2017: اہم عدالتی فیصلوں اور سیاسی ہلچل کا سال رہا

2017 تمام ہوا۔ یہ سال دنیا بھر میں کہیں دھماکے کی گونج سے سہما ہوا دکھائی دیتا ہے تو کہیں زخمیوں کی چیخ و پکار سے کراہتا رہا۔ ایک طرف شام، افغانستان اور عراق میں خون کی ہولی کھیلتا نظر آتا ہے تو دوسری طرف برما میں روہنگیا مسلمانوں پر تاریخ انسانی بدترین مظالم کی بدترین تاریخ رقم کرتا نظر آتا ہے۔ کہیں امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ اقتدار پر براجمان ہوتے ہی مسلمانوں کو دھمکیاں دیتا نظر آتا ہے تو کہیں امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے نئی پالیسی جاری کرتے ہوئے کہتا ہے کہ پاکستان دہشت گردوں کو پناہ دیتا ہے۔ کہیں امریکی صدر کے بیت المقدس کو اسرائیل کا دارلحکومت قرار دینے کے فیصلے کے بعد یہودی و نصاریٰ مل کر بیت المقدس پر قبضے کے معاملے میں سرگرم نظر آتے ہیں تو کہیں مسلم ممالک کی نمائندہ تنظیم او آئی سی حسب سابق ستو پی کر سوئی نظر آتی ہے۔ 2017 میں دنیا میں مختلف واقعات و سانحات کو جنم دیا، جن میں میانمار میں روہنگیا مسلمانوں پر مظالم کا سلسلہ شروع ہونے شاید سب سے ہولناک ہے۔ میانمار میں بسنے والی دنیا کی مظلوم ترین قوم روہنگیا مسلمانوں پر اس سال 26اگست کو ظلم و ستم کا ایک نیا سلسلہ شروع کیا گیا، جس کے تحت ہزاروں روہنگیا مسلمانوں کو قتل کیا گیا، گھروں کو جلادیا گیا، نوجوانوں کو زندہ دفن کردیا گیا اور برمی فوج اور حکومت کی درندگی سے بچنے کے لیے تقریباً 7لاکھ روہنگیا مسلمان بنگلا دیش میں پناہ لینے پر مجبور ہوئے۔ یہاں بھی پہلے ان کو پناہ نہ دی گئی ،مگر بعد میں ترکی کی طرف سے ان کی کفالت کی ذمہ اری لینے اور عالمی دباؤ کے بعد انہیں پناہ دی گئی۔روہنگیا کو دنیا کی مظلوم ترین قوم تسلیم کرنے کے باوجود بھی عالمی برادری میانمار حکومت اور فوج کے مظالم رکوا نہ سکی اور اب بھی برما میں روہنگیا مسلمانوں پر ظلم و ستم کے پہاڑ توڑے جارہے ہیں۔

2017ء جہاں دنیا بھر میں بہت سے اہم واقعات کو لے کر اپنے اختتام کو پہنچ رہا ہے، وہیں پاکستان میں بھی بہت سے اہم واقعات رونما ہوئے۔ 2017میں بھی عوام سیاست دانوں کے مفادات کی چکی میں پستے رہے۔ اپوزیشن اور حکومت عوام کے جذبات کے ساتھ کھیلتے رہے۔ دونوں ایک دوسرے کی ٹانگیں کھینچتے اور الزامات کی بوچھاڑ کرتے رہے۔ لوڈشیڈنگ اور بدامنی میں قدرے کمی واقع ہوئی۔ غربت، مہنگائی، بیروزگاری اور کرپشن سے نجات نہ مل سکی اور ضروریات زندگی بھی مسیر نہ آسکیں۔ 2017میں سیاسی ہلچل عروج پر رہی۔ سارا سال حکومت اور اپوزیشن ایک دوسرے کے خلاف صف آرا نظر آتی رہیں۔ تحریک انصاف اور مسلم لیگ ن میدان میں سر فہرست رہیں۔ یہ سال حکمران جماعت مسلم لیگ ن کے لیے کافی مشکل سے گزرا، عدالتی فیصلوں نے مسلم لیگ کی مشکلات میں مزید اضافہ کردیا۔ 