آخر کار امریکہ نے پاکستان کے خلاف فیصلہ کرتے ہوئے اسے
دی جانے والی 255ملین ڈالر کی امداد روکنے کا اعلان کردیا۔ امریکی صدر
ڈونلڈ ٹرمپ نے نئے سال کے موقع پر ٹوئٹ کرتے ہوئے اپنے ایک پیغام میں لکھا
تھا کہ گذشتہ پندرہ برسوں میں پاکستان کو 33ارب ڈالر کی امداد دینا بیوقوفی
تھی کیونکہ اس کے بدلے پاکستان نے امریکہ کو سوائے جھوٹ اور دھوکہ دہی کے
کچھ نہیں دیاہے۔ امریکی صدر کے ٹوئٹ کئے جانے والے بیان کی تصدیق کرتے ہوئے
وائٹ ہاؤس کا کہنا ہے کہ امریکہ دہشت گردی کے خلاف جنگ میں پاکستان کو مزید
اقدامات کرتے دیکھنا چاہتا ہے۔ 2؍ جنوری کونیویارک میں مقیم اقوام متحدہ کی
مستقل سفیر نکی ہیلی نے پاکستان پر دہشت گردوں کو پناہ دینے اور ڈبل گیم
کھیلنے کا الزام عائد کیا اور امداد روکنے کی تصدیق کی۔ ذرائع ابلاغ کے
مطابق نکی ہیلی کا کہنا ہیکہ وہ( پاکستان) اکثر ہمارے ساتھ کام کرتے ہیں
اور افغانستان میں ہماری فوجوں پر حملے کیلئے دہشت گرد بھی بھیجتے ہیں۔ یہ
کھیل امریکہ انتظامیہ کے لئے قابلِ قبول نہیں ہے۔ ہم دہشت گردی کے خلاف
لڑائی میں پاکستان سے کہیں زیادہ تعاون کی توقع رکھتے ہیں۔ نکی ہیلی کے
علاوہ وائٹ ہاؤس کی ترجمان سارہ سینڈرز نے وائٹ ہاؤس کی پریس بریفنگ میں
صحافیوں کے سوالات کا جواب دیتے ہوئے کہا کہ ’’ہم جانتے ہیں کہ پاکستان
دہشت گردی روکنے کے لئے مزید اقدامات کرسکتا ہے اور ہم چاہتے ہیں کہ وہ
ایسا کریں۔ یہ سادہ سی بات ہے‘‘۔ امریکی صدر ٹرمپ کے بیان کے بعد پاکستان
میں ہلچل مچ گئی اور حکومتِ پاکستان نے اپنے ردعمل کا اظہار کرتے ہوئے
امریکی صدر و انتظامیہ کو یہ باور کرانے کی کوشش کی کہ امریکہ اور پاکستان
کو مل کر کام کرنا ہوگا کیونکہ منفی بیان بازی سے اہداف حاصل نہیں کئے
جاسکتے۔ٹرمپ کے ٹویٹ کے بعد پیدا ہونے والی صورتحال کا جائزہ لینے کے لئے
2؍ جنوری کو اسلام میں وزیراعظم شاہد خاقان عباسی کی صدارت میں قومی سلامتی
کمیٹی کا ہنگامی اجلاس منعقد ہوا جس میں وزیر خارجہ، وزیر داخلہ، وزیر
دفاع، مسلح افواج کے سربراہان سمیت کئی اعلیٰ شخصیات نے شرکت کی۔وزیراعظم
پاکستان کی صدارت میں ہونے والے اجلاس کے بعد وزیر دفاع خرم دستگیر نے
صحافت سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ چند ماہ سے صدر ٹرمپ سمیت کئی امریکی
عہدیداروں کی جانب سے سامنے آنے والے منفی بیانات کا جائزہ لیا گیا انہوں
نے بتایا کہ قومی سلامتی کے اس اجلاس میں طے پایا ہے کہ ’’مل کر اور تعاون
سے افغانستان میں امن کی جدوجہد کرینگے اور دہشت گردی کے خلاف لڑیں گے تو
ہمیں بہتر کامیابی ہوگی، بجائے یہ کہ ہم اپنی منفی بیان بازی سے اہداف حاصل
کرنے کی کوشش کریں۔ پاکستان کے اس موقف سے واضح ہوتا ہے کہ وہ امریکہ کی
امداد حاصل کرنے کے لئے دہشت گردی کے نام پر کچھ بھی کرنے تیار ہے۔ اس سے
