در پر دہ وزیر اعظم نا اہل شریف اپنی تمام تر توانائیاں
اس بات پر صرف کر رہے ہیں کہ کسی طرح اپنی نا اہلیت کو اہلیت میں تبدیل کر
سکیں، وہ مسلسل ’مجھے کیوں نکا لا‘ کا جواب تلاش کررہے ہیں۔ حکومت نون لیگ
کی ہے، مرکز میں پنجاب میں، نون لیگ کی صدارت بھی نا اہل شریف کے پاس ہے ،
شاہد خاقان عباسی ڈمی وزیر اعظم کے طور پر کام کر رہے ہیں۔ وہ اپنی مرضی سے
کوئی فیصلہ کر نے کا اختیار نہیں رکھتے۔ اس بات میں شک اور ابہام نہیں۔ جب
سے وہ وزیر اعظم بنے ہیں اس وقت سے آج تک کے تمام فیصلوں پر احکامات جاتی
امرا سے حاصل کیے یا انہیں دئے گئے۔
نیا سال شروع ہوتے ہی خاقان عباسی صاحب نے بطور ڈمی وزیر اعظم قوم کو جو
پہلا تحفہ دیا وہ پیٹرل، مٹی کے تیل ، ہائی اسپیڈ ڈیزل، لائٹ ڈیزل کی
قیمتوں میں اضافہ ہے جس کا اطلاق پہلی تاریخ سے ہوچکا۔ مشیر خزانہ مفتاح
اسماعیل نے پریس کانفرنس میں بڑے فخر کے ساتھ قوم پر مہنگائی بم گرانے کا
اعلان فرمایا۔ مفتاح اسماعیل نون لیگ کے دربار کے ایک رکن ہیں، ٹی وی ٹاک
میں نون لیگ خاص طور پر نواز شریف فیملی کا دفاع خوش ہو ہو کر کرتے رہے
ہیں۔ لند ن میں بیمارو زیر خزانہ، سمدھی جی جو چھٹیوں پر ہیں کی جگہ مفتاح
اسماعیل کی لاٹری نکل لائی اور انہیں مشیر خزانہ کا قلم دان سونپ دیا گیا،
حیرت اور افسوس اس بات پر کہ یہ حکمراں قوم کی آنکھوں میں کس طرح دھول
جھونکتے ہیں، کس ڈھٹائی کے ساتھ پریس کانفرنس میں فخریہ طور پر اعلان کرتے
ہیں پیٹرول میں اضافے کا ، کس کو نہیں معلوم ، یہ بات عام بچہ بھی جانتا ہے
کہ جب پیٹرول اور مٹی کا تیل مہنگا ہوتا ہے تو اس کے اثرات زندگی کے ہر ہر
شعبے پر پڑتے ہیں۔ اپوزیشن نے پیٹرولیم قیمتوں میں اضافے کو درست ڈرون حملہ
قرار دیا ہے۔ یہ مہنگائی بم ہے جو اس عارضی چند ماہ کی حکومت نے غریب عوام
پر گرایا ہے۔ دیدہ دلیری کی انتہا دیکھئے کہ مشیر خزانہ قیمتوں میں اضافہ
کا اعلان فرما کر کہتے ہیں کہ پاکستان میں اب بھی قیمتیں بھارت اور بنگلہ
دیش اور ترکی سے کم ہیں۔ عوام کو خوش کرنے کے لیے فرماتے ہیں کہ آئی ایم
ایف کے پاس جانے کا ارادہ ہے نہ ایمنسٹی اسکیم یا بانڈ لارہے ہیں۔ مفتاح
اسماعیل صاحب تو مشیر ہیں، یہ قلم دان اور یہ اختیارات آپ کو عارضی طور پر
دیدئے گئے اصل خزانے کے بادشاہ تو لندن میں بیٹھے ہیں ، انہیں جوں ہی موقع
ملا ، حالات ان کے حق میں ہوئے وہ پاکستان آموجود ہوں گے ، اسحاق ڈار تو
ہیں ہی قرض لینے کے ماہر ، آئی ایم ایف اور ورلڈ بنک کو ایسا شیشے میں
اتارتے ہیں کہ حکام ان پرنہال اور قربان ہوجاتے ہیں اور جب وقت آئے گا تو
ڈوبتی معیشت کو سہارا دینے کے لیے قرض ہی واحد سہارا ہوگا۔ قرض ایک الگ
موضوع ہے کہ موجودہ حکومت قرض لے گی یا نہیں لیکن جو قرض لیا ہوا ہے اس کی
قسط تو واپس کرنا ہی ہوگی ، یہ حکومت تو قرض کی قسط دینے کے لیے بھی قرض
لیتی رہی ہے۔ قرض لینے یا قرض کی قسط واپس کرنے کا وقت آئے گا تو اس موضوع
پر قلم اٹھائیں گے ، آج کا موضوع تو مہنگائی بم ہے جو موجودہ حکومت نے غریب
عوام پر گرایا ہے۔
مہنگائی کی شرح اور اس اضافے کے بعد پیٹرول مصنوعات کی قیمتیں کیا ہوچکی
ہیں وہ کچھ اس طرح ہے۔ پیٹرول میں اضافہ 4.06ہوا جس سے اب پیٹرول 81.53فی
لیٹر ہوگیا،ڈیزل میں اضافہ6.25ہوا جس سے ابڈیزل 58.37فی لیٹر ہوگیا، مٹی کے
تیل میں اضافہ 6.74ہوا جس سے اب مٹی کا تیل64.32فی لیٹر ہوگیا، ہائی اسپیڈ
ڈیزل میں اضافہ3.96ہوا جس سے اب ہائی اسیڈ ڈیزل89.91فی لیٹر ہوگیا۔فرمایا
