دکھایا جو آئینہ تو برامان گئے کے مصداق امریکی صدر
اوران کے حواری کھسیانے ہو کر کھمبہ نوچنے کی کوشش میں سرگرداں ہیں اور
اپنی ہٹ دھرمی پر قائم و دائم ہیں کہ جو ہم کہہ رہے ہیں ٹھیک ہے جو ہم
کررہے ہیں درست ہے جو ہم سمجھ رہے ہیں صحیح ہے اور جو ہم نے سمجھانا ہے غلط
نہیں ہے لیکن اب ا ن کا یہ نیو ورلڈ آرڈر دنیا اور بالخصوص پاکستان کیلئے
اب کوئی حیثیت نہیں رکھتا کیونکہ یہ سرسر دھٹائی، انانیت اور چھونس دھاندلی
پر مشتمل ہے اور اس کا سب سے بڑا سبب پاکستان کا اقوام متحدہ کی جنرل
اسمبلی میں بیت المقدس کے معاملے پر قرار داد کا پیش کرنا اور پھر اسے 128
ممالک کی تائید اور حمایت کا حاصل ہونا شامل ہے جس کا امریکی حکومت کو تو
خواب و خیال بھی نہیں تھا کہ پاکستان اور دیگر دوسرے ممالک اس طرح سے اسے
دنیا کے سامنے ذلیل و رسوا اور بے وقعت کردیں گے۔اس بنا پر جنم لینے والی
کشیدگی اور تلخی اس اب نہج پر پہنچ چکی ہے کہ ایک ہی دن میں ہر دو فریقین
کی جانب سے سول و ملٹری کے سخت بیانات کا آنا بھی اس بات پر دلالت کرتاہے
کہ کچھ نہ کچھ ضرور ہونے کے درپہ ہے اگرحقائق کا بنظر غایت اور حقیت
پسندانہ جائزہ لیا جائے تو یہ بات روز روشن کی طرح عیاں ہوچکی ہے کہ امریکہ
افغانستان میں دہشت گردوں (بقول امریکہ)کے خلاف اپنی سولہ سالہ سرگرمیوں کے
باوجود ناکام ہوچکا ہے لیکن طاقت کے زعم اور سرداری کی دم چھلے کی بنا پر
اپنی ناکامیوں کا اعتراف کرنے کی بجائے سارا ملبہ پاکستان اور دیگر مسلم
ممالک پر ڈال رہا ہے جبکہ دوسری طرف ساری دنیا دہشت گردی کے خلاف پاکستان
کی کوششوں اور کاوشوں قربانیوں کو سراہ رہی ہے
اگست 2017آخری عشرے میں امریکی صدر ٹرمپ نے اس پالیسی کا جو اعلان کیا اور
مطالبہ کیا کہ دہشت گردوں کی پناہ گاہوں کا خاتمہ کیاجائے تو یہ بھی دہشت
گردی کے خلاف پاکستان کی بے مثال اور نتیجہ خیز کوششوں اور بے پناہ
قربانیوں کو خاطر میں نہ لانا ہے اس توہین آمیز دھمکیوں اور دہشت گردوں کی
نام نہاد محفوظ پناہ گاہوں کے خاتمے کے مطالبے پر پاکستان کی سیاسی اور
عسکری قیادت کی جانب سے پوری قوم کی مکمل حمایت کے ساتھ امریکہ کی اس
پالیسی کو مسترد کرتے ہوئے واضح کردیا گیا کہ پاکستان افغانستان میں امریکی
ناکامی کے حوالے سے کسی بھی صورت قربانی کا بکرا نہیں بنے گا۔تاہم نئی
افغان پالیسی کے بعد پچھلے چار ماہ سے پاکستان کو مسلسل ڈرا دھمکا کر کہا
جارہا ہے کہ افغانستان میں مزاحمت کے خاتمے کا جو ہدف امریکی ، افغان اور
نیٹو افواج ڈیڑھ عشرے سے زائد کی مدت میں حاصل نہیں کرسکیں اسے پاکستان
حاصل کرے ورنہ سنگین نتائج بھگتنے کے لیے تیار رہے۔ امریکی وزیر خارجہ ،
وزیر دفاع اور مختلف فوجی حکام کے بعد گزشتہ روز امریکی نائب صدر مائک پینس
نے بھی انتہائی بے شرمی ڈھٹائی اور بے غیرتی کا مظاہرہ کرتے ہوئے کابل کے
غیرعلانیہ دورے میں بگرام ایئربیس پر امریکی فوجیوں سے خطاب کرتے ہوئے
دھمکی دی کہ اگر پاکستان نے دہشت گردوں اور جرائم پیشہ عناصر کی پشت پناہی
جاری رکھی تووہ بہت کچھ کھودے گا۔
اب اگر دیکھا جائے تواپنے آپ کو سپر پاور کہلوانے والے امریکہ کی بے بسی پر
