پاک امریکہ کشیدگی

’’امریکا نے گزشتہ 15 برسوں میں اسلام آباد کو احمقوں کی طرح 33 ارب ڈالر امداد کی مد میں دیے لیکن بدلے میں اسے جھوٹ اور دھوکہ ملا‘‘یہ وہ الفاظ ہیں جوگذشتہ روز امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے ایک بار پھر پاکستان کو تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے اپنے ایک ٹویٹ میں کہے بظاہر تو یہ چند الفاظ ہیں لیکن سوشل میڈیا پہ آتے ہی ان الفاظ نے پاکستان میں ایک تلاطم پیدا کردیا بدمست ہاتھی کی طرح امریکی صدر نے پاکستان اور پاکستانی قوم پر انتہائی سنگین الزامات عائد کئے ہیں پاکستان کیخلاف ٹویٹ انتہائی غیر ذمہ دارانہ ، نا پسندیدہ ، ہتک آمیز ، غیر اخلاقی اور تکبر و غرور پر مبنی ہے اس ٹویٹ کے بعد جہاں پاکستان کے عسکری،سیاسی اور عوامی حلقوں کی جانب سے شدید ردعمل سامنے آیا وہاں پاکستان کے مخلص اور دیرینہ دوست ملک چین کا پاکستان کی حمایت میں کھل کر سامنے آنا زبردست اہمیت کا حامل ہے میڈیارپورٹ کے مطابق چین نے کہا ’’ عالمی برادری کو دہشت گردی کے خلاف جنگ میں پاکستان کی غیر معمولی خدمات کو تسلیم کرنا چاہیے پاکستان دہشت گردی کے خلاف جنگ میں بہت قربانیاں دے چکا ہے اور انسداد دہشت گردی کے عالمی مقصد کیلئے اس کی خدمات غیر معمولی ہیں، عالمی برادری کو انہیں تسلیم کرنا چاہیے۔ پاکستان علاقائی سلامتی اور استحکام کے لیے اپنا کردار ادا کرنے کی غرض سے باہمی احترام کی بنیاد پر انسداد دہشت گردی سمیت عالمی تعاون میں مصروف ہے چین اور پاکستان تمام موسموں کے دوست ہیں ‘‘ہنگامی طور پہ کورکمانڈرز کانفرنس اور قومی سلامتی کمیٹی کے اجلاس ہوئے جس میں امریکی صدر کے ٹویٹ کی شدید مذمت کی گئی-

امریکہ صدرجس رقم کوا مدادکو سمجھتا ہے درحقیقت وہ افغان جنگ میں پاکستان کے قومی وسائل استعمال کرنے کی مدمیں دی گئی تھی جبکہ پاکستان نے اس رقم سے کئی ہزارگنازیادہ اس کی قیمت نہ صرف چکائی بلکہ مسلسل چکارہا ہے بے وقوف ٹرمپ کو اندازہ ہی نہیں کہ افغان جنگ سے پاکستان میں کتنی تباہی ہوئی یہ جنگ ہماری اپنی نہیں بلکہ غیروں کی تھیپھر بھی ہم نے لڑی، ملک نے دہشت گردی کے خلاف 70 ہزار قربانیاں دیں اور نجانے آئندہ بھی ہمیں کتنی قربانیاں اوردینا پڑیں گی امریکی صدر کی جانب سے بتائی گئی امداد سے چار گنا زیادہ یعنی 123ارب ڈالر کا پاکستان کو نقصان کا سامنا کرنا پڑا ۔دہشت گردی کیخلاف پاکستان نے بے شمار قربانیاں دیں پاکستان نے دہشت گردوں کے خلاف بلاتفریق کارروائی کرکے ان کے ٹھکانے ختم کئے ہیں جبکہ امریکہ کا افغانستان میں دہشت گردوں کی پناہ گاہوں کیخلاف کارروائی نہ کرنا دوہرا معیار ہے افغانستان میں جاری امریکی مشن کے لئے امریکی ہماری ایئر بیس کا استعمال کرتے ہیں ہمیں امداد کا طعنہ دینے والے پاکستانی ایئر بیس کو ’’بلا معاضہ‘‘ استعمال میں لاتے ہیں کراچی سے لے کر خیبر پھر افغانستان تک ہمارے زمینی راستوں تک ان کی رسائی پاکستان کے بغیر ممکن نہیں امریکی حکام کو جان اور سمجھ لیناہوگاکہ پاکستان کو تمہاری امداد کی ضرورت نہیں بلکہ خود امریکہ کو افغانستان میں امن کے قیام کے لئے پاکستان کے تعاون کی ضرورت ہے اگر ہم نیٹو سپلائی کا راستہ بند کردیں تو امریکیوں کو چھٹی کا دودھ یاد آجائے گا اب ’’ڈو مور کا نہیں بلکہ نو مور‘‘ کاوقت آگیا ہے نیٹو سپلائی بند کر کے خوددار بننے کا مرحلہ ہے بے وقوفوں سے جان چھڑانے اورپڑوسی ممالک سے راستے بحال کرنے کا سنہری موقع ہے پاکستان میں چلنے والی تمام امریکی این جی اوز فوری طور پر بند کردی جائیں افغانستان امن میں ناکامی کا’’ ملبہ اور نزلہ‘‘پاکستان پہ گرانا عقل مندی نہیں بلکہ بیوقوفی ہے وطن عزیز پاکستان کی عوام ہی نہیں ،پوری دنیا ٹرمپ کو پاگل، بے وقوف اور بدمست ہاتھی سمجھتی ہے واضح رہے کہ 27امریکی ماہرین نے ٹرمپ کو پاگل وبے وقوف قرار دیا جب امریکی ماہرین خود اپنے صدر کو پاگل و بے وقوف سمجھیں تو پھر پاکستانیوں کو کیا ضرورت ہے کہ امریکی صدر کو بیوقوف بنائے جو پہلے سے ہی بے وقوف ہو اسے بے وقوف اور احمق بنانے کی کیا ضرورت ہے۔۔؟ملک کے تمام طبقے، سیاسی جماعتیں، قائدین، عسکری قیادت اور دوسرے سٹیک ہولڈرز ایک پیج پر ہیں حالات کے اس نازک موڑ پر پاکستان اندرو نی سطح پر انتشار انگیز سرگرمیوں اور قومی یکجہتی کے منافی رویوں کا کسی طور متحمل نہیں ہو سکتاپاکستان ایک آزاد اورخودمختارریاست ہیں۔پاکستان کی عسکری ،سیاسی اور عوامی قیادت قومی وحدت اورقومی سلامتی پرآنچ نہیں آنے دیں گے ملک کے دفاع اورسلامتی کیلئے پوری قوم اپنے تمام سیاسی اور گروہی اختلافات کو پس پشت ڈال کر افواج پاکستان اور ریاست کیساتھ کھڑی ہے پاکستان اپنے مفادات اور سرحدوں کے دفاع کیلئے ہر وقت چوکنا ہے وطن عزیز کا ہر فرداینٹ کا جواب پتھر سے دینا جانتا ہیپاکستان کوترنوالہ سمجھنا بدترین غلطی ہوگی۔

Dr B.A Khurram
About the Author: Dr B.A Khurram Read More Articles by Dr B.A Khurram: 606 Articles with 525315 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.