یہ شنید ہے کہ امریکہ ایک سائبر فورس تیار کرچکا ہے جس
کا مقصد ففتھ جنریشن وار لڑناہے ۔ اس کی ضرورت اس لیے پیش آئی کہ پاکستان
مسلسل امریکی حکم کی تعمیل سے انکار کررہا ہے ۔ چند روز پہلے امریکی نائب
صدر( جو پاکستا ن کا بالخصوص اور مسلم دنیا کا بالعموم ازلی دشمن ہے )نے
افغانستان سے ایک بیان جاری کیا کہ پاکستان نے اگر ہماری بات نہ مانی تو
اسے بہت کچھ کھونا پڑسکتا ہے ٗ اگر بات مان لی تو بہت کچھ حاصل ہوسکتا ہے ۔
امریکہ حیران ہے کہ پاکستان اس وقت نہ تو ڈنڈے سے ڈر رہاہے اور نہ ہی گاجر
کے چکرمیں آرہا ہے ۔اس حالت میں صرف ایک ہی آپشن بچتا ہے اور وہ سزاکاآپشن
ہے ۔ اس آپشن پر عمل درآمدکرکے پاکستان میں بریلوی ٗ دیو بندی ٗ اہلحدیث ٗ
شیعہ اور سندھی ٗ بلوچی ٗ پٹھان ٗ پنجابی کے درمیان اختلافات کو ہوا دے کر
قتل و غارت تک پہنچانا ہے۔ جس طرح شام اور عراق میں حالات بے قابو ہوچکے
ہیں اور یہ آگ دس سے پندرہ لاکھ مسلمانوں کو ہلاک کرنے کے بعد بھی بجھ نہیں
پا رہی۔
بیرونی سازشوں کا مقابلہ اس صور ت میں کیاجاسکتا ہے کہ ہم سب پاکستان یک
جان اور یک قالب ہوجائیں اور دشمن کو اپنے اتحاد و یگانگہت سے منہ توڑ جواب
دیں لیکن ہمارے سیاسی قائدین جو صرف اپنے پیٹ اور مفادات کو دیکھتے ہیں
انہیں حالات کی نزاکت اور قومی مفادات کے تحفظ کی کوئی فکر نہیں ۔ ڈاکٹر
طاہر القادری جن سے کبھی فلاح کی توقع نہیں رکھی جاسکتی ۔اس کے باوجود کہ
اس وقت بھی ان کے خلاف پانچ مختلف نوعیت کے مقدمات درج ہیں جن میں سے تین
مقدمے انسداد دہشت گردی کی دفعات کے تحت درج ہیں ۔ انہیں عدالت میں پیش نہ
ہونے کی بنا پر اشتہاری ملزم قرار دیاجاچکا ہے بلکہ جائیداد کی قرقی کے
عدالتی احکامات جاری ہوچکے ہیں ٗ وہ سانحہ ماڈل ٹاؤن کی آڑ میں تمام فتنہ
پرست سیاسی جماعتوں کو اکٹھا کرکے پیالی میں طوفان برپا کرنے کی جستجو
کررہے ہیں ۔ 31 دسمبر کو لاہور میں ہونے والے سیاسی اجتماع میں فیصلہ ہوچکا
ہوگا کہ دھرنا لاہور میں د ینا ہے یا اسلام آباد میں ۔ ویسے وہ اس بات کا
عندیہ دے چکے ہیں کہ نواز شریف پانامہ کیس کی وجہ سے نااہل ہوچکے ہیں ۔ اب
شہباز شریف کو ہٹانے کی باری ہے تاکہ شریف برادران (جو انکی نظر میں دشمن
نمبر ون ہیں) کو سیاسی میدان سے نکال باہر کیا جائے ۔یہ وہ طاہر القادری
ہیں جو نواز شریف کی خاندانی مسجد کے کبھی امام تھے ۔جہاں انہیں پانچ ہزار
روپے تنخواہ ملاکرتی تھی ان کی بہن کا جہیز نواز شریف کے والد میاں
محمدشریف نے دیا اور ساتھ ڈیفنس میں دو کنال کا پلاٹ بھی اس کے نام
کیا۔نواز شریف کی چاپلوسیاں اورامیر المومنین ثابت کرنا ان کا مشغلہ ہوا
کرتاتھا۔نواز شریف نے اپنے کندھوں پر بیٹھاکر انہیں طواف کعبہ بھی کروایا ۔آج
وہی طاہر القادری احسان فروشی کا عظیم مظاہرہ کرتے ہوئے شریف برادران کے
جانی دشمن بن چکے ہیں حالانکہ طاہر القادری کو لاہور ہائی کورٹ کی جانب سے
بھی دماغی مریض قرار دیاجاچکا ہے ۔وہ طاہر القادری تمام فتنہ پرست سیاسی
