پاکستان کی سیاست میں بھی طرح طرح کے سینکڑوں رنگ بھرے
ہیں۔ہر سیاسی جماعت اپنے عجیب رنگ ڈھنگ اور اسٹائل سے پہچانی جاتی
ہے۔پاکستان ایک ایسا ملک ہے جہاں پر بڑے سے بڑا جر م کر کے آپ سیاسی جماعت
بنا کر بیٹھ جائیں توسمجھیں مذکورہ جرم سے 50% تو گلو خلاصی ہوگئی باقی
50%سے بھی نمٹ ہی لیا جائے گا۔یوں تو اس حوالے سے بہت ساری مثالیں پیش کی
جا سکتی ہیںیہاں پر پرویز مشرف کو بھی اس مثال کے لئے پیش کیا جا سکتا
ہے۔جس نے ملک میں مارشل لاء لگانے کا جرم کیا اور ملک کے قانون کی کئی
مرتبہ شدید خلاف ورزی بھی کی۔جس کی سزا تختہِ دار ہے۔مگر وہ سیاسی رہنما بن
کر ملک سے باہر بیٹھ کر پاکستان کے آئین و قانون کو آنکھیں دکھا رہا
ہے۔پاکستان میں چند بڑی سیاسی جماعتوں کے علاوہ اکثر ٹانگہ پارٹیاں ہیں۔ان
میں سے بعض موسمی پارٹیاں ہیں اور بعض کال بوئے ٹائپ پارٹیاں ہیں۔کال بوئے
ٹائپ پارٹی سے ہر بڑی سیاسی پارٹی کرایہ داری کے حساب سے اپنا تعلق پیدا کر
کے ملک میں وقتی بد نظمی اور انتشار پھیلا نے میں مدد حاصل کر سکتی ہے۔
پاکستان مسلم لیگ ن کی حکومت کے خاتمے کی غرض سے ہفتہ30 دسمبر کو پاکستان
کی40 چھوٹی بڑی سیاسی جماعتوں کے ملغوبہ (APC)آل پارٹیز کانفرنس کے نام سے
لاہور میں سر جوڑ کر بیٹھیں۔اس بہان متی کے کنبے (بھان متی کا کنبہ کا
کُنبہ ،محاورا ہے جوایسے ہی گروہوں کیلئے استعمال ہوتا ہے۔ محاؤرہ اس طرح
ہے’’ کہاں کی اینٹ کہاں کا روڑا بھان متی نے کنبہ جوڑا‘‘ بھان متی کے کنبے
کے ان تمام کے تمام سیاسی یتیموں میں کہیں بھی مماثلت ہے اور نہ ہم آہنگی)
میں،مطالبے تو ان تمام چھوٹی بڑی جماعتوں نے کئی کئے ۔مگر ایجنڈا سب کا ایک
تھا کہ ملک سے ن لیگ کے اقتدار کا خاتمہ کیاجائے۔کال بوئے پارٹی کے سربرا ہ
(جنہیں لوگ علامہ کے لقب بھی پکارتے ہیں)طاہر القادری اس وقت ایک مرتبہ
پھرغالباََ نیازی گروپ کی آشیر واد سے ملک میں انتشار کی سیاست کو پروان
چڑھانے کے لئے بلا لئے گئے ہیں۔جن کے ماضی کا نعرہ ہے ’’سانحہ ماڈل
ٹاؤن‘‘جس پر رانا ثناء اللہ سے قصاص و دیت کی بات کرنے کی غرض سے ان کے
ساتھی خرم نواز گنڈاپورچار مرتبہ ملاقات بھی کر چکے ہیں ،کو اٹھا کر پھر
میدانِ سیاست گر م کرنے کی تگ و دو میں لگے ہوئے ہیں۔ طاہر القادری کا
مطالبہ تھا کہ نجفی کمیشن کی رپورٹ آنے کے بعد رانا ثناء اللہ اور شہبار
شریف 30دسمبر تک اپنے عہدوں سے استعفیٰ دیں ۔مگر جب انہوں نے محسوس کر لیا
کہ حکومتِ پنجاب ان کے مطالبے پر ٹس مس نہیں ہوئی ہے۔ تو موصوف نے کسی
اشارے پر اے پی سی کا ڈول ڈال دیا کہ شائد کوئی نتائج برآمد ہوجائیں۔اے پی
سی میں کمرا بند کر کے حکومتِ وقت کے لئے بھانت بھانت کی بولیاں بولی