قبل بھی امریکی صدر کی جانب سے وضع کی گئی قومی سلامتی کی حکمت عملی میں
پاکستان کے خلاف کہا گیا تھا کہ ’’ہم پاکستان پر اس کی دہشت گردی کے خاتمے
کے لئے جاری کوششوں میں تیزی لانے کیلئے دباؤ ڈالیں گے، کیونکہ کسی بھی ملک
کی شدت پسندوں اور دہشت گردوں کے لئے حمایت کے بعد کوئی بھی شراکت باقی
نہیں رہ سکتی ہے‘‘۔ امریکہ نے ان خطرات کا اظہار کرتے ہوئے کہاتھا کہ
پاکستان کے اندر سے کام کرنے والے شدت پسندوں اور دہشت گردوں سے امریکہ کو
مسلسل خطرات لاحق ہیں۔اس کے علاوہ حال ہی میں امریکی نائب صدر مائیک پینس
نے دورہ افغانستان کے موقع پر پاکستان سے کہا تھا کہ وہ افغانستان کی حکومت
کے خلاف لڑنے والے گروہوں کو محفوظ پناہ گاہیں فراہم نہ کرے۔ پاکستان دہشت
گردوں کو کہاں تک ساتھ دیتا ہے اس بارے میں کچھ کہا نہیں جاسکتا کیونکہ
پاکستانی حکومت اور فوج ان دنوں آپریشن ردالفساد کے ذریعہ جماعت الدعوۃ ہو
یا دیگر دہشت گرد تنظیمیں ان کے خلاف کارروائیاں انجام دینے کی بات کرتی
ہے۔پاکستانی حکومت کو چاہیے کہ وہ جماعت الدعوۃ کے سربراہ حافظ سعید جسے
ہندوستانی حکومت ممبئی حملوں کا ملزم گردانتی ہے اسکے اور ان جیسے دہشت
گردوں کے خلاف کارروائی کریں کیونکہ ان ہی دہشت گردوں کی وجہ سے پاکستان
عالمی سطح پر بدنام ہوچکا ہے اگر ابھی بھی پاکستانی حکومت دہشت گردوں کو
ملک سے ختم نہ کرے گی تو امریکہ کی جانب سے جس طرح امداد بن کردی گئی ہے اس
سے پاکستانی معیشت پر منفی اثر پڑے گا اور جب معیشت متاثر ہوگی تو ملک میں
خانہ جنگی کے حالات پیدا ہوسکتے ہیں اسی لئے پاکستانی حکومت کو چاہیے کہ وہ
کسی کے دباؤ میں آئے بغیر ملک سے دہشت گردوں کا خاتمہ کرے۔
یہاں یہ بات قابلِ ذکر ہیکہ امریکہ کی جانب سے پاکستان کے خلاف اچانک فیصلہ
ایک ایسے وقت سامنے آیا جب گذشتہ دنوں امریکی صدرٹرمپ نے اسرائیل کے
دارالحکومت یروشلم کو تسلیم کرنے اور امریکہ کے سفارت خانے کو تلِ ابیب سے
یروشلم منتقل کرنیکا فیصلہ کیا۔امریکہ کے اس فیصلہ کے خلاف عالمی سطح پر
احتجاج بلند ہوا اور مصر نے اقوام متحدہ کی سیکیوریٹی کونسل میں امریکہ کے
خلاف قرارداد پیش کی لیکن امریکہ نے اسے ویٹو کردیا اس کے بعد مصر نے اس
قرارداد کو اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی میں پیش کیا جہاں امریکی فیصلہ کے
خلاف قرار داد منظور ہوگئی۔ اب یہ الگ بات ہے کہ امریکی فیصلے کو کون روک
سکتا ہے یا پھر امریکہ اپنی من مانی اور ہٹ دھرمی کرتے ہوئے یروشلم میں
سفارت خانے کا قیام عمل لائے گااور اسرائیل کا دارالحکومت یروشلم کو تسلیم
کرنے کے فیصلے کو بھی برقرار رکھے گا۔یہاں اس بات کا ذکر کرنا ضروری ہے کہ
اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی میں پیش کی جانے والی قرارداد کے حق میں ووٹ