مشیر خزانہ نے کہ قیمتوں میں اضافے کے بعد پیٹرول پر جی ایس ٹی میں کوئی
ردو بدل نہیں کیا گیا تاہم ہائی اسپیڈ ڈیزل پر جی ایس ٹی30اعشاریہ 6فیصد سے
کم کر کے 25اعشاریہ5فیصد جب کہ لائٹ ڈیزل اور مٹی کے تیل پر 6.6کی شرح سے
جی ایس ٹی سے عائد ہے ۔ مشیر خزانہ نے دلیل پیش کی جس میں کوئی منطق نظر
نہیں آتی کہ عالمی مارکیٹ میں پیٹرل مصنوعات کی قیمتیں بڑھ رہی ہیں جب کہ
پاکستان میں بنگلہ دیش ، بھارت اور ترکی کے مقابلے میں پیٹرول کی قیمت سب
سے کم ہے۔ معیشت مستحکم قرار دی، بیرون ملک سے سرمایا لانے کے لیے کوئی
ٹیکس ایمنسٹی اسکیم نہیں لارہے ، پاکستان میں ایمنسٹی اسکیم پہلے ہی سے چل
رہی ہے ، اگر کوئی پاکستانی بیرون ملک سے ڈالر لارہا ہے تو اس سے کوئی سوال
نہیں پوچھا جاتا تاہم حوالے میں کمی کے لیے اقدامات کریں گے۔ مشیر خزانہ کی
پریس کانفرنس میں روایتی قسم کی باتوں کے سوا کچھ نہ تھا۔ حکومت نے گزشتہ
ساڑے چار سال کے دوران تیل کی مصنوعات کی قیمتوں میں ردو بدل کر کے 300ارب
روپے سے زائد کمائے، اس کا ذکر مشیر خزانہ نے کیوں نہیں کیا، حکومت اپنے
ساڑے چار سال کے اقتدار میں 18مرتبہ تیل کی مصنوعات میں اضافہ کر چکی ہے،
جب کہ21 مرتبہ کمی تو کی لیکن وہ کمی بہت معمولی ہوا کرتی تھی۔ ابھی پانچ
دن ہوئے قیمتیں بڑے ہوئے روز مرہ کی اشیاء میں اضافہ شروع ہوچکا ہے، بعض
لوگ تو خاموشی سے اضافہ کر دیتے ہیں، ٹرانسپورٹرز کی تنظیموں نے مطالبات
حکومت سے کر دیے ہیں کہ کرائیوں میں اضافہ کیا جائے کیونکہ آپ نے پیٹرلیم
مصنوعات میں اضافہ کر دیا ہے۔ اسی طرح قیمتیں بڑھنے کا یہ سلسلہ رفتہ رفتہ
آگے بڑھے گا، ٹرانسپورٹرز کے بعد دیگر تنظیمیں بھی سامنے آئیں گی اور
قیمتوں میں اضافے کا مطالبہ کریں گے۔ حکومت کا اس جانب کوئی مضبوط و مستحکم
اقدام نظر نہیں آتا کہ اگر پیٹرول مصنوعات کی قیمتوں میں اضافہ ہوا ہے تو
دیگر چیزوں کو مہنگا ہونے سے روکیں۔ کمزور حکومت کی نشانی یہی ہوتی ہے کہ
وہ کسی بھی مطالبے ، احتجاج اور دھرنے پر گٹھنے ٹیک دیتی ہے۔ موجودہ حکومت
کیونکہ نواز شریف کی نا اہلی کے بعد، مقدمات اور تحقیقات میں پھنسی ہوئی
ہے، شریف خاندان کسی بھی طور اقتدار ہاتھ سے جانے نہ دینے کی پالیسی پر
گامزن ہے ، اس کی بلا سے ملک میں مہنگائی ہو ، آفت آئے، مصیبت آئے، لوگ
پریشان ہوں ، وہ صرف اور صرف اس جدوجہد میں تن من دھن سے لگے ہوئے ہیں کہ
کسی بھی طرح نواز شریف کی نا اہلیت واپسی ہوجائے، کوئی ڈیل، کوئی این آر او
، کچھ بھی ہو، کوئی اپنا یا غیر ملک کا دوست ، خواہ دشمن ہی کیوں نہ ہو ،
اس نا اہلیت کو اہلیت میں تبدیل کر دے۔ جو چیز اختیار میں تھی یعنی نا ہل
شخص کو سیاسی جماعت کا سربراہ ہوجانا ، یہ قانون پارلیمنٹ سے منظور کرا
لیا، لیکن ابھی تلوار لٹک رہی ہے، سپریم کورٹ میں درخواست منظور ہوچکی ہے،
بہت ممکن ہے کہ پارلیمنٹ کا منطور کردہ قانون عدالت رد کر دے اور پھر نواز
شریف کو ایک اور دھچکا لگ جائے۔ ویسے وہ اس معاملے میں مضبوط اعصاب کے مالک
ہیں ہر چھٹکا بڑی مہارت اورخوش اسلوبی سے برداشت کرلیتے ہیں۔ حکومت سے کچھ
کہنا ، فضول لگتا ہے ان حکمرانوں نے کرنا وہی ہوتا ہے جو ان کے حق میں ہو
جسے یہ بہتر سمجھتے ہوں، کالم نگار تو توجہ ہی مبذول کراسکتے ہیں، تجزیہ
پیش کرسکتے ہیں، غلط اور صحیح سامنے رکھ بسکتے ہیں ، اپنی سی کوشش کر سکتے
ہیں سو کرتے ہیں اور کرتے رہیں گے۔ (6جنوری2018) |