آج 2017ء اپنے اختتام کو پہنچا۔ اِن 365 دنوں میں ہم
نے کیا کھویا کیا پایا ، اِس کا حساب بعد میں ہوتا رہے گا لیکن سب سے پہلے
قارئینِ کرام کو سالِ نَو کی پیشگی مبارک۔ اﷲ تعالےٰ سے دعا ہے کہ نیا سال
اہلِ وطن کے لیے ڈھیروں ڈھیر خوشیوں کا پیغام لائے اور اہلِ سیاست کو ہوسِ
اقتدار جیسی مرضِ بَد سے نجات دلا کر اُن کے دِل میں بھی وطنِ عزیز کی خدمت
کا جذبہ پیدا کرے۔ فی الحال تو یہ جذبہ مفقود ہے۔ اب کچھ بات پہلو بدلتی
سیاست پر۔
ہم تو گلا پھاڑ پھاڑ کر تھک بلکہ ’’ہَپھ‘‘ گئے کہ ہمارے مُرشد شیخ الاسلام
پروفیسر ڈاکٹر علامہ طاہرالقادری سے بڑا کوئی مذہبی لیڈر ہے نہ سیاسی لیکن
نقارخانے میں تُوتی کی آواز بھلا کون سُنتا ہے۔ ہمارا کہاہمیشہ صدابصحرا ہی
ثابت ہواالبتہ آج ہماری ’’ارسطوانہ سوچ‘‘ سچ کا روپ دھار چکی۔ سیاسی
جماعتوں( جن میں تحریکِ انصاف ،پیپلزپارٹی اور جماعت اسلامی بھی شامل ہیں)
نے میرے مُرشد کے سامنے زانوئے تلمذ تہ کر دیا۔ پیپلزپارٹی کے مدارالمہام
آصف زرداری دو دفعہ ’’دَرِ قادری‘‘ کو چوم چکے، تحریکِ انصاف کے عمران خاں
بھی ’’خانۂ مُرشد‘‘ کا طواف کر آئے۔ مُرشد کی طرف سے بلائی گئی اے پی سی
میں سیاسی جماعتوں کے رہنماؤں نے بھرپور شرکت کرکے یہ تسلیم کر لیا کہ
’’وَڈے تے اصلی‘‘ رہنماء ہمارے مُرشد ہی ہیں۔ حَسد سے جَل بھُن کر سیخ کباب
ہونے والے نون لیگیئے کہتے ہیں کہ اﷲ اﷲ! اب نوبت یہاں تک آن پہنچی کہ
پیپلزپارٹی اور تحریکِ انصاف جیسی قومی سیاسی جماعتیں بھی طاہرالقادری کا
کندھا استعمال کرنے کے لیے کوشاں ہیں۔ یہ الگ بات ہے کہ مولانا اُنہیں تا
حال ’’کندھا دینے‘‘ کو تیار نہیں لیکن ہم کہتے ہیں کہ ’’بندر کیا جانے
اَدرک کا سَواد‘‘۔ جو مزہ علامہ کی قیادت میں ہے بھلا کہیں اور کہاں۔ نون
لیگیوں کے پیٹ میں مروڈ اُٹھنے کی وجہ یہ ہے کہ اُنہیں یہ سارا ’’اکٹھ‘‘
نوازلیگ کے خلاف ہوتا ہوا نظر آرہا ہے۔ سچ کہا تھا میاں نوازشریف نے ’’سارے
رَل کے سانوں پَے گئے نیں‘‘۔ بہرحال حاسد تو حسد کرتے ہی رہیں گے لیکن ہمیں
اِس اے پی سی میں ایک کمی شدت سے محسوس ہوئی کہ اگر علامہ صاحب اپنی اے پی
سی میں خادم حسین رضوی کو بھی بلا لیتے تو اِس کانفرنس کا رنگ ’’چوکھا اور
انوکھا‘‘ ہو جاتا۔ ہم مُرشد سے دَست بستہ عرض کریں گے کہ اگلی اے پی سی میں
خادم حسین رضوی کو ضرور بلائیں تاکہ تحریکِ انصاف کے جلسوں میں ہونے والے
’’میوزیکل کنسرٹ‘‘ کی کمی پوری کی جاسکے۔
اب آتے ہیں اپنے اصل موضوع یعنی’’ این آر او ‘‘ کی طرف۔ وزیرِاعلیٰ پنجاب
میاں شہباز شریف سعودی شاہ سلیمان کی خصوصی دعوت پر اُن کی طرف سے بھیجے
گئے خصوصی طیارے میں سعودی عرب کے دَورے پر روانہ ہوئے تو شور مچ گیاکہ این
آر او ہونے جا رہا ہے۔ ہمارے کپتان نے بھی عجیب خواہشات پال رکھی ہیں۔ وہ
تو پرویز مشرف دَور سے ہی وزارتِ عظمیٰ کے اُمیدوار ہیں۔ مشرف نے اُنہیں
یقین دلا دیا تھا کہ 2002ء کے انتخابات کے بعد وہی ملک کے وزیرِاعظم ہوں گے
لیکن اِن انتخابات میں کپتان صرف اپنی ہی سیٹ نکال سکے اور پرویز مشرف نے
آنکھیں پھیر لیں۔ 2008ء کے انتخابات میں کپتان نے حصّہ ہی نہیں لیا اور
2013ء میں اُنہیں دوتہائی اکثریت کا یقین دلا دیا گیا لیکن بازی لے گئی
نوازلیگ۔ تب کپتان کو یقین ہو گیا کہ سیدھے ہاتھوں تو وزارتِ عظمیٰ ملنے سے