قائدین کو اپنے گرد اکھٹا کرکے پاکستان کی بنیادوں کو کھوکھلا کرنے کی
جستجو کررہے ہیں ۔ وہ شریف برادران کی دشمنی میں اس قدر اندھے ہوچکے ہیں کہ
انہیں امریکی دھمکیوں اور ففتھ وار کی یلغار کابھی احساس نہیں ہے ۔ شیخ
رشید جیسے مسخرے ان کے مشیربن کے الٹے سیدھے مشورے دے رہے ہیں اور وہ عمران
خان جنہوں نے گزشتہ چار سالوں میں سوائے دھرنوں اور جلسے جلسوں میں کے کچھ
نہیں کیا وہ بھی ایک بار پھر طاہر القادری کے دھرنے میں شامل ہونے کی تیاری
کررہے ہیں ۔ سوچنے کی بات یہ ہے کہ اگر دھرنوں سے ہی حکومتوں کی تبدیلی
ممکن بنائی جاسکتی ہے تو پھر الیکشن کروانے کی کیا ضرورت رہ جاتی ہے ۔ قومی
الیکشن میں صرف چند ماہ باقی ہیں ۔الیکشن کی تیاری کرنے کی بجائے نیا سیاسی
طوفان کھڑا کرنا اور بین الاقوامی دنیا کو یہ پیغام دینا کہ ہم میں انتشار
پیدا کرنے کے لیے امریکہ کو ففتھ وار شروع کرنے کی ضرورت نہیں ہیں ہم
امریکی مقاصد کو پورا کرنے کے لیے یہاں موجودہیں ۔ بدقسمتی کی بات ہے کہ یہ
لوگ جب چاہتے ہیں پیالی میں طوفان کھڑا کرکے دنیاکو منفی پیغام دیتے ہیں کہ
پاکستان میں کبھی سیاسی استحکام پیدا نہیں ہوسکتا ۔ یہ کوہلو کے بیل کی طرح
ایک ہی جگہ پر آنکھوں پر پٹی باندھ کر گھومنا چاہتے ہیں اور عوام کو ترقی و
خوشحالی اور باعزت روزگار فراہم ہونے میں سب سے بڑی رکاوٹ ہیں ۔ جب تک
عمران ٗ طاہر القادری اور شیخ رشید جیسے فتنہ پرور سیاست دان موجود ہیں ۔
امریکہ کی ففتھ وار کا مقابلہ ہم نہیں کرسکتے ہیں ۔قومی غیرت کا جنازہ
نکالنے کے لیے یہی لوگ کافی ہیں ۔اگر موجودہ حکومت دھرنوں سے مرعوب ہوجاتی
ہے تو کیا وہ امریکہ کے سامنے سینہ تان کے کھڑی ہوسکتی ہے جبکہ اندورن ملک
امریکی پٹھو ان کا ناطقہ بند کیے دھرنہ دے کر بیٹھے ہوں ۔سچ تو یہ ہے کہ ان
حالات میں کوئی بھی سیاسی تحریک یا دھرنے قومی مفاد میں نہیں ہیں ۔ نواز
شریف کو بھی تحریک عدل شروع کرنے سے اجتناب کرنا چاہیئے اور عدالتوں پر
تنقید کرنے کی بجائے مخالفین کا سیاسی میدان میں مقابلہ کرنا چاہیئے ۔پاکستانی
قوم کو بھی مجموعی حالات کا جائزہ لے کر ایسے ملک دشمن عناصر اور سیاسی
قائدین کے مکروہ عزائم کا ایندھن نہیں بننا چاہیئے جو وطن عزیز کی رسوائی
اور تباہی کا باعث بنے۔ایک سوال ضرور ذہن میں ابھرتا ہے کہ اگر طاہر
القادری کے خلاف دہشت گردی کی عدالت میں مقدمات زیر سماعت ہیں تو پھر یہ
صاحب آزاد کیوں ہیں ۔کیا حکومت میں اتنی طاقت نہیں کہ وہ عدالتی احکامات پر
عمل درآمد کرتے ہوئے انہیں گرفتار کرے ۔ عمران خان کے خلاف بھی حکومتی
بزدلی کی وجہ سے نواز شریف کو یہ دن دیکھنے پڑ رہے ہیں ۔حکمرانوں کو بھی
اپنی آنکھیں کھولی رکھنی چاہیئں ۔دوست اور دشمن کی پہچان کرکے وقت پر فیصلے
کرنے چاہیئں وگرنہ سازشیں ہمیشہ سر اٹھاتی رہیں گی اور طاہر القادری جیسے
اشتہاری ملزم وطن عزیز کے خلاف سازشوں کے جال بنتے رہیں گے ۔ |