2013میں پاکستان میں عام انتخابات ہوئے۔یہ مسلم دنیا کی
دوسری بڑی جمہوریت میں ہونے والے۴۱ ویں انتخابات تھے۔ا ن انتخابات میں
پاکستان پیپلز پارٹی اور عوامی نیشنل پارٹی عوامی رابطہ مہم میں دہشت گردی
کے خطرات کے باعث بھرپور طریقے سے حصہ نہ لے سکیں جس کا نتیجہ یہ نکلا کہ
پیپلز پارٹی سندھ تک محدود ہو کر رہ گئی جبکہ عوامی نیشنل پارٹی کا پورے
ملک سے نشان ہی مٹ گیا۔ان نتائج کی وجہ کہیں تو عوامی رابطہ مہم میں حصہ نہ
لینا تھی اور کہیں گزشتہ دور میں ان جماعتوں کی ناقص کارکردگی۔2013کے عام
انتخابات میں مسلم لیگ نواز پہلے،پیپلز پارٹی دوسرے جبکہ پاکستان تحریک
انصاف تیسرے نمبر پر رہی۔نتائج کے مطابق مسلم لیگ نواز کے حصے میں 125اور
پیپلز پارٹی کے حصے میں 31قومی اسمبلی کی نشستیں آئیں جبکہ تحریک انصاف کے
نمائندے 27قومی اسمبلی کی سیٹوں پر کامیاب ہوئے۔
مسلم لیگ ن اکثریت سیٹوں پر کامیاب ہوئی اور وفاق میں حکومت بنائی۔مسلم لیگ
ن کی جانب سے میاں محمد نواز شریف وزیراعظم بنے۔اسی طرح ن لیگ پنجاب میں
بھی حکومت بنانے میں کامیاب رہی۔سندھ میں صوبائی حکومت پیپلز پارٹی کے حصے
میں آئی ،خیبرپختونخواہ کا تاج عمران خان کے سر رہا جبکہ بلوچستان میں بھی
ن لیگ کی ہی حکومت بنی۔انتخابات کے نتائج آتے ہی ملک بھر میں دھاندلی کی
صدائیں سنائی دینے لگیں۔ن لیگ نے حکومت میں آکر بڑے بڑے دعوے کئے کبھی بجلی
کی لوڈشیڈنگ ختم کرنے کا دعویٰ کیا گیا تو کبھی مہنگائی کا جن بوتل میں بند
کرنے کا اعلان بھی ہوا۔ملک میں سرمایہ کاری لانے کا راگ بھی گایا گیا۔ لیکن
ن لیگ پاک چائنا راہ داری منصوبہ ملک میں لانے کے علاوہ کوئی خاطر خواہ کام
نہ کر سکی،اس منصوبے کا کریڈٹ بھی دیگر جماعتیں لیتی ہیں۔زرداری صاحب کا
بھی دعویٰ ہے کہ یہ منصوبہ پیپلز پارٹی کے دور میں شروع ہوا۔ملک میں امن
بھی اس دور میں قائم ہوا لیکن عوام اس کا کریڈت فوج کو دیتے ہیں۔جو درست
بھی ہے ،بہرحال میاں شہباز شریف نے پنجاب بلخصوص لاہور میں کافی ترقی یاتی
کام کرائے۔
پیپلز پارٹی کے پہلے وزیراعلیٰ قائم علی شاہ سے عوام کو کافی شکایات تھیں ،یہ
بات درست ہے کہ قائم علی شاہ کی شخصیت کرپشن سے پاک ہے مگر عمر کا تقاضہ
یہی تھا کہ وہ عہدہ چھوڑ دیں۔زرداری صاحب نے سیاسی مہارت کا مظاہرہ کرتے
ہوئے قائم علی شاہ کو پارٹی میں تو بھرپور طور پر زندہ رکھا مگر وزیراعلیٰ
کا عہدہ سید مراد علی شاہ کو سونپ دیا ۔مراد علی شاہ نے عہدہ سمبھالتے ہی
عوام کی شکایت کا ازالہ کرنا شروع کردیا اور سندھ میں رکارڈ ترقی یاتی کام
کرائے۔لیکن یہ کام نا کافی ہیں سندھ میں ابھی بھی ترقی یاتی کاموں کی بہت
ضرورت ہے۔ادھر عمران خان کی نگرانی میں پرویز خٹک نے بھی کے پی کو بدلنے کا