رہی اِس لیے اُنہوں نے اُنگلیاں ٹیڑھی کرکے احتجاجی سیاست کی راہ اپنالی۔
کچھ خفیہ ہاتھ اُن کی پُشت پر تھے جن کی اُنگلی اُٹھنے کا انتظار کرتے وہ
تھک گئے لیکن وہ ہاتھ تو سرہانے دھرے دھرے سو گیا تھا جس کی اُنگلی میں
کپتان کی تقدیر نہاں تھی۔
پاناما کیس میں میاں نوازشریف کی نااہلی کے بعد کپتان کی اُمیدوں کو مہمیز
ملی اور آجکل وہ پوری شَدومَد کے ساتھ وزارتِ عظمیٰ کے سفر پر رواں دواں
ہیں لیکن تحریکِ انصاف کو مسٔلہ یہ درپیش ہے کہ کپتان ’’سولو فلائیٹ‘‘ پہ
یقین رکھتے ہیں۔ وہ چاہتے ہیں کہ ’’گلیاں ہو جان سُنجیاں ،وِچ مرزا یار
پھرے‘‘ لیکن سیاست میں ایسا ہوتا ہے نہ ہو سکتا ہے۔ اُدھر نون لیگ بھی
اُنہیں پریشان کرنے کے لیے کوئی نہ کوئی شرارت کرتی رہتی ہے۔ بھلا میاں
شہبازشریف کو سعودی عرب جانے کی کیا ضرورت تھی اوروہ بھی سعودی شاہ کی طرف
سے بھیجے جانے والے خصوصی طیارے میں۔ خادمِ اعلیٰ نے کپتان کو ’’ایویں
خوامخواہ ‘‘پریشان کر دیا۔ اب کپتان کہتے ہیں کہ میاں برادران نئے این آر
او کے لیے سعودی عرب گئے ہیں ۔ وہ شاہ سلیمان تو کیا ٹرمپ کے ’’گِٹّے گوڈے‘‘
بھی پکڑ لیں تو پھر بھی اُنہیں چھوٹ نہیں ملے گی۔ اُنہوں نے کہا ’’اگر اِس
بار چھوٹ ملی تو عوام سڑکوں پر ہوں گے‘‘۔ آصف زرداری بھی کہتے ہیں کہ
نوازشریف کو سعودیہ سے این آر او نہیں ملے گا۔
سوا ل مگر یہ ہے کہ نوازلیگ کی مقبولیت سے خوفزدہ پیپلزپارٹی اور تحریکِ
انصاف کِس این آر او کی بات کر رہی ہیں۔ پیپلزپارٹی کے ساتھ ایک این آر او
پرویزمشرف نے کیا تھا حالانکہ قاف لیگ اِس کی شدید مخالف تھی کیونکہ اُسے
یقین تھا کہ اِس این آر او کی بدولت بینظیر اور نوازشریف کی واپسی کی راہیں
ہموار ہو جائیں گی اور قاف لیگ ’’نُکرے‘‘ لگ جائے گی اور پھر ہوا بھی وہی۔
قاف لیگ کی سیاست کو این آر او کا ایسا گھُن لگا کہ اب وہ کہیں نظر نہیں
آرہی۔ وہ این آر او ایک ہمہ مقتدر شخص نے زیرِعتاب سیاسی جماعتوں کے ساتھ
کیا تھالیکن اب تو حکومت جیسی بھی ہے بہرحال نوازلیگ ہی کی ہے تو پھر کیا
نوازلیگ اپنے ساتھ ہی این آر او کرے گی؟۔
اگر ایسا نہیں تو پھر کیا پیپلزپارٹی اور تحریکِ انصاف فوج کو ہمہ مقتدر
سمجھتی ہیں جس کے ساتھ این آر او کیا جائے گا؟۔ یہاں سوال یہ پیدا ہوتا ہے
کہ کیا ہمارے سپہ سالار سعودی حکومت کے تابع ہیں جو اُن کے حکم پر سرِتسلیم
خم کر لیں گے؟۔ سپہ سالار متعددبار اعادہ کر چکے ہیں کہ فوج جمہوریت کے
ساتھ ہے اور اُس کا سیاسی معاملات سے کوئی تعلق نہیں۔ فوجی ترجمان ڈی جی
آئی ایس پی آر تو سیاست پر بات کرنے کو بھی تیار نہیں ہوتے تو پھر
پیپلزپارٹی اور تحریکِ انصاف نے کیسے یہ سمجھ لیا کہ این آر او ہونے جا رہا
ہے۔ کیا وہ یہ سمجھتی ہیں کہ فوج کے قول وفعل میں تضاد ہے؟۔
اگر فوج نہیں تو پھر کیا عدلیہ کے ساتھ این آر او ہونے جا رہا ہے؟۔ اگراِن
سیاسی جماعتوں کی یہی سوچ ہے تو پھر کیا ہماری محترم عدلیہ سعودی حکومت کے
ماتحت ہے اور اُس کے فیصلوں میں شاہ سلیمان کی رضا شامل ہوتی ہے ؟۔ اِن
سیاسی جماعتوں کے ا ذہان میں یہ خیال بھی ہوسکتا ہے کہ سعودی حکومت فوج پر
دباؤ ڈالے گی ، فوج عدلیہ پر اور اِس طرح این آر او جنم لے گا ۔اگر ایسا ہے
تو یہ انتہائی گھٹیا سوچ ہے کیونکہ اِس طرح یہ جماعتیں اپنے دو انتہائی
محترم اداروں کو بدنام کرنے کا باعث بن رہی ہیں۔ |