دینے والوں کو امریکہ نے وارننگ دیتے ہوئے کہا تھا کہ جن ممالک کو امریکہ
امداد دیتا ہے وہ اس قرارداد کی منظوری میں حصہ نہ لیں اس وارننگ کے باوجود
تقریباً تمام مسلم ممالک نے قرارداد کی منظوری میں حصہ لیا۔ امریکہ کی
امداد حاصل کرنے والے ممالک میں اسرائیل کے بعد سرفہرست مصر ہے جبکہ
پاکستان کو امریکی امداداس کے قیام کے بعد سے مل رہی ہے ۔پاکستان کو
اقتصادی اور عسکری امداد کے علاوہ دہشت گردی کے خاتمے کے لئے ہونے والے
اخراجات کیلئے بھی امداد دی گئی۔امریکہ نے پاکستان کی امداد کے لئے 1954ء
میں پہلا معاہدہ کیا تھا اس معاہدہ کے بعد اگلے دس برسوں کے دوران تین ارب
بیس کروڑ ڈالر امریکی امداد پاکستان نے حاصل کی۔ 1965ء میں ہند ۔پاک کے
درمیان ہونے والی جنگ کے بعد امریکہ نے امداد میں کمی کردی تھی۔ اس کے بعد
1979ء میں پاکستان میں جوہری پلانٹ کی موجودگی کے انکشاف کو جواز بناکر اس
وقت کے امریکی صدر جمی کارٹر کی انتظامیہ نے خوارک کے سوا پاکستان کی تمام
امداد روک دی تھی۔ جنرل ضیاء الحق کی حکومت کے دوران امریکہ نے افغانستان
سے سوویت یونین کی فوجوں کو نکالنے میں مدد کرنے پر 1980سے 1990کے دوران
مجموعی طور پر پانچ ارب ڈالر کی رقم دی۔ اس دوران پاکستان میں جوہری پلانٹ
کی موجودگی پر تشویش کانتیجہ یہ نکلا کہ 1990ء میں اس وقت کے امریکی صدر
جارج ایچ ڈبلیو بش کے دور میں پاکستان کو دی جانے والی زیادہ تر معاشی اور
تمام فوجی امداد معطل کردگئی اور امریکہ نے پاکستان کے لئے F16طیاروں کی
فراہمی بھی روک دی۔ 1991سے 2000تک وقتاً فوقتاً مجموعی طور پر 50کروڑ ڈالر
مالیت کی امداد ملی۔ 11؍ ستمبر 2001میں ورلڈ ٹریڈ سنٹر پر دہشت گردانہ حملے
کے بعد پاکستان اور امریکہ کے درمیان جو سرد مہری تھی ختم ہوگئی اور
پاکستان دہشت گردی کے خلاف جنگ میں امریکہ کا سب سے اہم اتحادی بن گیا اور
بدلے میں امریکی امداد ایک وقفے کے بعد دوبارہ پاکستان کیلئے بحال کردی
گئی۔ جارج ڈبلیو بش کی انتظامیہ نے اقتصادی ، عسکری امداد کے علاوہ دہشت
گردی کے خاتمے کے لئے ہونے والے اخراجات کی ادائیگی بھی کی ۔ جنرل پرویز
مشرف کی فوجی حکومت کو امریکہ نے مجموعی طور پر 11ارب ڈالر دیئے جس میں
8ارب ڈالر فوجی امداد کی مد میں دیئے گئے۔2007میں امریکہ نے پاکستان کے
سماجی شعبے میں زیادہ امداد دینے کے لئے گیری لوگربل کا اعلان کیا جس کے
تحت پاکستان کے سماجی شعبے میں بہتر کیلئے سالانہ ڈیڑھ ارب ڈالر دینے کی
منظوری دی گئی۔ اس طرح مجموعی طور پر 2002سے 2015تک پاکستان کو اقتصادی
امداد کی مد 15.539ارب ڈالر ملے اور عسکری امداد کی مد میں 11.40ارب ڈالر
ملے۔ اس کے علاوہ دہشت گردی کے خلاف جنگ میں ہونے والے اخراجات کی ادائیگی
کیلئے 13ارب ڈالر جاری کئے گئے۔ اس طرح امریکی کانگریس کی رپورٹ سے فراہم
کئے گئے اعداد و شمار کے مطابق امریکہ نے 2002سے 2015تک کیری لوگر کے تحت
