ایران میں پرتشدد مظاہرے‘ عرب ملکوں میں مداخلت بند کرنے کا مطالبہ

بسم اﷲ الرحمن الرحیم

محمد مصعب
ایران میں مہنگائی کیخلاف شروع ہونے والے مظاہرے مختلف شہروں میں پھیل گئے ہیں اورایرانی حکومت و پولیس طاقت و قوت استعمال کرنے کے باوجود انہیں کچلنے میں ناکام رہی ہے۔ وسطی ضلع لورستان میں حکومت مخالف ایک مظاہرہ میں پولیس نے لوگوں پر گولیاں برسا کر چار افراد کو قتل کر دیا جس پر مظاہروں میں اور زیادہ شدت پیدا ہو گئی ہے۔ ایرانی پاسداران انقلاب کو طاقت کے ذریعہ مظاہرے کچلنے کے احکامات جاری کئے گئے ہیں لیکن احتجاج کی شدت کا انداز ہ اس امر سے لگایا جاسکتا ہے کہ سڑکوں پر نکلنے والے ہزاروں افراد نے اب سرکاری اداروں پر حملے اور ان میں گھس کر بلڈنگوں پر قبضے شروع کر دیے ہیں۔ یہ ایک نئی تبدیلی ہے جو اس وقت دیکھنے میں آئی ہے۔ ہر شہر میں مشتعل ہجوم قابو سے باہر ہوتا جارہا ہے۔ حکومتی مراکز، ضلعی دفاتر، پولیس تھانوں اور دیگر اہم سکاری دفاتر و عمارتوں پر حملوں سے ایرانی حکومت میں سخت تشویش اور بے چینی پائی جاتی ہے۔ تہران کے نواحی علاقے اراک میں مظاہرین نے قائمقام گورنر کے دفتر پر حملہ کیا اور عمارے اپنے کنٹرول میں لے لی۔ بعد ازاں مظاہرین نے ریڈیو اور ٹیلیویژن کے مقامی مرکز پر بھی قبضہ کر لیا اور اسی شہر میں متعدد جیلوں پر بھی حملے کئے گئے۔ سوشل میڈیا پر آنے والی اطلاعات اور مظاہرین کی ویڈیوز سے معلوم ہوتا ہے کہ مشتعل افراد اہم سرکاری عمارتوں اور دفاتر میں آزادی سے داخل ہو رہے ہیں۔ خرم آباد شہر کے بلدیہ دفتر، لورستان کے ضلع مرکز کے کئی دفاتر مظاہرین کے قبضے میں آگئے ہیں جب کہ کرج عدالت میں مظاہرین نے گھس کر احتجاج کیا۔ ٹیلی گرام پر پوسٹ کی گئی ویڈیوز میں دکھایا گیا ہے کہ مظاہرین نے ضلع فارس اور شیراز شہر سمیت کئی دوسرے علاقوں میں پرسرکاری عمارتوں میں گھس کر ان پر قبضہ کرلیا ہے۔لورستان میں چار افرادقتل ہونے کے بعد مظاہروں میں اور زیادہ شدت پیدا ہو گئی ہے۔ سرکاری دفاتر کو خاص طور پر پتھراؤ اور توڑ پھوڑ کا نشانہ بنایا جارہا ہے۔ ایرانی حکومت نے مظاہروں پر قابو پانے کیلئے انٹرنیٹ سروس بھی بند کر دی ہے مگر مظاہرین کی جانب سے سرکاری عمارتوں اور سکیورٹی فورسز پر پٹرول بموں سے حملوں کا ایک نیا سلسلہ شروع کر دیا گیا ہے۔ ایران میں یہ مظاہرے اس وقت شروع ہوئے جب ایک ہفتہ میں انڈوں کی قیمت دو گنا سے بھی زیادہ ہو گئی لیکن اب یہ احتجاج باقاعدہ حکومت مخالف تحریک کا روپ دھا ر چکا ہے اور مظاہرین کی جانب سے ایرانی حکومت کے خاتمہ کا مطالبہ کیا جارہا ہے۔ مظاہرین احتجاج کے دوران چیخ چیخ کر کہتے دکھائی دیتے ہیں کہ ایرانی حکومت یمن، شام اور عراق میں مداخلت بند کرے۔ وہ بڑے پیمانے پر سرمایہ وہاں خرچ کر رہی ہے جس سے ایران مسلسل مہنگائی کی لپیٹ میں آرہا ہے اور اس کا سارا بوجھ عام عوام کے کندھوں پر پڑ رہا ہے۔ مظاہرین ہر جگہ احتجاج کے دوران عرب ملکوں میں مداخلت بند کرنے کیلئے پلے کارڈز اور بینرز بھی اٹھائے دکھائی دیتے ہیں۔ ایسے محسوس ہوتا ہے کہ مہنگائی کا ایشو بہت پیچھے رہ گیا ہے اور عرب ملکوں میں مداخلت کیخلاف عوامی سطح پر لوگوں کے دلوں میں ابلنے والا لاوا اب پھٹ پڑا ہے اور وہ یوں آزادی سے اس پر اظہار خیال کرتے نظر آتے ہیں جس کا ماضی میں تصور بھی نہیں کیا جاسکتا تھا اور ایرانی حکومت نے طاقت کے ذریعہ لوگوں کو ان باتوں کے اظہار سے روک رکھا تھا۔

