شخصیت پرستی میں انتہا پسندی

یہ کیسی خلش ہے،پریشانی ہے،انتشار ہے جس کی بظاہر کو ئی وجہ نظر نہیں آتی۔سیاسی ایوانوں کی دیواروں میں لرزش ہے۔جمہوریت کے سپاہی ننگی تلواریں نیام میں چُھپائے بیٹھے ہیں۔ادارو ں کے ٹکراؤ کی بازگشت سنائی دے رہی ہے۔

چند افراد کے مفاد کی قیمت پوری قوم کو دینی پڑتی ہے۔جس طرح ایک بے بس لڑکی کے گرد غُنڈے دائرہ بنائے اپنی فتح اور اُس کی بربادی پر قہقہے لگاتے ہیں اسی طرح اس دھرتی کے دُشمن اور غدار اپنی فتح کی خوشبو کی مہک کو محسوس کر تے ہوئے اس وطن اور اس کے با سیوں پر ہنس رہے ہیں۔

ہر عام اور مُحبِ وطن پاکستانی شدید ذہنی اذیت کا شکار ہے۔ کون غلط ہے کون صُحیح۔کون جھوٹا ہے کون سچا،مظلوم اور ظالم کی پہچان ناممکن ہو گئی ہے۔جمہوریت کا حامی اور اس کا دُشمن سمجھ سے باہر ہے۔پانامہ کے شور میں باقی ہر آواز مدھم سُنائی دیتی ہے۔ہر شخص اس بات کا حامی ہیکہ کرپشن کا قلع قمع ہونا چاہیے۔لیکن یہاں ہر چیز کو اتنا متنازعہ بنا دیا جاتا ہے کہ سچ،جھوٹ کی تمیز ناممکن ہو جا تی ہے۔عدالتی فیصلے کے بعد سے عدالت کو بھی نہیں چھوڑا گیا۔لوگ شک میں پڑ چُکے ہیں۔شاید دُشمن کی یہ ہی کا میابی ہے۔ایک عام آدمی مایوس اور شدید نااُمیدی کا شکار ہو چکا ہے۔مُلک کی حالت بدلے گی یہ تو اب کسی دیوانے کا خواب محسوس ہو تا ہے۔رو ٹی، کپڑا،مکان،بجلی،پانی،سڑکیں،ٹرانسپورٹ یہ سب سہولیات ناپید ہیں۔ایک غریب آدمی کے لیے دو وقت کی روٹی سب سے بڑا مسئلہ ہے۔تعلیم یافتہ طبقہ مایوس ہے۔نا اُمیدی کے بادل ہر طرف چھائے نظر آتے ہیں۔

پانامہ،نوا زشریف اور کرپشن کے خلاف عمران خان کا ڈٹ جانا اُمید کی کرن کی مانند تھا۔

