ڈونلڈ ٹرمپ نے سال 2018 کا پہلا ٹوئٹ ہی پاکستان سے متعلق
کیا جس میں انہوں نے ایک بار پھر پاکستان کو تنقید کا نشانہ بنایا،ڈونلڈ
ٹرمپ نے سوشل میڈیا پر اپنے ٹوئٹ میں کہا کہ امریکا نے پاکستان کو گزشتہ 15
سالوں کے درمیان 33 ارب ڈالر امداد دیکر بے وقوفی کی جبکہ بدلے میں پاکستان
نے ہمیں جھوٹ اور دھوکے کے سوا کچھ نہیں دیا، اور ہمارے رہنماؤں کو بے
وقوف سمجھا ٹرمپ نے اپنےسوشل میڈیا پیغام میں مزید کہا کہ ہم افغانستان میں
جن دہشت گردوں کو تلاش کرتے ہیں پاکستان انہیں محفوظ پناہ گاہیں فراہم کرتا
ہے، لیکن اب مزید ایسا نہیں چلے گا۔
پاکستان نے امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے پاکستان پر الزامات کے بعد امریکی
سفیر ڈیوڈ ہیل کو دفتر خارجہ طلب کرکے شدید احتجاج ریکارڈ کروایا اور
احتجاجی مراسلہ حوالے کیا ، دفتر خارجہ میں امریکی سفیر پر واضح کیا گیا کہ
امریکی صدر کا اربوں ڈالر کا بیان بالکل غلط ہے ، امریکی صدر کے بیان کی
وضاحت پیش کی جائے ۔
علاوہ ازیں وزیراعظم شاہد خاقان عباسی سے وزیر خارجہ خواجہ آصف نے ملاقات
کی جس میں ٹرمپ کے بیان پر غور کیا گیا جبکہ وفاقی کابینہ کا اجلاس منگل
کواور قومی سلامتی کمیٹی کا اجلاس بدھ کو طلب کیاگیا جس میں ، امریکی صدر
کے بیان ، سفارتی اور سیکورٹی پالیسی پر غور کیاگیا ،اس سے قبل فوجی ترجمان
میجرجنرل آصف غفور نے 2017ء کی اپنی آخری پریس کانفرنس میں ایسی دھمکیوں
کاذکر کرتے ہوئے کہاتھا کہ ہمیں دھمکیا ں مل رہی ہیں ہمیں ایک قومی بیانیے
پر متحد ہونا ہوگا، پاکستان کے معاملے پر ہم سب ایک ہیں ہم نے 2؍ مسلط کی
گئی جنگیں لڑیں ، نومور کا کہہ چکے اور اب کسی کیلئے مزید ڈو مور نہیں
ہوگا۔
امریکی صدر کا ٹویٹ اور پاکستان کا شدید ردعمل اپنی جگہ جبکہ سوچنے کی بات
یہ ہے کہ کیا پاکستان میں ایسے دینی مدارس موجود ہیں یا نہیں جو ماضی میں
طالبان کی نرسری تھے اور آج بھی حسبِ سابق فعال ہیں۔ کیا یہ ایک حقیقت
نہیں کہ پاکستان کے بعض دینی مدارس دہشت گردی کے بیس کیمپ ہیں اور بعض
شخصیات بابائے طالبان کہلوانے میں فخر محسوس کرتی ہیں، اس وقت کہ جب پوری
دنیا دہشت گردی کے خلاف متحد ہو چکی ہے تو ہمارے لئے بھی ایک مناسب موقع ہے
کہ ہم بھی اپنی ملکی سلامتی کے حوالے سے سابقہ شدت پسندانہ رویوں کو ترک کر
کے حقیقت پسندانہ راستہ اختیار کریں۔
ابھی طالبان کو مختلف گروپوں میں تبدیل کرنے کا کھیل بھی دم توڑ چکا ہے،
پنجابی طالبان، سندھی طالبان، نیلے طالبان، سرخ طالبان، الغرض یہ کہ ہمیں
اپنے وطن کو ہر طرح کے طالبان اور شدت پسندوں سے پاک کرنا چاہیے۔
شنید ہے کہ امریکہ اسامہ بن لادن کی طرز پر پاکستان میں حافظ سعید کے خلاف
بھی کارروائی کرنے کا متقاضی ہے، امریکی نشریاتی ادارے کی رپورٹ کے مطابق
واشنگٹن میں معمول کی نیوز بریفنگ کے دوران حافظ سعید کے انتخابات میں حصہ
لینے سے متعلق پوچھے گئے ایک سوال کے جواب میں ترجمان محکمہ خارجہ ہیتھر
نیورٹ کا کہنا تھا کہ حافظ سعید لشکر طیبہ سے تعلق رکھتے ہیں جسے امریکہ
ایک دہشت گرد تنظیم تصور کرتا ہے اور ان کی گرفتاری میں معلومات کے لیے ایک
کروڑ ڈالر کے انعام کا اعلان بھی کیا جا چکا ہے۔
یہ بھی قابلِ ذکر ہے کہ گزشتہ بیس برس میں ہندوستان میں ہونے والے شدت
پسندی کے تقریبا تمام بڑے واقعات میں حافظ محمد سعید کو مورد الزام قرار
دیا گیا ہے، اب صورتحال یہ ہے کہ حافظ سعید صرف امریکہ کو ہی نہیں بلکہ
بھارت کو بھی مطلوب ہیں جبکہ دوسری طرف سوچنے اور سمجھنے کا مقام یہ ہے کہ
کیا امریکہ حافظ سعید کی خاطر بھارت کو خوش کرنے کے لئے اپنے پاکستان جیسے
قدیمی حلیف کے ساتھ روابط خراب کر لے گا اور یہ بھی لمحہ فکریہ ہے کہ کیا
پاکستان کی حکومت حافظ سعید اور پاکستان میں بعض دینی مدارس کی صورت میں
دہشت گردی کے موجود مراکز کو بچانے کے لئے پوری ملکی سلامتی کو داو پر لگا
دے گی۔
بہر حال یہ وقت پاکستان اور امریکہ دونوں کے لئے ایک کڑے امتحان کا وقت ہے۔
|