محترم شاہد خاقان عباسی
وزیر اعظم پاکستان
تسلیمات وآداب !
محترم وزیر اعظم پاکستان! ہمیں علم ہے کہ ان دنوں آپ کی جماعت اور آپ کی
مشکلات میں دن بدن اضافہ ہی ہوتا جارہا ہے، جنہیں دیکھ کر لگتا ہے کہ آئندہ
لیکشن میں مسلم لیگ (ن) کے لیے کامیاب ہونا بہت مشکل ہے۔ پاناما لیکس کیس
میں عدالتی فیصلوں کی وجہ سے مسلم لیگ (ن) کا گراف بہت گرگیا ہے اور ختم
نبوت کے قانون کو چھیڑ کر تو حکومت نے گویا اپنے پاؤں پر کلہاڑی ہی مار لی
ہے، جس کا اندازہ مسلم لیگ (ن) کو آئندہ الیکشن میں ہوجائے گا۔ میرا مقصد
آئندہ الیکشن میں مسلم لیگ (ن) کی شکست کی پیش گوئی کرنا نہیں ہے، بلکہ
موجودہ حکومت کو اپنی ایک ذمہ داری کی یا ددہانی کروانا ہے، جسے پورا کرنے
سے آپ نہ صرف پوری قوم کے دل جیت سکتے ہیں اور ایک ہیرو کے طور پر ابھر
سکتے ہیں، بلکہ مسلم لیگ (ن) کی مقبولیت میں بھی بے پناہ اضافہ ہوسکتا ہے۔
موجودہ حکومت کی وہ ذمہ داری ساڑھے 14سال سے امریکی قید میں موجود پاکستانی
قوم کی بیٹی ڈاکٹر عافیہ صدیقی کو واپس پاکستان لانا ہے۔ اگر حکومت صدق دل
کے ساتھ عافیہ صدیقی کو واپس وطن لانے کی کوشش کرے تو اس کی رہائی ناممکن
نہیں، مگر حکومت نے شاید امریکی انتظامیہ سے کبھی پاکستانی شہری عافیہ
صدیقی کی رہائی کا مطالبہ کیا ہی نہیں ہے۔ کئی امریکی اور یورپی صحافی
غیرمعمولی تجزیاتی رپورٹس میں کہہ چکے ہیں کہ عافیہ کیس میں امریکا سے
زیادہ پاکستان کا کردار اہم ہے۔ امریکا تو عافیہ کو پاکستان کی تحویل میں
دینے پرراضی ہے۔
جناب وزیر اعظم !آپ کی ہی جماعت مسلم لیگ (ن) کے چیئرمین میاں محمد نواز
شریف نے وزیر اعظم بننے سے پہلے ڈاکٹر عافیہ صدیقی کے بچوں اور ان کی والدہ
عصمت صدیقی سے ملاقات میں کہا تھا کہ میری امی جان! میں آپ کا بیٹا ہوں۔
میں آپ سے وعدہ کرتا ہوں کہ عافیہ کو واپس لے کر میں ہی آؤں گا۔صرف یہی
نہیں، بلکہ 2013ء کے انتخابات سے قبل میاں محمد نوازشریف نے متعدد بار عوام
کے سامنے کہا تھا کہ ڈاکٹر عافیہ صدیقی قوم کی بیٹی ہے۔ وزیر اعظم بننے کے
بعد قوم کی بیٹی کو وطن لے آؤں گا۔ یہ میرا آپ سے وعدہ ہے۔ عوام نے انہیں
ووٹ دے کر ملک کا وزیر اعظم بنایا، مگر افسوس میاں نواز شریف اپنے تمام
وعدے بھول گئے۔ نہ صرف حکومت میں آنے کے بعد ڈاکٹر عافیہ صدیقی کی رہائی کے
لیے کوئی کوشش نہیں کی، بلکہ سال رواں کے شروع میں ڈاکٹر عافیہ صدیقی کی