مڈل کلاس طبقہ جو اس مُلک کے لیے ریڑھ کی ہڈی ہے پُر اُمید ہو چلا تھا کہ چلو کو ئی تو ہے جو کرپشن کے خلاف بات کرتا ہے لیکن وائے رے قسمت عدالتی فیصلے کے بعد جہاں اس بات کی خوشی منائی جانی چاہیے تھی کہ چلو کہیں سے ہی صحیح انصاف شروع تو ہو اوہیں اس فیصلے اور خود عمران خان کی شخصیت کو اتنا متنازعہ بنایا گیا کہ ہر گلی چو راہے پہ عوام آپس میں بحث و مباحثے میں مصروف ہیں۔ ہر کو ئی حقیقت سے نظریں چُرائے بس اپنا راگ الاپ رہا ہے۔ہمارے مُعاشرے میں شخصیت پرستی عروج پر ہے۔بس جو ہمیں پسند ہے جو ہمارا لیڈر ہے وہ کتنا بھی غلط ہو وہ ہی ٹھیک ہے۔اس کی تعریف میں زمین و آسمان کے قلابے ملانا ہم اپنا مذہبی عقیدہ سمجھتے ہیں۔نون لیگ ہو یا پیپلز پارٹی پچھلے 70 سالوں سے یہ ہی دو پارٹیاں حکومت کرتی آئیں ہیں لیکن ذرا پاکستان اور اس کی عوام پر نظر ڈالیں تو یہ خوبی اندازہ ہوتا ہے کہ اس مُلک کی تعمیر و ترقی کے لیے کچھ نہیں کیا گیا۔عام آدمی کی حالت ِ زار پہلے سے بھی بد تر ہے۔قوتِ خرید دن بہ دن کم ہو رہی ہے۔اپر کلاس مڈل میں جبکہ مڈل لو ئر کلاس میں تبدیل ہو کر رہ گئی ہے۔عام آدمی کی زندگی مشکل سے اب تر ہو چُکی ہے لیکن قابلِ فکر بات یہ ہے کہ ووٹ کے نام پر یہ ہی عوام پھر انھی سیاسی شخصیات کو منتخب کرتی ہے۔یہ طرزِ عمل اس مُلک اور اس کی عوام کے لیے انتہائی مُضر ہے۔ایسا کیوں ہے ؟ قابلِ فکر بات یہ ہے۔اس کی وجہ سوائے اس کے کچھ نہیں کہ پاکستان کی 70 فی صد عوام آج بھی دیہات میں رہتی ہے جہاں تعلیم کا یا تو سرے سے وجود ہی نہیں اور اگر ہے بھی تو برائے نام ایک گو رنمنٹ پرائمری اسکول۔تعلیم یافتہ نہ ہونا اس طرزِ عمل کی سب سے بڑی وجہ ہے لیکن ایک اور پہلو جس پر آج تک تو جہ نہیں دی گئی وہ ہے ایسی تعلیم جس سے شعور حاصل ہو۔ ہمارے ہاں تعلیم کو بھی طبقات کی طرح تقسیم کر دیا گیا ہے۔مڈل کلاس اور لو ئر کلاس کے لیے ایسی تعلیم کا بندوبست کیا گیا ہے جو صرف ڈگری دیتی ہے شعور نہیں یہ ہی وجہ ہے کہ پڑھ لکھے افراد بھی اس شخصیت پرستی کا شکار ہیں۔
شخصیت پرستی میں ہم انتہاپسندی کا شکا ر ہو چُکے ہیں کسی دوسرے کی را ئے سُننے کو تیار ہی نہیں۔ 70 سال گزر گئے نہ تو اس مسئلے پر کسی نہ تو جہ دی نہ ہی اس کو ئی حل نکالنے کی کو ئی کو شش کی گئی ہے۔ حکمران تعلیم کی ترویج لیے کتنے سنجیدہ ہیں وہ وفا قی بجٹ میں تعلیم کے لیے مختص کی گئی رقم سے اندازہ ہو تا ہے کہ میٹرو بس کا بجٹ تعلیم کے بجٹ سے کہیں زیادہ تھا افسوس کا مقام یہ ہے کہ اس پر عوام بھی خوش تھی اور ہے۔ سفری سہولیات عوام کا حق ہے لیکن اس سے ایک عام آدمی کی زندگی میں کو ئی تبدیلی متوقع نہیں۔اگر آپ ترقی یا فتہ ممالک کو دیکھیں تو معلوم ہو گا کہ صرف تعلیم ہی کے ذریعے آج کا بامِ عروج انہوں نے حا صل کیا۔مخلص،باوسائل افراد کو آگیآنا ہو گا۔یہ شعور اُجاگر کرنا ہو گا۔مُعاشرے کے افراد کو اپنے حقوق سے آگاہی اور منتخب کردہ نُمائندؤں سے ان حقوق کی مانگ کرنا سکھانا ہو گا۔یہ ایک طویل اور لمبی جدوجہد ہے۔یہ ایک ایسے درخت کا بیج ہے جسے بو ئیں گے تو ہم پر پھل ہماری آئندہ آنے والی نسلیں کھائیں گی۔

آخر کسی کو تو پہل کرنا ہو گی وگرنہ مزید 70 سال گزر جا ئیں گے اور ہم بس آزادی کا جشن ظاہری طو ر پر ہی مناتے رہ جا ئیں گے۔شخصیت پرستی کے خول کو توڑنا ہو گا وہ وقت دور نہیں کہ جب ہم بھی ترقی یا فتہ افراد کی صف میں جا کھڑے ہوں گے۔انشائاللہ تعالیٰ۔

سہیل رضا تبسم
About the Author: سہیل رضا تبسم Read More Articles by سہیل رضا تبسم: 18 Articles with 25271 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.