دہشتگردی،حکومتی کردار اور سدباب

دنیا میں کوئی جنگ آج تک عوام کے تعاون کے بغیر نہیں جیتی جا سکی اور نہ ہی کوئی عوامی حکومت عوام کی مرضی اورتعاون کے بغیر کسی جنگ کا خطرہ مول لیتی ہے۔لیکن یہ بات بھی سچ ہے کہ ہم اک مدت تک آمروں کی قید میں رہے ہیں لیکن دہشتگردی کے حوالے سے آمروں کی پالیسیاں جمہوری حکومت سے قدرے بہتر تھی آج پاکستان میں جمہوری دور کا دور دورہ ہے اور ہم بعض لوگوں کی نظر میں بہترین جمہوری دور سے گزر رہے ہیں ہماری موجودہ عظیم جمہوری حکومت دنیا کی وہ واحد حکومت ہے جو عوام کے تعاون کے بغیر دہشت گردی کی جنگ لڑ رہی ہے۔یہ بات بھی کافی حد تک ٹھیک ہے کہ حکومت شاید عوام کو اس قابل ہی نہیں سمجھتی کہ اْسے اعتماد میں لیا جائے۔ ہم 2002ء سے دہشت گردی کا شکار ہیں۔ یہ جنگ ہمارے گلی محلوں، شہروں، سکول و کالج تک پہنچ چکی ہے جس کی بدترین مثال 16 دسمبر 2014 کو آرمی پبلک سکول پشاور میں ہونے والا دہشتگردی کا واقعہ ہے جس میں کم از کم ڈیڑھ سو سے زائد پھولوں کو مسل دیا گیا تھا اور خوف کی اک دیوار کھڑی کردی گئی تھی۔ ملک کی کوئی بھی جگہ محفوظ نہیں۔ درجنوں کے حساب سے لوگ ایک ایک واقعے میں شہید ہورہے ہیں۔ سینکڑوں کے حساب سے زخمی ہوتے ہیں اور ساری زندگی معذور بن کر زندگی گزارتے ہیں۔پوری قوم نفسیاتی مریض بن چکی ہے۔ کتنے گھر اْجڑ چکے ہیں۔ کتنے بے گناہ لوگ اس نامراد اور بے تْکی جنگ کی بھینٹ چڑھ چکے ہیں۔ ہر واقعے کے بعد صدرِ محترم، وزیر اعظم صاحب اور دوسرے حکومتی کارندے حادثے کی پر زور مذمت کرتے نظر آتے ہیں اْس کے بعد پھر چل سو چل۔ بعض اوقات مرنے والوں کے ورثاء کے لیے کچھ رقم کا اعلان بھی کیا جاتا ہے جن کے گھر کا سربراہ ہی مر جائے یہ عمر بھر کے لیے معذور ہو جائے وہ پانچ سات لاکھ کو لے کر کیا کرے گا۔ہونا تو یہ چاہیے کہ جلد از جلد حادثے کے محرکات کا پتہ لگا کر اس کو جڑ سے اتار پھینکا جائے لیکن ندارد۔ وزیر داخلہ صاحب واقعے کی مذمت کرتے ہوئے اکثر ان الفاظ میں گوہر افشانی فرماتے ہیں کہ’’ دہشت گرد ہمارے عزم کو شکست نہیں دے سکتے۔ہم دہشت گردی کو جڑ سے اکھاڑ کر ہی دم لیں گے۔دہشتگرد دور پار سے آئے تھے‘‘ ازبک تھے،افغانی تھے وغیرہ وغیرہ۔ ہم نے دہشت گردی کی کمر توڑ دی ہے۔ دہشت گرد مسلمان نہیں ہیں۔دہشت گرد انسان نہیں ہیں۔‘‘وغیرہ وغیرہ وہ جو کچھ بھی ہیں اپنا کام دیدہ دلیری اور ہمت حوصلے سے کر رہے ہیں اور اپنا ہر ٹارگٹ کو کامیابی سے پورا کرتے نظر آتے ہیں حکومتی بیانات صرف بیان کی حد تک ہی ہوتے ہیں ہم اس کو رسمی کاروائی بھی کہہ سکتے ہیں ایسے حکومتی بیانات عوام کے زخموں پر نمک چھڑکنے کے مترادف ہیں اور خصوصاً اس لحاظ سے کہ مرنے والوں میں ان بڑے لوگوں کا کوئی عزیز رشتہ دار شامل نہیں ہوتا۔ نہ ہی ان کا کوئی عزیز رشتہ دار فوج کے اْن دستوں میں شامل ہے جو وزیرستان کی یخ بستہ ہواؤں میں اپنے وطن کی حفاظت کے لیے لڑ رہے ہیں۔ یہ حکومتی ’’بچے‘‘ اتنی بلندی اور اتنے حفاظتی قلعوں میں پْر تَعیّش زندگی گزار رہے ہیں جہاں تک ان شعلوں کا اثر تو کیا دھواں تک بھی نہیں پہنچ سکتا۔ان کے شہزادے تو بی ایم ڈبلیو اور مرسیڈیز کاروں میں پولیس حفاظتی سکواڈ کے ساتھ ہی باہر نکلتے ہیں۔ اس لیے بھلا ان عیش و عشرت میں ڈوبے ہوئے حفاظتی حصاروں میں رہنے والے اور حفاظتی گھیروں میں باہر نکلنے والے عوامی اور جمہوری راہنماؤں کو عوام کے دکھ درد کا کیا پتہ۔ ان میں کسی کا ہاتھ پکڑ کر روتی سسکتی بوڑھی مائی جیواں کے پاس لے جایا جائے جس کا واحد بیٹا اور واحد کفیل لاہور آر اے بازار کے خود کش دھماکے میں شہید ہو گیا جس کا کہنا ہے ’’اگر اِن کے اپنے مرتے تو انہیں پتہ چلتا۔ خدا کرے کہ یہ بھی ہماری طرح ‘‘آگے میرے پاس الفاظ نہیں ہیں اور انکو اس ماں کے پاس بھی کے جایا جائے جس کا اکلوتا بیٹا اور چھ بہنوں کا بھائی چیئرنگ کراس میں ہونے والے دھماکے میں مارا گیا۔معذرت خواہ ہو ں کہ بات ذرادوسری طرف چلی گئی ہے۔ جنگ تو قوموں کی تاریخ کا حصہ ہے۔ اس کے بغیر کوئی قوم کندن نہیں بنتی اور اس کے بغیر تاریخ مکمل نہیں ہوتی بقول مْفکر‘‘ جنگ ایک مسلسل عمل ہے جس سے کسی قوم کو طاقت ور اور کمزور کیا جاسکتا ہے ہار اور جیت کو پس پْشت ڈال کر جنگ لڑنے والی قوم کْندن بن جاتی ہے‘‘ مگر افسوس یہ ہے کہ جنگ اس طرح غیر ذمہ دارانہ انداز میں نہیں لڑی جاتی جس طرح ہماری حکومت لڑ رہی ہے۔’’لڑنے‘‘ کا لفظ استعمال کرنا بھی شاید زیادتی ہے بلکہ جس طرح ہماری حکومت اپنے بے گناہ لوگوں کو ’’مروا‘‘ رہی ہے۔کیا حکومت کے چند بے تکے ، منافقانہ، اور بے مقصد بیانات مرنے والے خاندانوں کے غم کا مداوا کر سکتے ہیں یقیناً آپ کے پاس اس بات کا جواب نہیں میں ہوگا ؟ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا پاکستان واحد ملک ہے جسے دہشت گردی کا سامنا ہے ؟ نہیں ایسا نہیں ہے اور بھی کئی ایک ممالک اس کا شکار ہوئے ہیں لیکن انہوں نے مناسب حکمت عملی اور مو?ثر اقدامات سے حالات پر قابو پا لیا۔دور کیوں جائیں اپنے برادر ممالک ایران اور سعودی عرب ہی کی مثالیں لے لیں۔ انہیں ہم سے زیادہ خطرات ہیں لیکن انہوں نے دہشت گردوں کو فوری اور عوام کے سامنے مثالی سزائیں دیکر دہشتگردی پر قابو پا لیا۔سعودی حکومت حوثی باغیوں کے خلاف بھرپور جنگ لڑ رہی ہے اور اس کے اندرونی حالات میں کوئی خلفشار بھی نہیں ہے اسے کہتے ہیں مو?ثر قیادت اور قومی مفادات کا تحفظ۔ بنگلہ دیش اور سری لنکا نے بھی ایسے ہی حالات کا مقابلہ کیاہے اور کر رہے ہیں۔ہمارے ہاں حکومتی بلند و بانگ دعووں کے برعکس دہشتگردی میں ہر سال مسلسل اضافہ ہو رہا ہے۔ پہلے قبائلی علاقوں اور خیبر پختواہ کے کچھ علاقوں تک محدود تھی مگر اب یہ پاکستان کے تمام شہروں تک پھیل چکی ہے اور روز بروز بڑھ رہی ہے۔ آئے روز کہیں نہ کہیں دھماکہ ہو جاتا ہے اس کی تازہ ترین مثال گزشتہ دنوں کوئٹہ میں چرچ پہ ہونے والا حملہ ہے جہاں پْرامن اقلیت برادری کو بے دردی سے نشانہ بنایا گیا کئی لوگوں کوہلاک اور درجنوں معصوم لوگوں کو زخمی کیا گیا کوئی بھی دھماکہ ہوتا ہے تو اس کی ذمہ داری تحریک طالبان کی سے قبول کی جاتی ہے واﷲ اعلم وہ قبول کرتے بھی ہیں یا میڈیا چینل اپنی ریٹنگ کے چکر میں جھوٹی خبر چلادیتے ہیں۔اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ ہم کس کے خلاف جنگ لڑ رہے ہیں۔ 35 سے 40ہزار سے زیادہ فوجی شہید ہو چکے ہیں۔ زخمی اور معذور ہونے والے فوجیوں کی تعداد اس سے کہیں زیادہ ہے۔ اگر ہم طالبان کے خلاف جنگ لڑ رہے ہیں تو حکومتی اور فوجی بیانات کے مطابق سوات، مالاکنڈ، باجوڑ، خیبر ایجنسی، اورکرزئی ایجنسی اور وزیرستان سے طالبان کی صفائی ہو چکی ہے یا وہ علاقے سے بھاگ کر کہیں روپوش ہو چکے ہیں۔ اْن کی صف اول کی تمام قیادت بھی ماری جا چکی ہے۔باقی ماندہ طالبان پہاڑوں میں چھپے ہوئے ہیں۔اْن کا نیٹ ورک بھی توڑا جا چکا ہے تو پھر وہ اتنے طاقتور کیسے ہو گئے ہیں کہ پاکستان کے ہر شہر اور ہر گلی میں دھماکے کرا لیں۔ہمارے وزیر داخلہ کے بیانات کے مطابق کوئی بیرون ملک کی ایجنسی بھی پاکستان میں موجود نہیں۔پنجاب کے وزیر قانون کے بیانات کے مطابق جنوبی پنجاب میں بھی کوئی طالبان موجود نہیں جبکہ حقائق اس کے برعکس ہیں۔ ہمارے مذہبی اور حکومتی رہنماؤں کے مستند بیانات کے مطابق ہمارے دینی مدارس میں نہ تو طالبان ہیں اور نہ ہی دہشت گردی کی تعلیم دی جاتی ہے اور تو اور کالعدم بنیاد پرست مذہبی تنظیموں کو بھی دھماکوں سے بری الذمہ قرار دے دیا گیا ہے بلکہ پنجاب کے وزیر قانون نے تو انہیں قطعاً بیگناہ قرار دیا ہے۔میں مدرسوں کو تنقید کا نشانہ نہیں بنارہا صرف اپنا خیال پیش کررہا ہوں تو پھر یہ کون لوگ ہیں جنہوں نے پاکستان میں تباہی مچا رکھی ہے؟ ہر خود کش حملے کے بعد حملہ ا?وروں کے سر اوراعضاء بھی ملتے ہیں۔ مشتبہ لوگ بھی پکڑے جاتے ہیں۔ حتیٰ کہ خود کش جیکٹس سمیت بھی لوگ پکڑے گئے ہیں۔ہمیشہ حکومتی بیان ہوتا ہے کہ ایسے لوگوں کو نامعلوم مقام پر پہنچا دیا۔ہمیں بھی معلوم ہونا چاہیے کہ یہ کیسا نامعلوم مقام ہے جہاں انکو لے جایا جاتا ہے اور ان کی بھنک تک نہیں ملتی اور دہشتگردی کا کام ویسے ہی جاری وساری رہتا ہے۔ہم سب کو اجتماعی طور پہ دعا کرنی چاہیے کہ اﷲ دہشتگردی کے ناسور سے ہماری جان چْھڑوائے اور پاکستان کو حقیقی امن نصیب فرمائے
 

Fareed Ahmed Fareed
About the Author: Fareed Ahmed Fareed Read More Articles by Fareed Ahmed Fareed: 51 Articles with 42298 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.