بیڑا اٹھایا اور پولیس کو غیر سیاسی کردیا،ساتھ ہی نصاب میں تبدیلی کی گئی
اور صوبے بھر میں شجر کاری مہم بھی چلائی گئی۔تحریک انصاف کی حکومت میں کے
پی کے میں کرپشن میں واضح کمی آئی ہے۔اس کامیابی میں پی ٹی آئی کی اتحادی
جماعت اسلامی کا بھی اہم کردار ہے۔
2013کے عام انتخابات سے لے کراب تک ملکی سیاست میں بڑی تبدیلیاں رونما ہوئی
ہیں۔2013کے بعد پانچ سالہ سیاسی دور میں مختلف چھوٹی جماعتیں بڑی جماعتوں
میں زم بھی ہوئی ہیں۔3مارچ 2016کو متحدہ قومی موومنٹ کے ناراض رہنما مصطفیٰ
کمال جو کراچی کی سیاست میں اچھی پوزیشن رکھتے ہیں دبئی سے پاکستان واپس
آئے اور آکر اپنی سیاسی جماعت پاک سر زمین پارٹی بنانے کا اعلان کیا۔اگست
2016میں بانی ایم کیو ایم کی پاکستان مخالف تقریر کے بعد فاروق ستار نے
بانی ایم کیو ایم سے لاتعلقی کا اعلان کرتے ہیں ہوا کہہ دیا کہ ان کا اور
ان کی جماعت کا لندن اور لندن میں موجود قیادت سے کوئی تعلق نہیں ۔اس طرح
ایم کیو ایم ،پاکستان اور لندن گروپ میں تقسیم ہوگئی ۔
2016میں ہی پانامہ اسکینڈل منظر عام پر آیا،اس اسکینڈل نے دنیا بھر کے ساتھ
پاکستان کی سیاست میں بھی بھونچال مچا دیا۔اس اسکینڈل میں میاں نواز شریف
اور عمران خان سمیت پاکستان کے کئی سیاست دانوں کے نام تھے۔امیر جماعت
اسلامی سراج الحق اس کیس کو عدالت میں لے کر گئے جس کے نتیجے میں سربراہ
مسلم لیگ میاں نواز شریف کو عدالت نے نااہل قرار دیا ۔یہ ن لیگ کے لئے ایک
بڑا دھجکاتھا۔2017میں ختم نبوت کے قانون میں کچھ ترمیم کی گئی ۔جو بعد ازاں
عوام اور سیاسی جماعتوں کے بھرپور احتجاج پر واپس تو لے کی گئی لیکن ن لیگ
کو اس کا خمیازہ بھگتنا پڑا۔ن لیگ کے کئی لوگ جماعت چھوڑ گئے ان میں اہم
پیر حمیدسیالوی ہیں جن کا ووٹ بنک کافی مظبوط ہے۔ن لیگ کے دور حکومت میں
ممتاز قادری کو پھانسی بھی ہوئی جس کے نتیجے میں تحریک لبیک وجود میں آئی
جو ختم نبوت ﷺ کے معاملے میں دھرنا دے کر کافی مقبول ہوگئی ہے۔ یہ جماعت
کسی حد تک پنجاب میں ن لیگ کے لئے خطرہ ہے۔حال ہی میں ملی مسلم لیگ نامی
جماعت بھی سامنے آئی جس کی پس پردہ سربراہی حافظ سعید کر رہے ہیں ۔اور حافظ
سعید کے چاہنے والے پنجاب میں کثیر تعداد میں موجود ہیں۔2016میں ہونے والے
ضمنی انتخابات میں مولانا مسرور جھنگوی پنجاب اسمبلی کے ممبر بن گئے جو
کالعدم کہلائے جانے والی جماعتوں کی بڑی کامیابی ہے۔لہذا پانچ سالہ دور
حکومت کے اختتام پر پنجاب میں ن لیگ کیپوزیشن کافی کمزور ہوگئی ہے۔
انہی پانچ سالوں میں ایک بڑی پیشرفت یہ بھی ہوئی کہ بیگم نسیم ولی اور
اسفندیار ولی ایک ہوگئے جس سے عوامی نیشنل پارٹی کی پوزیشن کچھ مستحکم
ہوگی۔تحریک انصاف کو کے پی میں ٹف ٹائم دینے کیلئے دینی جماعتیں بھی ایک
