پاکستان کی خارجہ پالیسی اور امریکہ

سال ۲۰۱۸ ء کے آغازمیں ہی پاکستان کو امریکہ کی جانب سے ایک نفرت انگریز اور دھمکی آمیز بیان کا سامنا کرنا پڑا ۔ نئے سال کے آغاز ہی میں امریکی صدر نے اپنی ایک ٹویٹ میں کہاہے کہ پندرہ سال تک اسلام آباد کو ۳۳ ارب ڈالر امداد کی مد میں دئیے اور بدلے میں جھوٹ اور دھوکے کے سوا کچھ نہیں ملا ۔ انہوں نے مزید کہاکہ پاکستان نے ہمارے حکمرانوں کو بے وقوف سمجھا جن دہشت گردوں کو ہم افغانستان میں ڈھونڈتے رہے پاکستان نے انھیں محفوظ پناہ گاہیں دیں ۔ امریکی صدر کی جانب سے یہ پہلابیان یا ٹویٹ نہیں ہے بلکہ اس سے پہلے بھی وہ پاکستان کے خلاف ایسے دھمکی آمیز بیانات دیتے رہے ہیں ۔
اس ٹویٹ یا بیان کے دو رخ ہیں لیکن کسی بھی رخ کے بارے میں بات کرنے سے پہلے چند زمینی حقائق جان لینا از حد ضروری ہے ۔

امریکی صد ر کے بیان کے مطابق اعداد و شمار ۳۳ ارب ڈالر ہیں جو کہ صرف اور صرف مبالغہ آرائی اور جھوٹ پر مبنی ہیں ۔ خود امریکی اداروں نے ان کا جھوٹ بے نقاب کر دیا ۔ خود امریکی صدر کے اعداد و شمار ہی غلط نکلے ۔ پاکستان کو حالیہ برسوں میں کل ۱۹ ارب ڈالر کی امداد دی گئی جس میں سے ۱۴ ارب سے زائد رقم دہشت گردی کے خلاف جنگی اخراجات کی مدد میں امریکہ پر واجب الادا تھی ۔ یہ وہ رقم ہے جو امریکہ پر واجب الادا ہے ، امداد نہیں ہے ۔جو امداد پاکستان کو ملی اس کے بدلے میں پاکستان کی سر زمین خون سے نہلا دی گئیں ۔ پاکستان کے ۴۰۰۰۰ افراد دہشت گردی کی بھینٹ چڑ گئے جن میں فوجی جوان ، بچے ، بوڑھے اور خواتین سبھی شامل ہیں ۔ معاشی طور پر پاکستان کی معیشت کا برا حال ہو گیا اور پاکستان کو ۲۰۰ ارب ڈالر سے زائد کا نقصان ہوا ۔ پاکستان نے امریکہ کے حلیف کے طور پر اپنی سر زمین پر واقع ہوائی اڈے فراہم کئیے جن سے ۵۷۰۰۰ ہوائی حملے کئے گئے ۔ اس کے علاوہ پاکستان نے اپنی سرزمین سے نیٹو سپلائی کے کنٹینر گزرنے کے لیے راستہ فراہم کیا ۔ یہاں امریکہ کو یاد رکھنا چاہیے کہ یہ تمام سہولیات بنا کسی کرایہ یا ٹیکس کے فراہم کی گئی ۔ پاکستان اگر امریکہ سے کسی قسم کا ٹیکس یا کرایہ وصول کر تا تو اس کی رقم کم و بیش ۱۰۰ ارب ڈالر ہوتی ۔ لیکن مفت اور بنا کسی شرط کے ان سہولتون کی فراہمی سے پاکستان کو مالی نقصان اٹھا نا پڑا ۔ یہ نقصان ، اس سے الگ ہے جو خود کش حملوں اور ڈرون حملوں کے نتیجے میں پاکستان میں موجو د انفراسٹکچر کی تباہی کی صورت میں اٹھانا پڑا ۔ دوسرے نقصانات کے ساتھ سب سے بڑا نقصان پاکستان کو مغربی باڈر کے غیر محفوظ ہو جانے کی صورت میں ہوا ۔ دہشت گردی کی اس جنگ میں افغانستان جو پاکستان کا حلیف تھا بھارت کا حلیف بن کر پاکستان کے خلاف اٹھ کھڑا ہوا۔