گئیں۔مگر نا اتفاقی اِن کیمرہ اجلاس میں بھی چھپائے نہ چھُپی۔
ان سیاسی بازیگروں میں تیسرے نمبر کی بڑی سیاسی( جماعتوں، ٹانگہ پارٹیوں کے
علاوہ) ایم کیو ایم نے دورانِ سیشن ہی ان تمام کے ایجنڈے سے کھل کر نا
اتفاقی کا اظہار کیا۔متحدہ قومی موومنٹ کا شہباز شریف اور رانا ثناء اللہ
کو ذمہ دار ٹہرانے پر اعتراض تھا ۔جب ان کی بات کوبھان متی کے ٹولے نے
ماننے سے انکار کر دیا توایم کیو ایم کے رہنما فارق ستار اپنے ساتھیوں کے
ہمراہ اے پی سی کا بائکاٹ کر کے چلے گئے۔اس طرح بھان متی کے کنبے کی دراڑیں
کھل کرسامنے آگئیں اس کے علاوہ بھی یہ کوئی کامیاب اے پی سی نہ تھی کیونکہ
یہاں پر اہم سیاسی پارٹیوں کی بھی دوسرے نمبر کی قیادت کو بھیجا گیا تھا جن
میں عمران نیازی،آصف علی زرداری،سراج الحق،اور چوہدری شجاعت کی غیر موجودگی
کی وجہ سے یہ کوئی کامیاب اے پی سی نہ تھی ۔یہاں ایسی کئی پارٹیاں بھی تھیں
جو ایک دوسرے کو برداشت کرنے کو بھی تیار نہیں ہیں مزید یہ کہ دو اہم سیاسی
جماعتوں جمیعتِ علماءِ اسلام اور اے این پی کی موجودگی بھی نہیں تھی۔بڑی
عجیب بات یہ ہے کہ طاہر القادری اب کی مرتبہ بھی اپنی ناکامی چھپانے میں
بری طرح سے ناکام ہوئے ہیں ۔جس کی وجہ سے انہیں اپنے مطالبے سے پیچھے ہٹنا
پڑا اور اے پی سی نے ان کے مطالبے کو مزید آ ٹھ دن کیلئے آگے بڑھا دیا ہے۔
لگتا یوں ہے کہ شیخ رشید پی پی پی اور پی ٹی آئی کی اگر مگر کی پالیسی اور
اسمبلیوں اور سینٹ سے مستعفی نہ ہونے اور خیبر پختون خوا اور سندھ کی
حکومتیں تحلیل کر کے مسلم لیگ ن کے لئے سیاسی افراتفری پھیلانے کے حوالے سے
ان کی ہچکچاہٹ کی پالیسیوں سے خوش نہیں ہیں ۔کیونکہ پیپلز پارٹی اور تحریکِ
انصاف ابھی تک مشترکہ استعفوں سندھ اور کے پی کے اسمبلیوں کی تحلیل پر مکمل
طور پر تیار دکھائی نہیں دیتی ہیں۔دوسری اہم بات یہ بھی ہے کہ عمران نیازی
آنے والے انتخابات سے قبل پیپلز پارٹی سے اپنا فاصلہ شائد قائم رکھنے کی
کوشش کررہے ہیں۔حکومت مخالف ہمارے سیاسی کھلاڑیوں کا معاملہ اس وقت کچھ
ایسا ہے’’گوئم مشکل ،وگرنہ گوئم مشکل‘‘عمران نیازی کے اشاروں پر پر محترم
طاہر القادر ایک مرتبہ پھر سیاسی و( مذہبی) مہم جو ئی پر نکل تو پڑے ہیں
مگر انہیں کامیابی کے دور دور تک نشان نظر نہیں آرہے ہیں ۔ اب ان کی کوشش
یہ ہوگی کہ ٹانگہ پارٹیوں کے ساتھ مل کر دھرنا سیاست کریں اور ملک میں
افراتفری کو آگے لے جائیں جو در حقیقت اسرائیل اور امریکہ کا اس وقت ایجنڈا
ہے۔مگر پاکستانی قوم ایسے ہتھکنڈوں میں آنے والی نہیں ہے۔ بہان متی کا یہ
سارا کنبہ منہ دیکھتا رہ جائے گا ۔
|