ملنے والی امداد سمیت مجموعی طور پر 39ارب 93کروڑ ڈالر دیئے۔
یہاں یہ بات قابلِ ذکر ہے کہ پاکستان کو امریکہ جس طرح اس کے قیام کے بعد
سے امداد فراہم کررہا ہے اس کے پیچھے اس کے کئی مقاصد کی تکمیل ہے
افغانستان میں سویت یونین کا خاتمہ تھا۔ ہندوستان اور روس کے درمیان تعلقات
بہتر تھے ۔ ان دنوں عالمی سطح پر حالات بدل رہے ہیں ہندوستانی وزیر اعظم
نریندر مودی نے اپنی وزارتِ عظمیٰ کی کرسی سنبھالنے کے بعدسب کا ساتھ سب کا
وکاس نعرہ کے تحت کئی دوست و دشمن ممالک کادورہ کیا اور دشمن ممالک کے ساتھ
دوستانہ تعلقات قائم کرنے کوشش کی ۔ اسی طرح موجودہ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ
نے بھی پاکستان کے بجائے ہندوستان کے ساتھ بہتر تعلقات کو ترجیح دی ہے۔ ان
کا نئے سال کا ٹوئٹ کیا ہوا بیان خود اس بات کی طرف اشارہ کرتا ہے کہ وہ
پاکستان کو کس زاویہ سے دیکھتے ہیں۔ اب رہا سوال کہ کیا واقعی پاکستان کو
دی جانے والی امداد مکمل طور پربند کردی جائے گی ، شائد اس میں کچھ وقفہ
رہے گا کیونکہ پاکستانی حکومت نے امریکی صدر کے بیان کے اہم اجلاس طلب کیا
اور دونوں ممالک کے درمیان مل جل کر کام کرنے کو ترجیح دیتے ہوئے اسے مثبت
اقدام قرار دیا اس سے صاف ظاہر ہوتا ہے کہ پاکستان کسی صورت میں امریکہ کو
چھوڑنا نہیں چاہتا چاہے امریکہ ڈرون حملوں کے ذریعہ دہشت گردی کے نام پر
ڈرون حملے کرے۔ اس کے علاوہ پاکستان نے دبے انداز میں یہ اشارہ بھی دیا ہے
کہ افغانستان میں امریکی آمد و رفت پاکستانی سرحدوں سے ہی کی جاسکتی ہے ۔
اب رہا مسئلہ افغانستان میں قیام امن یا امریکہ کی ناکامی کو کامیابی میں
بدلنے کا تو یہ مستقبل میں امریکہ اور پاکستان کے درمیان بہتر رشتہ پر
منحصر ہے۔ وفاقی وزیر دفاع خرم دستگیر نے قومی سلامتی کے اجلاس کے بعد
میڈیا سے بات چیت کے دوران بتایا کہ مل کر اور تعاون سے افغانستان میں امن
کی جدوجہد کریں گے اور دہشت گردی کے خلاف لڑیں گے تو ہمیں بہتر کامیابی
ہوگی بجائے یہ کہ ہم اپنی منفی بیان بازی سے اہداف حاصل کرنے کی کوشش
کریں۔اس اجلاس میں کئے جانے والے فیصلے کے بعد پاکستانیوں کے لئے پھر سے
ایک مرتبہ خوف و ہراس کا ماحول بنتا جارہا ہے کیونکہ اگر پاکستانی حکومت
امریکہ کو خوش کرنے اور اس کی امداد حاصل کرنے کے لئے وسیع تر اختیارات
دیتی ہے امریکہ کا اس کا فائدہ اٹھاکر دہشت گرد ٹھکانوں کا نشانہ بنانے کے
نام پر عام شہریوں کو ہلاک کرسکتا ہے۔
معاشی بدحالی نے ایران کو بھی اپنی لپیٹ میں لے لیا۰۰۰
آخر کار ایران میں بھی حکومت کے خلاف مظاہروں کا آغاز ہوچکا ہے ۔عوام صبر
کا دامن چھوڑتے جارہے ہیں ، نوجوانوں میں بڑھتی ہوئی بے روزگاری ملک میں
خطرناک حالات کا بیش خیمہ ہے۔ ذرائع ابلاغ کے مطابق ایران حکومت مخالف