پیج پر آگئی ہیں اور متحدہ مجلس عمل بحال کردی گئی ہے۔جبکہ مولانا سمیع
الحق نے مجلس عمل میں شمولیت کے بجائے تحریک انصاف کے ساتھ سیاسی اتحاد
قائم کرلیا۔
2018کو اانتخابات کا سال کہا جارہا ہے۔ہر جماعت اس بات کی دعویدار ہے کہ
اگلا وزیراعظم ان کا ہوگا۔اس وقت ملک میں چار جماعتیں مستحکم ہیں۔پاکستان
پیپلز پارٹی،مسلم لیگ نواز ،پاکستان تحریک انصاف اور اگر دینی جماعتوں کا
اتحاد قائم رہتا ہے تو متحدہ مجلس عمل۔اگر 2018کے انتخابات کے حوالے سے
پاکستان کا سیاسی جائزہ لیا جائے تو اس بار بھی پنجاب میں ن لیگ کے پاس ہی
قومی اسمبلی کی اکثر نشستیں ہونگی۔مگر یہ برتری 2013سے مختلف ہوگی۔تحریک
انصاف اور پیپلز پارٹی بھی ن لیگ کے سیاسی میدان میں اپنے جھنڈے گاڑھیں
گی،جبکہ مسرور جھنگوی کی جیت کے بعد دینی جماعتیں بھی پنجاب کی سیاست میں
حصہ دار نظر آرہی ہیں۔دوسری جانب اگر ملی مسلم لیگ ،سیالوی گروپ اور تحریک
لبیک میں کوئی ڈیل ہوگئی تو یہ جماعتیں بھی ن لیگ کو نقصان پہنچائیں
گیں۔جبکہ پیپلز پارٹی بھی اس بار پنجاب میں ابھرتی نظر آرہی ہے۔امید یہ بھی
ہے کہ چوہدری برادران بھی قومی اسمبلی میں نظر آئیں گے۔ساتھ شیخ رشید کی
فتح میں کسی کو شک نہیں۔
اگر خیبر پختونخواہ کا جائزہ لیا جائے تو وہاں بھی اکثریت تو تحریک انصاف
کی ہوگی لیکن متحدہ مجلس عمل تحریک انصاف کو خاصہ نقصان دے سکتی ہے،جبکہ
بیگم نسیم ولی اور اسفندیار ولی کے اتحاد سے اے این پی بھی ایک دو نشستیں
جیت ہی لے گی۔بلوچستان کی صورت حال بھی کچھ ایسی ہی ہوگی وہاں بھی متحدہ
مجلس عمل،مسلم لیگ نواز اور قوم پرست جماعتوں کے درمیان سخت مقابلہ ہوگا
جبکہ صوبے کی سیاسی ریوایات کے مطابق آزاد امیدوار بھی میدان میں ہوں گے۔
اب بات کرلی جائے سندھ کی جہاں پیپلز پارٹی کے مقابلے میں کوئی جماعت نظر
نہیں آتی۔کسی حد تک شہری علاقوں میں متحدہ قومی موومنٹ پیپلز پارٹی کا
مقابلہ کرتی تھی لیکن اب متحدہ قومی موومنٹ کا ووٹ کئی دھڑوں میں تقسیم ہے
جس کا فائدہ بھی پیپلز پارٹی کو ہی ہوگا۔اس کا واضح ثبوت ضمنی انتخابات میں
سعید غنی اور مرتضیٰ بلوچ کی جیت ہے۔سندھ میں پیپلز پارٹی کے خلاف گرینڈ
الائنس بنا لیکن اس اتحاد میں فنکشنل لیگ کہ علاوہ کوئی ایسی جماعت موجود
نہیں جس کا ووٹ بنک ہو۔پیپلز پارٹی سندھ میں اپنا راج قائم رکھے گی،ساتھ ہی
پنجاب میں بھی پیپلز پارٹی کے پاس قمر زمان کائرہ اور شوکت بسرا جیسے لوگ
موجود ہیں جن کی سیاسی حیثیت اس وقت بہتر ہے۔زرداری صاحب جوڑ توڑ کے بھی
ماہر ہیں اگر سندھ میں بیشتر اور پنجاب میں کچھ نشستوں پر فتح یابی کے بعد
وہ متحدہ مجلس عمل یاچھوٹی جماعتوں سے اتحاد بنانے میں کامیاب ہوگئے تو
اگلی بار وفاقی حکومت پھر پیپلز پارٹی کے حصے میں ہی آئے گی۔ |