ہنسی آتی ہے جو پاکستان پر دہشت گردوں کی پشت پناہی کے کس قدر بودے اور
لایعنی الزمات تھوپ رہا ہے جبکہ اس کے یقینی شواہد پاکستان کی سرحدوں کے
اندر دہشت گردی کے خلاف ایسی موثر کارروائیوں کی شکل میں پوری دنیا کے
سامنے ہیں جن کی کوئی دوسری مثال پیش نہیں کی جاسکتی اور جس کا عالمی
برادری کی جانب سے بہت بڑے پیمانے پر اعتراف کیا گیا ہے باوجود اس کے کہ
افغانستان سے مسلسل پاکستان میں دہشت گردی کی بڑی اور چھوٹی وارداتیں جاری
ہیں اور گزشتہ دنوں ہونے والی کم و بیش نو کارروائیوں میں سے 8 سرگرمیوں کے
تانے بانے اور ان کا کھراافغانستان سے ملتا ہے۔یہی وجہ ہے کہ پاکستان کی
جانب سے اس ہٹ دھرمی پر پہلی مرتبہ انتہائی سخت رد عمل سامنے آیا اور ان کی
افواج پاکستان کے شعبہ تعلقات عامہ کے سربراہ میجر جنرل آصف غفوراور دفتر
خارجہ کے ذمہ داران نے امریکی نائب صدر کی دھمکیوں پر سخت ردعمل ظاہر کرتے
ہوئے ان کی غلط بیانیوں کی حقائق کی روشنی میں پرزور تردید کی ہے۔
لیکن !افسوس صد افسوس بلکہ تف ہے امریکی انتظامیہ پرجو پوری عالمی برادری
کو نظر انداز کرکے من مانے فیصلے اور اقدامات کررہی ہے اور یروشلم کو
اسرائیل کا دارالحکومت بنانے پر تلی ہوئی ہے کا تازہ ترین مظاہر ہ اقوام
متحدہ کی پوری سلامتی کونسل اور جنرل اسمبلی کی بھاری اکثریت کی مخالفت کے
باوجو د کیا ہے جو امریکی صدر کا دماغی خلل ہے اور اس خلل اوراس کی
متعصبانہ سوچ و نظریہ کی بنیاد پر پاکستان میں کسی امریکی فوجی کارروائی کے
خدشے کو بے بنیاد نہیں سمجھا جانا چاہیے۔بڑی خوش آئند بات یہ بھی رہی کہ
عسکری و سیاسی قیادت ایک پیج پر دکھائی دیئے عسکری قیادت کے ساتھ ساتھ
سیاسی قیادت نے بھی جرات مندانہ بیانات دیئے اس سلسلے کی کڑی کے طور پر
گذشتہ دنوں سینیٹ کے اجلاس میں بھی واضح طور پر ان دھمکیوں کو سنجیدگی سے
لیے جانے پر زور دیا گیا ہے۔ مزید یہ کہ سی پیک کے حوالے سے امریکہ کے پیٹ
میں جو مروڑ اٹھ رہا تھا وہ بھی طشتری از بام ہوگیا ہے کہ سی پیک کے ٹھیکوں
میں ان کو یاد نہیں رکھا گیا باالفاظ دیگر کے ٹھیکیدار امریکہ کو اس کا حصہ
نہیں دیا گیا کیونکہ ٹھیکیدار یہ بات کبھی ہضم نہیں کرپاتا کہ کوئی بھی
ترقیاتی کام اس کے حصے کے بغیر کیسے پاس ہوگیا کیونکر شروع ہوگیاتواب ضرورت
اس بات کی ہے کہ امریکی حکام پر واضح کیا جائے کہ پاکستان کے ساتھ دھمکی
آمیز طرزعمل خود ان کے ملک کے مفاد میں نہیں کیونکہ اس کا نتیجہ جنگ کی
تباہ کاریوں کے لامتناہی مدت تک جاری رہنے کی شکل ہی میں نکلے گا جس کا
براہ راست نقصان امریکہ کو بھی ہوگا اس لیے پاکستان اور خطے کے دوسرے ملکوں
کے تعاون سے بات چیت کے ذریعے امن عمل کو کامیاب بنانے کی حکمت عملی ہی
دانشمندی ہے جبکہ پاکستان کی عسکری و سیاسی قیادت کیلئے بھی دانشمندی ،
علقمندی اورہوشمندی کا تقاضا ہے کہ کسی بھی ممکنہ امریکی کارروائی کو روکنے
کے لیے دوست ممالک اور عالمی برادری کی حمایت سمیت تمام ممکنہ تدابیر جلد
از جلد اختیار کی جائیں۔تاکہ مستقبل میں کسی بھی بڑی پریشانی اورنقصان سے
بچا جاسکے
|