مظاہروں کا سلسلہ گذشتہ ایک ہفتہ سے جاری ہے جس کے دوران سیکیوریٹی فورسز
اور مظاہرین کے درمیان ہونے والی جھڑپوں میں کم و بیش 22افراد ہلاک ہوچکے
ہیں۔ حکومت مخالف مظاہروں کو دیکھتے ہوئے ایران کے رہبر اعلیٰ آیت اﷲ علی
خامنہ ای نے اپنی ویب سائٹ پر شائع ہونے والے بیان میں کہا ہے کہ ملک کے
دشمن اس احتجاج کو ہوا دے رہے ہیں۔ مظاہرین اور سیکیوریٹی فورسز کے درمیان
جھڑپیں شروع ہونے کے بعدیہ انکا پہلا بیان ہے۔جس میں انہوں نے کہا کہ حالیہ
دنوں میں ایران کے دشمنوں نے رقم، ہتھیار، سیاست اور خفیہ اداروں سمیت
مختلف ہتھکنڈروں کو ایران میں حالات خراب کرنے کے لئے استعمال کیا
ہے۔اطلاعات کے مطابق ایرانی دارالحکومت تہران میں احتجاجی مظاہروں کے بعد
سے 450افراد کو گرفتار کیا گیا ۔ مرکزی اصفہان کے علاقے میں پیر کی شب ہونے
والے پر تشدد واقعات میں ہلاک ہونے والے افراد کی تعداد بڑھ کر کم از کم
22ہوگئی ہے۔ خیال رہے کہ ایرا ن میں جاری مظاہروں کے دوران سیکیوریٹی فورسز
کو سنہ 2009کے بعد پہلی مرتبہ شدید مزاحمت کا سامنا ہے۔ ان مظاہروں کا آغاز
جمعرات کو ایران کے دوسرے بڑے شہر مشہد سے ہوا تھا۔ایرانی صدر حسن روحانی
کا کہنا ہے کہ احتجاج ایک موقع ہے نہ کہ خطرہ‘۔ انہو ں نے مزید کہا کہ
ایرانی قوم قانون توڑنے والی اقلیت سے نمٹ لے گی۔ ان مظاہروں کے آغاز پر
امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے ٹویٹ کیا تھا کہ ایرانی عوام میں بالآخرعقل آرہی
ہے کہ کیسے ان کی دولت کو لوٹا جارہا ہے اور دہشت گردی پر خرچ کی جارہی
ہے۔ذرائع ابلاغ کے مطابق حالیہ مظاہرے اس مایوسی کے بعد شروع ہوئے کہ جنوری
2016میں بین الاقوامی اقتصادی پاپندیاں اٹھائے جانے کے بعد بھی ایرانی
معیشت میں کوئی انقلابی تبدیلی نہیں آئی بلکہ روزگار میں بے تحاشہ اضافہ
ہورہا ہے لاکھوں نوجوان بے روزگار بتائے جارہے ہیں اور ملک میں افراط زر کی
شرح بھی دس فیصد ہوچکی ہے۔ ایران کی بدحانی کو دیکھتے ہوئے تجزیہ نگاروں کا
کہنا ہے کہ صدر ایران حسن روحانی کو اپنی حالیہ پالیسی بدلنی ہوگی ۔ اور
بدعنوانیوں کے خلاف بڑے پیمانے پر کارروائی کرنی ہوگی ورنہ ایران میں ان
دنوں لوگوں میں جو مایوسی بڑھ رہی ہے اس میں مزید اضافہ ہوگا اور حالات
بہتر ہونے کے بجائے مزید بگڑسکتے ہیں۔ تاہم ایران کے پاسداران انقلاب کے
سربراہ میجر جنرل محمد علی جعفری نے لک میں جاری مظاہروں کے حوالے سے کہا
ہے کہ ملک میں بغاوت کو شکست دے دی گئی ہے۔ انہوں نے یہ اعلان اس وقت کیا
جب حکومت مخالف مظاہروں کے خلاف حکومت کے حق میں ہزاروں افراد نے جلوس
نکلالے۔ اب دیکھنا ہیکہ حکومت کی تائید اور حکومت کے خلاف جس طرح کے حالات
ایران میں پائے جارہے ہیں اس کو دیکھتے ہوئے ایرانی صدر حسن روحانی معیشت
کی بہتری اور روزگار پر قابو پانے کے لئے کس قسم کے اقدامات کرتے ہیں۔
سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات میں VATکا لزوم
خلیجی ممالک کے حالات دن بہ دن بگڑتے جارہے ہیں معاشی طور پرمستحکم کہلائے
جانے والے ممالک ان دنوں شام اور یمن کی جنگ کی وجہ سے پریشان کن صورتحال
سے دوچار ہے۔ شاہ عبداﷲ بن عبدالعزیز نے اقتدار سنبھالتے ہی سب سے پہلے
پٹرول کی قیمت میں کمی کردی تھی ۔ عالمی سطح پریہ بات مشہور ہوگئی تھی کہ
سعودی عرب میں پینے کے پانی یعنی بسلری باٹل فی لیٹر کی قیمت ایک ریال ہے
جبکہ پٹرول کی قیمت صرف 45ہلالہ۔ سعودی عرب بھی مشرقِ وسطیٰ کے حالات سے
بُری طرح متاثر ہوچکا ہے ۔ موجودہ فرمانروا شاہ سلمان بن عبدالعزیز کے دور
اقتدار میں سعودی عرب کے حالات مسلسل بدلتے جارہے ہیں اور سعودی معیشت شام،
اور یمن کی جنگ کی وجہ سے مسلسل بگڑتی جارہی ہے۔ گذشتہ تین سال سے سعودی
عرب کا بجٹ خسارہ میں بتایا جارہا ہے۔ ملک میں معیشت کو بہتر بنانے کے
حکومت نے کئی ایک اقدامات کئے ہیں ۔ سعودی عرب اور دیگر ممالک تیل پر
انحصار کرنے کے بجائے دوسرے ذرائع آمدنی کی تلاش میں ہے ۔ اسی کے پیشِ نظر
سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات میں پیٹرول کی قیمتوں میں80تا 127فیصد
اضافہ کردیا گیا ہے۔ خلیجی ممالک میں بیرون ملک سے کام کرنے کیلئے آنے
والوں کیلئے ایک بڑی ترغیب وہاں کے ٹیکس فری قوانین تھے لیکن تیل کی گرتی
ہوئی قیمتوں کے باعث حکومتیں زرمبادلہ میں کمی کو پورا کرنے کے لئے مختلف
طریقے ڈھونڈ رہی تھیں۔متحدہ عرب امارات کے حکام کے اندازوں کے مطابق ویلیو
ایڈڈ ٹیکس(VAT) کی مدد سے تین ارب ڈالر سے زیادہ آمدنی ملے گی۔ نئے قوانین
کے تحت اب پٹرول ، ڈیزل، کھانے پینے کی اشیاء ، کپڑے ، یوٹیلیٹی بلز اور
ہوٹلوں میں کمرے بک کرنے پر VATلاگو ہوگا البتہ طبی سہولیات، بینکنگ
سہولیات اور عام آمدو رفت کی سہولیات اس ٹیکس سے مستثنیٰ ہونگی۔ آئی ایم
ایف جیسے عالمی مالیاتی ادارے ایک طویل عرصے سے خلیجی ممالک پر صرف تیل سے
ملنے والی آمدنی پر انحصار کرنے کے علاوہ آمدنی کے مزید ذرائع ڈھونڈنے پر
زورد ے رہے تھے۔سعودی عرب کی قومی آمدنی کا 90فیصد تیل کی بدولت آتا ہے
جبکہ متحدہ عرب امارات کی قومی آمدنی کا 80فیصد بذریعہ تیل ملتا ہے۔ ان
دونوں ممالک نے اس سلسلے میں اور بھی کئی اقدامات کئے ہیں۔ سعودی عرب اس سے
قبل ملک میں تمباکو اور مشروبات پر ٹیکس عائد کرچکا ہے اور سیاحتی ٹیکس بھی
لاگو کیا گیا ہے۔ لیکن ان ممالک کا تنخواہوں پر ٹیکس لاگو کرنے کا فی الوقت
کوئی ارادہ نہیں ہے۔ خلیجی ممالک کی تنظیم جی سی سی کے دوسرے رکن ممالک
جیسے بحرین، کویت، عمان اور قطر نے بھی کہا ہے کہ وہ2019تک VATمتعارف
کرائیں گے۔اب دیکھنا ہیکہ مستقبل میں سعودی عرب مزید کس قسم کے ٹیکس عوام
اور خصوصاً دوسرے ممالک سے آنے والے تارکین وطن سے وصول کرتا ہے۔ |