ایرانی پاسداران انقلاب مظاہرین کیخلاف آنسو گیس کی شیلنگ، لاٹھی چارج اور فائرنگ وغیرہ کے تمام حربے استعمال کر رہی ہے لیکن ابھی تک وہ مظاہروں کو روکنے میں کامیاب نہیں ہو سکی ہے۔ ایران میں اس وقت بالکل اسی طرح کی تحریک انتفاضہ نظر آرہی ہے جس طرح بعض عرب ملکوں میں احتجاجی تحریکیں چلیں اور پھر ان کی حکومتوں کو ختم کر دیا گیا۔ جس طرح سرکاری دفاتر، پولیس تھانوں، عدالتوں اور جیلوں پر حملے کئے جارہے ہیں اس سے صاف پتہ چلتا ہے کہ عوامی سطح پر ایران کی طرف سے یمن، شام، عراق اور دیگر عرب ملکوں میں مداخلت کے حوالہ سے کس قدر بے چینی پائی جاتی ہے۔ یمن میں حوثی باغیوں کی جانب سے سرزمین حرمین شریفین پر میزائل حملوں کیخلاف بھی سخت ناراضگی پائی جاتی ہے اور لوگوں کا کہنا ہے کہ ایرانی حکومت حوثیوں کی درپردہ مدد کرکے پوری مسلم دنیا کو اپنے خلاف کر رہی ہے۔ان کا کہنا ہے کہ ہماری حکومت کو عرب ملکوں کو چھوڑ کر اپنے عوام کی فکر کرنی چاہیے اور ان کی فلاح و بہبود کیلئے پالیسیاں ترتیب دینی چاہئیں۔یہ عوامی احتجاج اس قدر شدت اختیار کر چکا ہے کہ ایرانی میڈیا میں مظاہرین کی طرف سے ایسی مذہبی شخصیات کیخلاف لوگوں کو نعرے لگاتے دکھایاجارہا ہے کہ جن کیخلاف بات کرنا اپنی زندگی خطرے میں ڈالنے کے مترادف سمجھا جاتا تھا۔ اس وقت تہران، اصفہان، نجف آباد، یاسوج، الاھواز، الخلیفہ، ارومیہ، بندر عباس، جوھر دشت، مشہد، زنجان، اراک، جرجان اوردوسرے کئی دوسرے شہروں میں مسلسل مظاہرے کئے جارہے ہیں۔ اتوار کے دن ایران کے ستر شہروں میں احتجاجی مظاہروں کی کال دی گئی تھی جس پر پورے ملک میں مظاہرے کئے گئے۔ جگہ جگہ جلسے، جلوس اور ریلیاں نکالی گئیں۔ سوشل میڈیا پر ایران میں حکومت مخالف اس تحریک کو زبردست پذیرائی مل رہی ہے۔ جمعرات کے دن تین شہروں میں اشیاء کی قیمتوں میں اضافہ کیخلاف احتجاج شروع ہوا جو دیکھتے ہی دیکھتے حکومت مخالف ایک مضبوط تحریک کا روپ دھار چکا ہے۔ شہری سوشل میڈیا کے ذریعے احتجاجی مظاہروں کی جگہوں اور اوقات کااعلان کررہے ہیں۔مظاہرین پر طاقت کے استعمال سے حالات مزید خراب ہو رہے ہیں۔ ایرانی نیوز ایجنسی تسنیم کے مطابق احتجاج اقتصادی مطالبات پر شروع ہوا مگر اب مظاہرین کے مطالبات تبدیل ہو چکے ہیں اور یہ وہی مطالبات ہیں جو 2009ء میں سبز انقلاب تحریک کے دوران کئے جارہے تھے۔ اب تو اس تحریک میں طلباء بھی شامل ہو گئے ہیں اور اسکولوں، کالجوں اور یونیورسٹیوں کے ہزاروں طلباء بھی سڑکوں پر نکل آئے ہیں اور موجودہ ایرانی حکومت کیخلاف احتجاج کر رہے ہیں۔ جامعہ تہران کے طلباء کی کثیر تعداد نے گذشتہ روز زبردست احتجاج کیا اور حکومت مخالف نعرے بازی کی۔ ان کی طرف سے اصلاح پسندوں اور بنیاد پرستوں کے درمیان گیم ختم‘ عوام کا استحصال نا منظور اور آمریت مردہ باد جیسے نعرے لگائے۔طلباء نے تہران میں یونیورسٹی روڈ پر کوڑے کرکٹ کو آگ لگا کر اور پتھر پھینک کرسڑک بلاک کردی۔اس دوران پولیس نے مظاہرین کو منتشر کرنے کے لیے ان پر شدیدلاٹھی چارج کیا۔مقامی پولیس حکام کا کہنا ہے کہ مظاہرے معاشی مطالبات پر شروع ہوئے تھے مگر اب احتجاج ایک منظم تحریک میں تبدیل ہوتا جا رہا ہے۔میں سمجھتاہوں کہ اگر حالیہ مظاہرے حکومت مخالف تحریک میں تبدیل ہوئے ہیں تو اس کا مطلب ہے کہ لوگوں کو طاقت کے ذریعے دبا کر رکھا گیا تھا آج انہیں تھوڑا سا موقع ملا ہے تو وہ اپنے دل و دماغ میں موجود غم و غصہ نکال رہے ہیں۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ ایرانی حکومت مظاہرین کے مطالبات کو سامنے رکھے اور یمن، شام ، عراق اور دیگر ملکوں میں مداخلت کی پالیسی پر نظر ثانی کرے جس پر لوگوں میں سخت ناراضگی پائی جاتی ہے۔ اس سے مسلمان ملکوں کے باہمی تعلقات بہتر ہوں گے،یمن، شام ، عراق اور دیگر ملکوں میں امن و امان قائم اور ایران کی اپنی عوام مطمئن ہو جائے گی ۔ اس طرح پورے ایران میں ہونیو الے مظاہرے بھی ختم ہو جائیں گے۔

Munzir Habib
About the Author: Munzir Habib Read More Articles by Munzir Habib: 193 Articles with 119011 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.