| علامہ اقبال کا فکر ی وژن اور عصر حاضر کا تعلیمی بحران۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔اس عنوان کے تحت آرٹیکلز کا سلسلہ چلے گا۔ یہ اس سللے کا پہلا حصہ ہے۔ |
|
علامہ اقبال کا فکر ی وژن اور عصر حاضر کا تعلیمی بحران تحریر: ڈاکٹر افضل رضوی دنیا میں آج بے پناہ ترقی کا شوروغوغاہے۔ کہیں آرٹیفیشل انٹیلیجنس کا طوفان ہے، کہیں ڈیجیٹل معیشت کی دھوم،کہیں نئے معاشرتی نظام کی پکار، اور کہیں بین الاقوامی معیار ی تعلیمی اداروں کی چمکیلی عمارتیں؛لیکن اگر ان تمام روشنیوں کے درمیان کھڑے ہو کر اپنی نئی نسل کا جائزہ لیں تو حیرت ہوتی ہے کہ اس ترقی نے انسان کو سہولت تو دی ہے، مقصد نہیں دیا۔وہ علم تو دے رہی ہے، مگر ادراک نہیں، وہ ہنر تو پیدا کر رہی ہے، مگر کردار نہیں، اور یہی وہ لمحہ ہے جب علامہ اقبال کی آواز ایک صدی بعد بھی کانوں میں تازہ محسوس ہوتی ہے۔ یہ علم، یہ حکمت، یہ تدبر، یہ حکومت پیتے ہیں لہو، دیتے ہیں تعلیمِ مساوات! علامہ اقبال کے افکار کی روشنی میں یہ سوال ذہن کے نہاں خانوں سے نکلتا ہے کہ موجودہ نظامِ تعلیم اور طریقِ تدریس انسان بنا رہی ہے یا صرف ملازم؟لیکن اس بات سے بھی کوئی مکر اور مفر نہیں کہ مسلم معاشروں کا تعلیمی بحران نیا نہیں، مگر آج یہ پہلے سے زیادہ گمبھیر ہو چکا ہے۔ ہم آج بھی اسی نوآبادیاتی تعلیمی ڈھانچے سے چمٹے ہوئے ہیں جسے کبھی علامہ اقبال نے فکری غلامی کا کارخانہ قرار دیا تھا۔یہی وجہ ہے کہ آج کے نوجوان کے پاس ڈگری تو ہے، مگر منزل نہیں، سرٹیفکیٹ تو ہے، مگر سوال کرنے کا حوصلہ نہیں، ٹیکنالوجی تو ہے، مگر حکمت کی خوشبو غائب ہے۔ علامہ اقبال نے اسی کمی کو محسوس کرتے ہوئے تعلیم کو محض نوکری کا راستہ نہیں سمجھا بلکہ خودی کی دریافت کا سفر کہا؛ ایک ایسا سفر جس کا مقصد انسان کو اپنے باطن، اپنی تہذیب اور اپنے رب کے تعلق کی طرف راغب کرنا ہے۔ خودی کی تربیت و پرورش پہ ہے موقوف کہ مشتِ خاک میں پیدا ہو آتشِ ہمہ سوز یہی ہے سر کلیمی ہر اک زمانے میں ہوائے دشت و شعیب و شبانیِئ شب وروز آج کے تعلیمی ادارے جدید عمارتوں اور سمارٹ بورڈز سے سجے ہوئے ہیں، مگر ان کے اندر وہی پرانی سوچ زندہ ہے:رٹّا ہوا نصاب اور غیر ملکی ماڈلز کی اندھی پیروی؛ کردار سازی اور روحانی و اخلاقی تربیت کا فقدان،یہی وہ وجوہات ہیں جن کی بدولت ہمارا نوجوان قابل تو ہو جاتا ہے، لیکن متوازن نہیں بنتا، وہ روزگار تو حاصل کر لیتا ہے، مگر شخصیت نہیں بنا پاتا۔ان اداروں میں طلبہ کو فکر اقبال سے روشناس کرانے کے بجائے، ان کی وہ تصویر پیش کی جارہی ہے جس سے نئی نسل انہیں محض ایک شاعر کے طور پر ہی پہچان رہی ہے۔