رہائی کا امریکا کی جانب سے ملنے والا موقع بھی گنوا دیا، جو ہمیشہ مسلم
لیگ (ن) کی حکومت کے سیاہ کارناموں کے طور پر یاد کیا جاتا رہے گا۔
جناب وزیر اعظم! امریکا کے سابق صدر باراک اوباما نے وائٹ ہاؤس سے رخصت
ہوتے ہوئے جہاں بہت سے قیدیوں کو رہا کیا تھا، وہیں ڈاکٹر عافیہ صدیقی کی
رہائی کا پروانہ بھی جاری ہوچکا تھا، لیکن ڈاکٹر عافیہ کی رہائی کے لیے صدر
مملکت یا وزیراعظم پاکستان کا ایک خط درکار تھا، جو نہ لکھ کر ڈاکٹر عافیہ
صدیقی کی رہائی کا موقع ضایع کیاگیا، جس پر پاکستان بھر کے عوام کی جانب سے
موجودہ حکومت پر شدید تنقید کی گئی۔ ڈاکٹر عافیہ صدیقی کی بڑی بہن ڈاکٹر
فوزیہ صدیقی اور متعدد سیاسی و مذہبی رہنماؤں کا کہنا تھا کہ حکومت نے خط
نہ لکھ کر انتہائی نااہلی کا ثبوت دیا ہے۔ عافیہ موومنٹ کی رہنما ڈاکٹر
فوزیہ صدیقی کہتی ہیں کہ موجودہ حکومت نے کسی قسم کا تعاون نہیں کیا۔ اگر
حکومت پاکستان سنجیدہ ہو تو عافیہ کی رہائی چند دنوں کی بات ہے، مگر افسوس
تمام وعدوں کے باوجود موجودہ حکومت نے عافیہ صدیقی کے لیے کچھ نہیں کیا۔
پچھلی حکومت کا تو یہ دعویٰ ہے کہ ان کے دور میں عافیہ صدیقی کے بچوں کو
واپس پاکستان لایا گیا تھا، لیکن موجودہ حکومت تو مکمل طور پر فیل ہوچکی
ہے۔ جب تک عافیہ صدیقی واپس پاکستان نہیں آجاتی، اس وقت تک قوم مسلم لیگ
(ن) کی حکومت کو معاف نہیں کرے گی۔
محترم وزیر اعظم! ڈاکٹر عافیہ صدیقی کا معاملہ صرف ایک فرد کا معاملہ نہیں
ہے، بلکہ پوری قوم کی غیرت اور عزت کا معاملہ ہے۔ عافیہ کی قید قومی اقدام
پر ایک دھبہ ہے۔ بیٹیاں تو ماؤں کی طرح سانجھی ہوتی ہیں۔ عافیہ صدیقی بھی
پاکستانی قوم کی بیٹی ہے، جس کا ایک ایک لمحہ جو امریکی قید میں گزر رہا
ہے، اس سے قومی سالمیت مجروح اور پاکستان کے گرین پاسپورٹ کی تذلیل ہورہی
ہے۔ ڈاکٹر عافیہ صدیقی پاکستانی شہری ہیں، انسانی اور آئینی طور پر عافیہ
کی رہائی حکومت پر فرض اور پوری قوم کا قرض ہے۔ امریکی قید میں ڈاکٹر عافیہ
صدیقی کے ساتھ ایسا کون سا ظلم ہے جو روا نہیں رکھا جاتا ہے۔ ڈیڑھ دو سال
سے تو اپنی والدہ، بہن اور بچوں کے ساتھ ملاقات کرنے اور فون پر بات کرنے
پر بھی پابندی ہے، حالانکہ اگر پاکستانی حکومت بدنام زمانہ خفیہ دہشتگرد
بھارتی تنظیم ’’را‘‘ کے ایجنٹ کلبھوشن یادیو کو دہشتگردی کی متعدد وارداتوں
میں ملوث ہونے کے باوجود اپنی ماں اور بیوی سے ملواسکتی ہے تو پھر امریکی