2017کو اگر سیاسی ہلچل اور عدالتی فیصلوں کا سال قرار دیا جائے تو بے جا نہ ہوگا، کیونکہ اس سال ایک طرف حکومت اور اپوزیشن کی دھینگا مشتی جاری رہی تو دوسری جانب اس سال میں کئی اہم عدالتی فیصلے سنائے گئے۔ سال 2017 میں پاکستانی میڈیا کی شہ سرخیوں میں عدالت میں زیر سماعت مقدمات اور ان کے فیصلے ہی چھائے رہے ۔ 2017 کا سال جہاں دیگر اہم اور متعدد مقدمات کے حوالے سے اہم ہے، وہیں اس میں پاناما پیپرز لیکس کیس کا فیصلہ بھی سنایا گیا جس کی سماعت کا آغاز نومبر 2016 میں ہوا تھا۔ سپریم کورٹ کے 5 رکنی بینچ میں شامل ججز کے 30 اپریل کو دیے گئے عبوری فیصلے کی روشنی میں پاناما پیپرز کیس میں مشترکہ تحقیقاتی ٹیم (جے آئی ٹی) تشکیل دینے کی ہدایت کی گئی۔ بعد ازاں 28 جولائی کو بینچ نے مذکورہ کیس میں اپنا دوسرا اور حتمی فیصلہ سنایا، جس میں اس وقت کے وزیراعظم نواز شریف کو نا اہل قرار دیا گیا اور وہ اپنے عہدے سے سبکدوش ہوگئے۔نواز شریف کی نااہلی کے نتیجے میں مسلم لیگ کی حکومت ختم ہوگئی۔ وزرات عظمیٰ کا قرعہ فال نواز شریف کے دیرینہ وفادار ساتھی شاہد خاقان عباسی کے نام نکلا اور نئی کابینہ تشکیل دے گئی جس میں چوہدری نثار کی چھٹی ہوگئی، جو تاحال اپنی قیادت سے ناراض اور تنہا نظر آتے ہیں۔ یکم اگست کو شاہد خاقان عباسی نے وزیر اعظم کے عہدے کا حلف اٹھایا۔ نااہلی کے بعد میاں نواز شریف مختلف ریلیوں اور جلسوں سے خطاب کرتے ہوئے ایک ہی جملہ بار بار دہراتے رہے کہ مجھے کیوں نکالا۔ یہ جملہ زبان زد عام ہوگیا اور شاید پاکستان کی سیاسی تاریخ میں ہمیشہ ہمیشہ کے لیے ایک محاورہ بن چکا ہے۔ ’’کیوں نکالا‘‘ کا سوشل میڈیا پر بھی خوب چرچا ہوا اور صارفین نت نئے لطیفوں سے بہت محظوظ ہوئے۔نواز شریف کی نااہلی کے نتیجے میں لاہور میں ان کی نشست این اے 120 خالی ہوگئی جس پر 17 ستمبر کو ضمنی الیکشن ہوا۔ سیاسی جوڑ توڑ اور ایڑی چوٹی کا زور لگانے کے بعد نواز شریف کی اہلیہ بیگم کلثوم نواز یہ الیکشن جیتنے میں کامیاب ہوگئیں۔ تحریک انصاف کی ڈاکٹر یاسمین راشد دوسرے نمبر پر رہیں۔

پاناما لیکس کے فیصلے کے نتیجے میں نواز شریف وزارت عظمیٰ کے ساتھ ساتھ مسلم لیگ کی صدارت سے فارغ ہوگئے، کیونکہ انتخابی قوانین کے تحت نااہل شخص پارٹی کا صدر بھی نہیں ہوسکتا۔ اس پابندی کو ختم کرنے کے لیے مسلم لیگ نے 2 اکتوبر کو قومی اسمبلی میں الیکشن اصلاحات بل 2017 منظور کیا، جس میں نااہل شخص کے پارٹی صدر بننے پر عائد پابندی ختم کردی گئی۔ تاہم اس بل کی منظوری کی آڑ میں (ن) لیگ نے انتخابی امیدوار کے کاغذات نامزدگی کے حلف نامے سے چھیڑ چھاڑ کی اور ختم نبوت سے متعلق الفاظ کو تبدیل کرکے قادیانیوں کو فائدہ پہنچانے کی کوشش کی۔ یہ بل قومی اسمبلی اور سینیٹ دونوں ایوانوں سے منظور ہوگیا، لیکن بات کب تک چھپی رہ سکتی تھی اور آخرکار کھل ہی گئی جس پر ملک بھر میں خوب ہنگامہ اور شورشرابا ہوا۔ حکومت نے شدید احتجاج کے باعث ترمیم کے ذمہ داروں کا تعین کرنے کے لیے ایک تحقیقاتی کمیٹی بھی بنائی، لیکن تاحال ذمہ داروں کے نام سامنے نہیں آسکے۔ 2017 کا اہم ترین واقعہ اسلام آباد کے علاقے فیض آباد میں مذہبی جماعت کا دھرنا رہا۔ گورنر پنجاب سلمان تاثیر کو قتل کرنے والے پولیس اہلکار ممتاز قادری کی پھانسی کے خلاف ایک تحریک چلی جو این اے 120 کے الیکشن میں ایک سیاسی جماعت تحریک لبیک کے روپ میں سامنے آئی۔ ختم نبوت ترمیم کرنے پر تحریک لبیک نے اسلام آباد میں 20 روز تک دھرنا دیا اور وزیر قانون زاہد حامد کے مستعفی ہونے کا مطالبہ کیا۔ احتجاج کی وجہ سے دارالحکومت کے شہریوں کو پریشانی کا سامنا کرنا پڑا۔ حکومت دھرنا مظاہرین کے خلاف کارروائی سے بچنے کی کوشش کرتی رہی۔ یہ دھرنا حکومت کے گلے میں اٹکی ایسی ہڈی بن گیا جو اْگلی جائے نہ نگلی جائے۔ 3 بار آپریشن کی ڈیڈلائن دے کر مؤخر کی گئی، لیکن بالآخر 21 ویں روز 25 نومبر کو حکومت کے حکم دھرنا ختم کرنے کے لیے آپریشن شروع کردیا گیا۔ شدید خونریزی کے باوجود یہ آپریشن ناکام ہوگیا، جبکہ بڑی تعداد میں مظاہرین جاں بحق اور زخمی ہوئے۔ آپریشن کے منفی اثرات مرتب ہوئے اور ملک بھر میں جگہ جگہ احتجاج اور دھرنوں کا سلسلہ شروع ہوگیا۔ 3 نومبر 2007 کے بعد ملکی تاریخ میں 10 سال کے دوران دوسری بار نومبر کے مہینے میں ہی تمام ٹی وی چینلز کی نشریات بند کردی گئیں اور سوشل میڈیا پر بھی پابندی لگادی گئی۔ آرمی چیف کی مداخلت پر یہ نشریات بحال ہوئیں۔ آخرکار فوج بیچ میں آئی اور اس کی ثالثی میں ہونے والے معاہدے کے نتیجے میں دھرنا ختم ہوگیا جب کہ وزیر قانون زاہد حامد کو مستعفی ہوکر گھر جانا پڑا۔ دھرنا کیس کی سماعت کے دوران اسلام آباد ہائیکورٹ کے جسٹس شوکت عزیز صدیقی کے فوج سے متعلق سخت ریمارکس سے ملکی حالات میں بھونچال آگیا۔ ہائی کورٹ نے حکومت اور دھرنا قیادت کے درمیان فوج کی ثالثی میں ہونے والے معاہدے پر برہمی کا اظہار کیا۔

پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کے چیئرمین عمران خان کی جانب سے پاناما پیپرز کیس میں نواز شریف کے خلاف درخواست پر مبینہ طور پر جوابی کارروائی کرتے ہوئے پاکستان مسلم لیگ (ن) کے رہنما حنیف عباسی نے نومبر 2016 میں عمران خان اور تحریک انصاف کے سیکرٹری جنرل جہانگیر ترین کی نااہلی کے لیے درخواست سپریم کورٹ میں دائر کی تھی، جس میں الزام لگایا گیا تھا کہ تحریک انصاف کے رہنماؤں نے الیکشن کمیشن میں اپنے اثاثے ظاہر نہیں کیے، جو آمدنی ٹیکس آرڈیننس 1979 اور پیپلز ایکٹ 1974 کی مبینہ خلاف ورزی ہے۔ مقدمے کی 50 سے زاید سماعتوں کے بعد بینچ نے 14 نومبر کو اپنا فیصلہ محفوظ کیا، جسے ایک ماہ بعد سنایا گیا۔ عدالت نے آئین کے آرٹیکل 62 کی شق ایک ایف کے تحت جہانگیر ترین کو بد نیت پایا اور پیپلز ایکٹ کی نمائندگی (آر او پی اے) کے سیکشن 99 کے تحت متعدد الزامات ان پر ثابت ہوئے۔ تاہم سپریم کورٹ نے عمران خان کے خلاف دائر نااہلی کی درخواست کو مسترد کیا۔ 15 دسمبر ہی کو سپریم کورٹ نے مشہور حدیبیہ ریفرنس کا فیصلہ سناتے ہوئے کیس دوبارہ کھولنے کی نیب اپیل مسترد کردی جس کے نتیجے میں حدیبیہ کا باب ہمیشہ کیلیے بند ہوگیا۔ حدیبیہ منی لانڈرنگ کا مقدمہ تھا جس میں شہباز شریف مرکزی ملزم تھے اور کیس ختم ہونے پر انہوں نے سکھ کا سانس لیا۔ چند روز بعد 21 دسمبر کو نواز شریف نے اعلان کردیا کہ مسلم لیگ (ن) کے اگلے وزارت عظمیٰ کے امیدوار شہباز شریف ہوں گے۔
پاناما لیکس کیس پر سپریم کورٹ کے حکم کے بعد قومی احتساب بیورو (نیب) نے 8 ستمبر 2017 کو نوازشریف، ان کے تین بچوں اور داماد کے خلاف تین ریفرنسز دائر کیے۔ سپریم کورٹ کی ہدایت پر تشکیل کردہ مشترکہ تحقیقاتی کمیٹی (جے آئی ٹی) نے شریف خاندان کے بیرون ملک کاروبار سے متعلق تحقیقات کیں، جس کی بنیاد پر نیب نے ریفرنس دائر کیے۔ پہلے شریف خاندان کے افراد نے تفتیش کاروں کے سامنے پیش ہونے سے انکار کیا، لیکن جب عدالت نے ان کی عدم پیشی پر گرفتار وارنٹ جاری کرنے کی تیاری کی تو سابق وزیراعظم نوازشریف عدالت میں پیش ہوئے، لیکن ان کی پیشی میں حاضری مستقل نہیں تھی۔ بالآخر مریم نواز اور ان کے شوہر کیپٹن (ر) محمد صفدر کو کورٹ میں پیش ہونا پڑا، لیکن کورٹ نے حسن اور حسین نواز کی مسلسل عدم پیشی پر انہیں مفرور قرار دے دیا۔ سست روی سے زیر سماعت کیس میں عدالت نے نواز شریف، مریم نواز اور صفدر پر لندن میں قائم ایون فیلڈ اپارٹمنٹس ریفرنس میں فرد جرم عائد کی، جبکہ عدالت نے 31 اکتوبر کو نواز شریف کے خلاف فلیگ شپ انویسٹمنٹ ریفرنس میں بھی فرد جرم عائد کی۔ نیب کی جانب سے عدالت میں دو گواہان پیش کرنے کے بعد 15 نومبر 2017 کو نواز شریف، مریم نواز اورصفدر کے خلاف ٹرائل کا باقاعدہ آغاز ہوا۔ شریف خاندان کے خلاف تین ریفرنسز کے علاوہ نیب نے وزیر خزانہ اسحٰق ڈار کے خلاف آمدنی سے زائد اثاثے رکھنے کے خلاف ایک ریفرنس بھی دائر کیا۔ ستمبر کو احتساب عدالت نے اسحٰق ڈار پر فرد جرم عائد کی تھی، تاہم عدالت نے ان کے قابل ضمانت وارنٹ جاری کیے تھے۔ بعد ازاں عدالت سے مسلسل غیر حاضری پر 14 نومبر کو اسحٰق ڈار کے ناقابل ضمانت وارنٹ گرفتاری جاری کیے اور 11 دسمبر کو انہیں اشتہاری قرار دے دیا گیا۔ اسحٰق ڈار کی بیرون ملک موجودگی کے باعث وزارت خزانہ مکمل طور پر بے ترتیبی کا شکار رہی، جس کے بعد 22 نومبر کو بالاخر حکومت نے اسحٰق ڈار سے وزیر خزانہ کا پورٹ فولیو واپس لے لیا۔