علامہ اقبال نے ایسے ہی ماحول کے بارے میں کہا تھا: پختہ افکار کہاں ڈھونڈنے جائے کوئی اس زمانے کی ہوا رکھتی ہے ہر چیز کو خام مدرسہ عقل کو آزاد تو کرتا ہے مگر چھوڑ جاتا ہے خیالات کو بے ربط و نظام مردہ لادینی ئ افکار سے افرنگ میں عشق عقل بے ربطی ئ افکار سے مشرق میں غلام علامہ اقبال کا تصورِ تعلیم، آج کے تمام جدید ماڈلز سے کہیں آگے کا وژن رکھتا ہے۔ وہ فرد کو محض ہنرمند نہیں بلکہ باوقار، بامقصد اور خوددار دیکھنا چاہتے تھے۔وہ چاہتے تھے کہ نوجوان اپنی اندرونی طاقت کو پہچانے اور نظریاتی طور پر آزاد ہو۔ان کے نزدیک سوال اٹھانا، روایت کو پرکھنا اور نئی راہیں نکالنا ایک زندہ قوم کی علامت ہے۔آج ہمارے اداروں میں سوال پوچھنا بدتمیزی سمجھا جاتا ہے اور یہی اصل بحران ہے۔علامہ اقبال کے نزدیک استاد صرف پڑھانے والا نہیں؛ بلکہ مربی، محسن، اور کردار ساز ہوتا ہے۔آج ہمارے استاد انتظامی کاغذوں میں الجھ کر وہ کردار ختم کر بیٹھے ہیں جسے علامہ اقبال نے قوم کی سانس کہا تھا۔وہ تو چاہتے تھے کہ سائنسی ترقی کے ساتھ ساتھ قرآنی حکمت، تہذیبی شعور اور اخلاقی اقدار بھی نصاب کا حصہ ہوں۔یہ نہیں ہو سکتا کہ ایک ہاتھ میں سائنس کی ڈگری ہو اور دوسرے ہاتھ میں تہذیبی خلا۔ یونیسکو اور ورلڈ بینک کی رپورٹس دنیا بھر میں جدت اور مساوات کا نیا منظرنامہ پیش کرتی ہیں؛لیکن مسئلہ یہ ہے کہ ہم ان ماڈلز کو اپنی تہذیب سے موازنہ کیے بغیر اپنانا چاہتے ہیں؛ جس کے نتیجے میں ایک ایسا نوجوان پیدا ہوتا ہے جو:تکنیکی طور پر مضبوط مگر فکری طور پر کمزور، معلومات سے مالا مال مگر حکمت سے محروم، عالمی سانچوں میں ڈھلا ہوا، مگر اپنی پہچان سے بے خبر۔ پس یہی وہ خلا ہے جسے علامہ اقبال کا تعلیمی تصور پُر کر سکتا ہے۔ اس لیے ضرورت اس امر کی ہے ارباب ِ اختیارتعلیم کے مقصد کو ازسرِ نو متعین کریں۔علامہ اقبال کی فکر کی روشنی میں چند بنیادی کام کیے بغیر قومی احیاء ممکن نہیں: ٭ اقبالیات کو نصاب کا حصّہ بنایا جائے ٭ اخلاقی و روحانی تربیت کو بحال کیا جائے ٭ سوال کرنے، سوچنے اور اجتہاد کی فضا پیدا کی جائے ٭ اساتذہ کو دوبارہ نظریاتی و اخلاقی تربیت دی جائے ٭ مقامی روایت اور جدید سائنس کو یکجا کیا جائے یہ اصلاحات محض نعروں سے نہیں بلکہ نیت، وژن اور پالیسی کی تبدیلی سے آئیں گی۔یاد رکھیے! جو قوم اپنی فکری بنیادیں کھو دیتی ہے، اس کی تعلیم بھی محض سرٹیفکیٹ سازی کا کارخانہ بن جاتی ہے۔اگر آج ہم نے علامہ اقبال کے تعلیمی پیغام کو سمجھ لیا؛ تو شاید وہ نسل ابھر سکے جس کا خواب علامہ اقبال نے دیکھا تھا۔انہوں نے کہا تھاکہ: ع ذرا نم ہو تو یہ مٹی بڑی زرخیز ہے ساقی یہ مٹی اب بھی زرخیز ہے۔صرف“نم”کی کمی ہے اور وہ نم صرف کردار، خودی، اور تعلیم کے صحیح مقصد کی واپسی سے آئے گا۔
|