں کہ رسالہ بیتی کا یہ اہم حصہ بن سکتا تھا۔ادیبوں کی رسالے پر کی گئی تنقید اورشکایات کو اُجاگر کیا جانا چاہیے تھا۔اُن احباب کا تذکرہ ہونا چاہیے تھا جنھیں ’ناقابل اشاعت‘ قرار دے دیا گیا تو اُن کی وجوہات کیا تھیں تاکہ نئے لکھنے والوں کو اصلاح کا موقع ملتا۔
محبوب الہی مخمور پیش لفظ میں لکھتے ہیں:
”یہ بھی ذکر آیا ہے کہ ستمبر2025تک کن کن قلمکاروں کی کتنی تحریریں انوکھی کہانیاں کی زینت بنیں،چاہے وہ صرف ایک ہی تحریرکیوں نہ ہو۔ادب اطفال کے کچھ اہم واقعات کی بازگشت بھی اس کتاب میں محفوظ ہے۔یوں ’رسالہ بیتی‘ نہ صرف ایک دستاویزی ریکارڈ ہے بلکہ اپنے موضوع پر پہلی جامع کتاب ہونے کا اعزاز بھی رکھتی ہے۔‘
راقم الحروف کی مئی2021میں بے ایمانی(کہانی)،جولائی2021میں مضمون بعنوان طویل ترین ناول(آگ کا بیٹا)۔نوشاد عادل کا انٹرویو،اکتوبر2021میں کہانی(شریف آدمی)،نومبر2021میں کہانی (ایسا کب تک چلے گا)۔عظیم انسان (کہانی)،چورکے نام خط (مضمون)دسمبر2021،بازی گر(کہانی)اپریل 2022،نصف ایمان (کہانی)اکتوبر2022رسالے کا حصہ بنی ہیں۔
اگست1991تاستمبر2025تک لکھنے والوں کی جو فہرست پیش کی گئی ہے،کیااُس میں راقم کا نام درج ہے؟مذکورہ فہرست میں حرف ’ذ‘کے تحت ذاکر حسین ڈاکٹر، ذاکر حسین چشتی، ذکیہ بلگرامی،ذوالفقارعلی شیراز، ذیشان بن صفدر، ذیشان خالد،ذیشان شیرازی،ذیشان صفدر کے نام جلوہ گر ہیں۔یہ آپ کو بہت کچھ سوچنے اورسمجھنے پر مائل کرے گا کہ راقم الحروف کیا سمجھانا چاہ رہا ہے۔رسالہ بیتی کا مطالعہ کرنے والوں کو اِس حوالے سے تحقیق کرنی چاہیے۔ کیوں کہ معلومات کو مخفی رکھنا ’رسالہ بیتی‘کی ساکھ کومجروح کرے گا اورسرگزشت لکھنے والے کی غیرجانبداری مشکوک ٹھہرے گی۔دل چسپ امر یہ ہے کہ راقم الحروف کی ’نوشاد عادل نمبر‘ میں تحریر کا عنوان دیا گیا، لیکن نام لکھنے سے گریز کیا گیا جو کسی سنگینی کی جانب اشارہ کرتا ہے۔جب کہ نذیر انبالوی نمبر(جون2021) میں مضمون اور اگست 2021 میں ’آپ بیتی‘ کی اشاعت کو ریکارڈ پر رکھا گیا ہے۔علی اکمل تصور کا نام پچاس سے زائد تخلیقات لکھنے والوں کی فہرست میں دکھائی نہیں دیا لیکن اُن کی رسالے میں ستر تحریریں شائع ہو چکی ہیں جو کسی کوتاہی کی جانب اشارہ کرتی ہے۔
بہرحال، رسالہ بیتی ایک بہترین دستاویز قرار پاسکتی ہے اگر ماہ نامہ انوکھی کہانیاں میں شائع ہونے والے حقائق /ریکارڈ سے منافی نہ ہو۔رسالہ بیتی اپنی خوبیوں اورخامیوں کے ساتھ ماہ نامہ انوکھی کہانیاں،کراچی کے حوالے سے اہم معلوماتی کتاب قرار دی جا سکتی ہے۔اِس مجموعے میں محبوب الہیٰ مخمور کی انتھک محنت دکھائی دیتی ہے جس پر وہ بجا طور پر قابل تعریف ہیں۔
۔ختم شد۔
Zulfiqar Ali Bukhari
About the Author: Zulfiqar Ali Bukhari Read More Articles by Zulfiqar Ali Bukhari: 412 Articles with 606803 views I'm an original, creative Thinker, Teacher, Writer, Motivator and Human Rights Activist.

I’m only a student of knowledge, NOT a scholar. And I do N
.. View More