سابق وزیر اعظم اور پاکستان پیپلز پارٹی (پی پی پی) کی سربراہ بینظیر بھٹو کے لیاقت باغ راولپنڈی میں قتل کے تقریباً ایک دہائی بعد انسداد دہشت گردی عدالت (اے ٹی سی) نے 31 اگست کو مقدے کا فیصلہ سنایا۔ عدالت نے مذکورہ کیس کی سماعت کے دوران سابق صدر جنرل (ر) پرویز مشرف کو اشتہاری قرار دیا تھا اور ان کا نام اس مقدمے میں 2011 میں شامل کیا گیا تھا، تاہم وہ اس مقدمے کی ٹرائل میں عدالت کے سامنے حاضر ہونے میں ناکام رہے تھے۔اس مقدمے کا فیصلہ، جس پر متنازع تحقیقات اور سماعتوں کا الزام لگایا جاتا ہے، پاکستان پیپلز پارٹی (پی پی پی) کی جانب سے مسترد کردیا گیا اور کئی حلقوں کی جانب سے اسے غیر تسلی بخش قرار دیا گیا تھا۔ اس فیصلے کے کچھ ہفتوں بعد 18 ستمبر کو پیپلز پارٹی نے اسے لاہور ہائی کورٹ میں چیلنچ کیا، جبکہ پارٹی نے گزشتہ 10 برسوں کے دوران مقدمے کی کچھ خاص انداز میں پیروی نہیں کی تھی۔

20 سالہ مقتول شاہ زیب خان کی پانچویں برسی سے ایک روز قبل ڈسٹرک اینڈ سیشن کورٹ نے شاہ زیب قتل میں نامزد مرکزی ملزم شاہ رخ جتوئی اور اس کے تین ساتھیوں کو ضمانت پر رہا کردیا۔ شاہ زیب خان کے والد نے کورٹ کو بتایا کہ ملزم کی فیملی نے معافی مانگ لی ہے، اس لیے کورٹ ان کے خلاف کیس کو ختم کردے جس کے بعد جتوئی، ساجد علی تالپور، سیراج علی تالپور اور غلام مرتضیٰ لاشاری کو ضمانت پر رہا کردیا گیا۔ شاہ رخ جتوئی نے معمولی تنازع پر شاہ زیب خان کو چار گولیاں مار کر قتل کردیا تھا، واردات کے فوراً بعد ملزم دبئی فرار ہونے میں کامیاب ہو گیا تھا۔ سابق چیف جسٹس افتخاری محمد چوہدری نے شاہ زیب قتل کا ازخود نوٹس لیتے ہوئے ملزم کی گرفتاری کا حکم دیا تھا۔ اگلے برس ہی انسداد دہشت گردی کی عدالت نے شاہ رخ جتوئی کا جرم ثابت ہونے پر اس کو سزائے موت سنا دی۔ رواں برس نومبر میں سندھ ہائی کورٹ نے انسداد دہشت گردی کی عدالت کے فیصلے کو کالعدم قرار دیتے ہوئے قتل کے مجرم شاہ رخ جتوئی کے کیس پر دوبارہ سماعت کا حکم دیا تھا اور شاہ زیب قتل کیس کو ڈسٹرک اینڈ سیشن میں منتقل کردیا تھا، ایک ہفتے بعد ہی، ملزم کو ضمانت مل گئی۔ ملزم کی ضمانت کا لمحہ مقتول شاہ زیب خان کے ان چاہنے والوں کے لیے انتہائی قرب والا تھا جنہوں نے انصاف کے لیے سڑکوں کا رخ کیا تھا اور کیس کی مکمل پیروی کی تھی۔
5 دسمبر کو جب لاہور ہائی کورٹ نے پنجاب حکومت کو 2014 میں ماڈل ٹاؤن کے پرتشدد سانحے، جس میں پاکستان عوامی تحریک (پی اے ٹی) کے سربراہ طاہر القادری کے 14 حامی ہلاک ہوگئے تھے، پر جسٹس باقر نجفی کی تحقیقاتی رپورٹ منظر عام پر لانے کا حکم دیا تو پنجاب حکومت نے خود کو ایک بند گلی میں پایا۔ اسی دن کے اختتام تک یہ تباہ کن رپورٹ جاری کر دی گئی تھی اور جسٹس نجفی کے اخذ کردہ نتائج سے یہ واضح تھا کہ حکومتِ پنجاب نے اس رپورٹ کے اجراء کو روکنے کے لیے ایڑی چوٹی کا زور کیوں لگایا تھا۔ جج نے تحقیقات کے دوران یہ نشاندہی کی تھی کہ اس وقت پنجاب کے وزیرِ پارلیمانی امور رانا ثناء اﷲ، طاہر القادری کو لاہور سے اسلام آباد تک لانگ مارچ سے روکنے کا عزم رکھتے تھے، جس کی وجہ سے پولیس نے مظاہرین سے نمٹنے میں اس قدر سختی کا مظاہرہ کیا۔ یہ فیصلہ طاہر القادری کی کامیابی تھی کہ انہیں اپنے حامیوں کے لیے انصاف کے حصول میں پیش رفت نظر آنے لگی۔ رپورٹ کے اجراء کے اگلے چند دنوں میں انہوں نے پنجاب کے وزیرِ اعلیٰ شہباز شریف اور رانا ثناء اﷲ کے استعفوں کا مطالبہ کیا۔ انہوں نے سانحے کی تحقیقات کے لیے مشترکہ تحقیقاتی ٹیم (جے آئی ٹی) کی تشکیل کے ساتھ ساتھ مشتبہ بیوروکریٹس اور پولیس حکام کی برطرفی کا بھی مطالبہ کیا۔ پی پی پی، پی ٹی آئی، اور عوامی نیشنل پارٹی سمیت متعدد جماعتوں نے طاہر القادری کی حمایت کا اعلان کیا۔ طاہر القادری نے شہباز شریف اور ثناء اﷲ کو وارننگ دی کہ 31 دسمبر تک استعفیٰ دیں یا پھر اپنے خلاف تحریک کے لیے تیار ہوجائیں۔

مارچ 2016 میں شروع ہونے والی ہندوستانی جاسوس کی سنسنی خیز کہانی بالآخر اس وقت اپنے انجام کو پہنچی، جب پاکستان کی ایک فوجی عدالت نے کلبھوشن یادیو کو دہشت گردی اور جاسوسی کے الزامات پر سزائے موت سنائی۔ یہ سزا ایک ملٹری ٹریبونل کی جانب سے ٹرائل کے بعد سنائی گئی۔ کلبھوشن یادیو کے پاکستان میں دہشت گردی کے حملے کرنے کے اعتراف اور انہیں ملنے والی سزا کو پاکستان کے داخلی معاملات میں ہندوستانی مداخلت کے ثبوت کے طور پر دیکھا جاتا ہے۔ پاکستان سے اجازت ملنے پر 25 دسمبر کو بھارتی جاسوس کلبھوشن یادیو کی والدہ اور اہلیہ اسلام آباد پہنچے، جہاں دفتر خارجہ میں انہوں نے ملاقات کی۔ پاکستان نے انسانی ہمدردی کی بنیاد پر اس ملاقات کی اجازت دی۔

سیاسی ہلچل اور عدالتی فیصلوں کے علاوہ بھی اس سال کئی اہم معاملات سامنے آئے۔ 6 جنوری کو سابق آرمی چیف جنرل راحیل شریف کو سعودی عرب کے اسلامی فوجی اتحاد کا سربراہ مقرر کیا گیا۔ یہ اتحاد 35 ممالک پر مشتمل ہے جس میں پاکستان بھی شامل ہے۔19 دسمبر کو پاکستان کی پارلیمانی تاریخ میں پہلی بار آرمی چیف نے سینیٹ کو بریفنگ دی۔ اس بریفنگ میں آرمی چیف نے جمہوریت کو خطرہ نہ ہونے کی یقین دہانی کراتے ہوئے کہا کہ دھرنے میں فوج کا ثابت ہوا تو وہ مستعفی ہوجائیں گے۔ ملک میں 20 سال کے طویل عرصے بعد 2017 میں مردم شماری بھی ہوئی۔ یہ مردم شماری 15 مارچ کو شروع ہوئی اور 25 مئی کو ختم ہوئی۔ ابتدائی نتائج کے مطابق پاکستان کی کل آبادی 20 کروڑ 77 لاکھ تک پہنچ گئی جس میں مردوں کی تعداد 10 کروڑ 64 لاکھ 50 ہزار اور خواتین کی آبادی 10 کروڑ 13 لاکھ 15 ہزار ہے۔ سال 2017میں پاکستان میں کرکٹ کے میدان بھی آباد ہونے کا سلسلہ شروع ہوا۔ایک ،دو نہیں کرکٹ کے تین انٹرنیشنل ایونٹس لاہور میں منعقد ہوئے۔ 2017 میں پاکستان میں دوبارہ پھر انٹرنیشنل کرکٹ کی سرگرمیوں کا آغاز ہوا۔ 2017میں قومی اداروں کی بدحالی کا سلسلہ جاری رہا۔ پی آئی اے انتظامیہ کی بدنظمی اور ناقص حکمت عملی کی وجہ سے مالیاتی خسارے کی اڑان آسمان کی جانب رہی۔ گزشتہ سالوں کی طرح سال 2017 بھی قومی ایئرلائن کے لیے بدترین خسارے کے ساتھ مشکلات کا شکار رہا، مجموعی خسارہ 400ارب روپے سے تجاوز کرگیا۔ ملکی معیشت کے لیے سال 2017 کچھ زیادہ اچھا نہیں رہا، سیاسی ہل چل نے معاشی میدان میں بھی اتار چڑھاؤ پیدا کیے رکھا۔ بڑھتا تجارتی خسارہ اور مہنگائی، ٹھپ سرمایہ کاری اور ڈالر کی بلند اڑان نے معاشی گاڑی کو آگے نہ بڑھنے دیا۔ گزشتہ برسوں کی طرح اس سال بھی حکومت نے غیر ملکی قرضوں کے حصول کا ریکارڈ بنانے کی کوشش کی۔ جب کہ رواں مالی سال کے پہلے 5 ماہ میں ہی 5.2 بلین ڈالر کا قرضہ حاصل کر لیا گیا، جو سالانہ اندازے سے دو تہائی زیادہ ہے۔ رواں مالی سال-18 2017 کے لیے حکومت نے 7.7 بلین ڈالر کے غیر ملکی قرضوں کا اندازہ لگایا تھا، لیکن ایسا لگتا ہے کہ گزشتہ مالی سال کی طرح اس سال بھی یہ حد پہلے ہی عبور کر لی جائے گی۔ بیورو آف انویسٹی گیٹو جرنلزم کے اعداد و شمار کے مطابق رواں سال پاکستان میں چھ ڈرون حملے ہوئے جن میں 22 ہلاکتیں ہوئیں۔ حکومتی دعوؤں کے باوجود صحرائے تھر میں غذائیت کی کمی اور دیگر امراض کے سبب مرنے والے بچوں کی تعداد میں کمی نہ آسکی اور 2017 کا سال بھی 445 بچوں کی جانیں لے گیا۔ اگر خارجہ پالیسی کی بات کی جائے تو بھارت ہر محاذ پر پاکستان کے خلاف سرگرم نظر آیا۔ کہیں پاکستان کے خلاف بلوچستان تحریک کو ہوا دی گئی تو کہیں پاکستان کو عالمی عدالتوں میں گھسیٹا گیا۔ پاکستان کے امریکا، بھارت اور افغانستان سمیت تمام اہم ممالک سے تعلقات کشیدہ رہے۔ بھارت نے ایل او سی اور ورکنگ باونڈری پر بلا اشتعال فائرنگ کا سلسلہ جاری رکھا، جس کے نتیجے میں سینکڑوں افراد و جوان شہیدہوئے اور 200 کے قریب زخمی ہوئے۔ اس کے باوجود اقوام متحدہ سمیت کئی اہم فورمز سے بری خبریں سنائی دی جاتی رہیں۔ دوسری جانب کلبھوشن کے معاملے پر پاکستان نے بھارت کو مشکلات سے دوچار کیے رکھا، امریکا اور پاکستان کے تعلقات میں سرد مہری چھائی رہی، افغانستان میں موجود امن دشمن عناصر پاک افغان تعلقات میں دراڑیں ڈالنے میں کامیاب رہے۔ کشمیر میں بھی بھارت نے مظالم کا سلسلہ جاری رکھا۔

عابد محمود عزام
About the Author: عابد محمود عزام Read More Articles by عابد محمود عزام: 869 Articles with 629719 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.