اب غور کیجئیے ! امریکی صدر کی ٹویٹ پر ۔ بعض نقادوں کا کہنا ہے کہ یہ ٹویٹ دیوانے کی پکار سے زیادہ حیثیت نہیں رکھتا ۔اس کو زیادہ سنجیدہ نہیں لینا چاہیے لیکن جب تک ٹرمپ امریکی صدر کے عہدے پر فائز ہیں ان کے کسی بھی بیان کو غیر سنجیدگی سے نہ لینا چاہیے ۔ امریکی صدر کا یہ بیان محض ایک بیان نہیں ہے بلکہ یہ ایک پالیسی کا تسلسل ہے جو پچھلے چند ماہ سے چل رہا ہے ۔ کسی ملک کو جھوٹا اور بے ایمان کہہ دینا اس ملک کی عزت کی دھجیاں اڑا دینے کے مترادف ہے ۔ امریکہ کی جانب سے پہلے بھی پاکستانی حدود کے اندر متعدد ڈرون حملے کئے گئے ہیں ۔ خدشہ اس بات کا بھی ظاہر کیا جا رہا کہ امریکہ کی جانب سے جارحانہ بیانات امریکہ کی جانب سے یہ عندیہ ہے کہ ڈرون حملوں کے دائرہ کار کو اب بڑھایا جائے گا۔ اگر ایسا ہوتا ہے تو پاکستان کے پاس اس کے علاوہ کوئی چارہ نہ رہے گا کہ وہ امریکی ڈرون مار گرائے اور یہ ایک بڑی جنگ کا پیش خیمہ بھی ہو سکتا ہے ۔

یہاں ایک بات خصوصی اہمیت رکھتی ہے کہ ایک مضبوط خارجہ پالیسی نہ ہونے کی وجہ سے پاکستان کی حیثت عالمی سطح پر کمزور رہی ہے ۔ ہمارے ملک کی بدقسمتی ہے کہ یہاں جمہوریت کے نام پر اداروں کو پنپنے نہیں دیا جاتا ۔ پاکستان میں وزارت ِ خارجہ کو وہ اہمیت نہیں دی جا رہی جس کی یہ وزارت اہلیت رکھتی ہے ۔۔ یہی وجہ ہے کہ چار برس تک سابق وزیر ِ اعظم نواز شریف صاحب نے وزارت ِ خارجہ اپنے پاس رکھی۔ دوسر ی جانب بھارت اپنی مضبوط خارجہ پالیسی کی بدولت دنیا میں پاکستان سے بہتر پوزیشن میں ہے ۔ اب پاکستان کو اپنی ایک مضبوط خارجہ پالیسی تشکیل دینا ہو گی ۔ اور باقاعدہ ایک لائحہ عمل کے مطابق حالات کا مقابلہ کرنا ہو گا ۔ہمارے سیاست دانوں کو تحمل اور سمجھداری کے ساتھ اس معاملے کو نبٹانا ہوگا ۔ جذباتیت یا جوش سے یہ معاملہ مزید بگڑ سکتا ہے ۔پاکستا ن کو لائحہ عمل کے طور پر نیٹو سپلائی روک دینی چاہیے یا کم از کم نیٹو کی مزید سپلائی کے لیے کرایہ طے کر لینا چاہیے ۔ اس کے علاوہ امریکی صدر کے اس بیان کے جواب میں پاکستان کی جانب سے ایک مربوط جواب جانا چاہیے ۔ سیاست دانوں کو اب ذاتی سیاست کو خیر آباد کہہ کر ملکی مفاد کی سیاست کا دامن تھام لینا چاہیے ۔ عالمی سطح پر پاکستان کی پوزیشن بہتر بنانے کے لیے حکومت کو آل پارٹیز کانفرنس بلانی چاہیے اور دونوں ایوانوں کے ممبران کا ایک اجلاس بلا کر ملکی سطح پر لائحہ عمل طے کرنا چاہیے ۔

اگر چہ افواج ِ پاکستان کے سربراہ کی جانب سے امریکہ کو جواب دیا جاتا ہے لیکن پاکستان کی جمہوری حکومت کو بھی اپنا کردار ادا کر نا چاہیے ۔ واضع رہے کہ فوج اکیلے یہ جنگ نہیں جیت سکتی جب تک عوام فوج کے شانہ بشانہ نہ کھڑی ہو جائے ۔اب وقت آگیا ہے کہ ہم میں سے ہر شخص اپنے حصے کا کردار ادا کرے ۔ اور ملک کو اس مشکل وقت سے نکالنے میں فوج کا ساتھ دے ۔
 

Maemuna Sadaf
About the Author: Maemuna Sadaf Read More Articles by Maemuna Sadaf: 165 Articles with 149294 views i write what i feel .. View More