حکومت کی طرف سے ڈاکٹر عافیہ صدیقی پر عاید ملاقات اور بات کرنے کی پابندی
کو کیوں ختم نہیں کرواسکتی؟
جناب وزیر اعظم! ڈاکٹر عافیہ صدیقی کوئی عام خاتون نہیں۔ عافیہ صدیقی کے
والد نے برطانیہ میں میڈیکل کی تعلیم حاصل کی تھی۔ ان کے ایک بھائی امریکا
میں آرکیٹیکٹ ہیں اور بڑی بہن ڈاکٹر فوزیہ صدیقی دماغی امراض (نیورولوجی)
کی ماہر ہیں اور پہلے نیو یارک میں کام کرتی رہی ہیں۔ عافیہ نے قرآن حفظ
کیا۔ اپنی تعلیم کا بڑا حصہ یونیورسٹی آف ٹیکساس سے مکمل کیا، جہاں انھوں
نے MIT کے تحت بائیالوجی میں گریجویشن کی،اس کے بعد امریکا میں ہی علم
الاعصاب (دماغی علوم ) پر تحقیق کر کے PHD کی۔ ڈاکٹر عافیہ نے ایک انعام
یافتہ ایم آئی ٹی کی گریجویٹ خاتون کا اعزاز حاصل کیا اور ایک اعلیٰ پائے
کی سائنس دان بن چکی تھیں۔
جناب وزیر اعظم! پاکستان نے امریکا کی خوشنودی کی خاطر کتنی ہی قربانیاں دی
ہیں۔ امریکی ریمنڈ ڈیوس کو دو پاکستانیوں کو قتل کرنے اور ایک کو کچل کر
ماردینے پر معاف کیا ، دیت کے پیسے بھی خود بھرے اور فوری طور پر امریکا کے
حوالے بھی کر دیا۔ ہم نے توامریکا کو خوش کرنے کے لیے قانون دیکھا نہ آئین،
جو امریکا نے کہا اْسے پورا کیا۔ عافیہ صدیقی نے تو کسی کو قتل بھی نہیں
کیا ہے، عشروں کی اس خدمت کے عوض ہمارے حکمران اگر چاہیں تو قانونی طور پر
ڈاکٹر عافیہ کو پاکستان کے حوالے کروا سکتے ہیں۔
جناب وزیر اعظم! آپ آئے دن مختلف پارٹی ایشوز پر اجلاس بلاتے ہیں، ایک اہم
اجلاس ڈاکٹر عافیہ صدیقی کی رہائی کے حوالے سے بھی بلائیے، جس میں ڈاکٹر
عافیہ صدیقی کی رہائی کے حوالے سے بھرپور کوشش پر غور کیا جائے۔ مسلم لیگ
کی یہ حکومت ختم ہونے سے پہلے عافیہ صدیقی کو ضرور رہا کروایا جائے۔ مسلم
لیگ کی حکومت ختم ہونے جارہی ہے۔ پاکستان میں ایسے لوگوں کی ایک بڑی تعداد
ہے جو عافیہ صدیقی کو واپس نہ لانے کی صورت میں موجودہ حکومت کو ووٹ نہ
دینے کی قسم کھا چکے ہیں اور اگر آپ قوم کی بیٹی ڈاکٹر عافیہ صدیقی کو وطن
واپس لے آتے ہیں تو وطن عزیز کی تاریخ میں آپ کا نام سنہری حروف سے لکھا
جائے گا اور رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم کے وعدے کے مطابق مسلمان قیدی کو
چھڑانے کا بے انتہا اجر بھی ملے گا، کیونکہ ہم سب کے پیارے نبی صلی اﷲ علیہ
وسلم نے قیدیوں کو چھڑانے کا حکم خود دیا ہے۔ |