حکومت کا فرض، قوم کا قرض

اسے کیا معلوم تھا کہ اس پر ایسا وقت بھی آئے گا۔ وہ تو مطمئن تھی کہ اپنے ملک کی پاک فضاؤں میں سانس لے رہی ہے۔ وہ نہیں جانتی تھی کہ اسے مشکلات کا سامنا کرنا پڑے گا۔ اسے خبر ہی نہ تھی کہ آنے والی زندگی میں اس نے مصائب کی کتنی پہاڑیاں سَر کرنی ہیں۔ کتنے زخم سہنے ہیں۔ کتنی مشکلات پر صبر کرنا ہے۔ اسے معلوم ہی نہ تھا کہ اس کی یہ آخری سانسیں ہیں جو کھلی فضاؤں کو معطر کر رہی ہیں۔ وہ پابند سلاسل ہو جائے گی، اسے اغواء کر دیا جائے گا۔ اسے کال کوٹھڑی کے سپرد کر دیا جائے گا۔ اسے یہ بھی نہیں پتا تھا کہ صعوبتیں برداشت کرنے کے بعد اپنے ملک کے حکمرانوں اور باسیوں کی بے اعتنائی بھی سہنی پڑے گی۔آپ کس کی بات کر رہے ہیں؟ میں کچھ سمجھا نہیں۔ وہ خاموش ہوئے تو میں نے کہا۔

انہوں نے گہرا سانس لیا اور بولے: قوم کی بیٹی، ڈاکٹر عافیہ صدیقی کی، جو ساڑھے 14سال سے امریکی قید میں ہے۔ جسے 30مارچ 2003 کو اغواء کیا گیا۔ پھر اس کی کوئی خیر خبر نہیں تھی۔ اس کے گھر والے انتظار کی سولی پر لٹکے رہے۔ کتنا ہی عرصہ گزر گیا۔ تب جا کر پتا چلا کہ وہ تو افغانستان کے قید خانے میں ہے۔ پانچ سال کی گمشدگی کے بعد ایف بی آئی اسے امریکہ لے گئی۔جہاں اس پر مقدمہ چلایا گیا۔ اسے انصاف کی علمبردار عدالت نے 86سال قید کی سزا سنائی۔ تب سے آج تک وہ قیدِ ناحق کی سزا بھگت رہی ہے۔ انسانی حقوق کے علمبرداروں کا دوہرا معیار ہے۔ کتنے ہی دن ہی انسانی حقوق کے آئے اور گزر گئے مگر پاکستانی شہری کے لیے انصاف کے دروازے بند ہیں۔ریاستیں ہی حقوق کو پامال کریں گی تو عوام کو انصاف کون دے گا؟ ڈاکٹر عافیہ کے لیے پندرہ سالوں سے انسانی حقوق کی بدترین خلاف ورزیاں کی گئی ہیں ،مگر کوئی پوچھنے ولا نہیں۔

اس کے اپنے ملک کے حکمران وعدے سے انحراف کر رہے ہیں۔ جب وہ قید ہوئی تو یہاں پاکستان میں شور غوغا ہوا کہ اسے امریکی قید سے رہائی دلائی جائے۔ اس وقت کے وزیر اعظم یوسف رضا گیلانی اور اپوزیشن لیڈر میاں صاحب نے پاکستانی قوم سے وعدہ کیا اور یقین دلایا تھا کہ وہ عافیہ کو پاکستان لائیں گے۔ لیکن وہ تو اب تک قید ہیں ناں؟ اور ان کی قید قومی اقدام پر ایک دھبہ ہے۔ وہ اپنی بات پوری کر کے رکے، تو میں نے کہا۔ انہوں نے چائے کا گھونٹ بھرا اور بولے: ہاں!! بالکل، کاش صاحب اقتدار و اختیار سمجھ جائیں کہ یہ تو قوم کی عزت و غیرت کا معاملہ ہے۔ قوم کی بیٹیاں بھی ماؤں کی طرح سانجھی ہوتی ہیں۔ انہیں قید سے رہائی دلانا حکمرانوں کی زمہ داری ہے۔ وہ خاموش ہوئے،ٹھنڈی آہ بھری ،پھر بولے: ستمبر 2010 میں حکومت نے دعویٰ کیا کہ اس نے امریکی حکام سے عافیہ کی باعزت رہائی کا مطالبہ کیا ہے۔ عافیہ قید ہی رہی کہ 3 سال اور گزر گئے۔ الیکشن کے دن قریب آئے تو تمام سیاسی رہنماؤں نے ڈاکٹر عافیہ کے معاملے پر سیاست کی، بڑے بڑے سیاستدانوں نے اپنی مہم میں کہا کہ وہ قوم کی بیٹی کو واپس لائیں گے۔ ہر حد تک جائیں گے، ہر کوشش کریں گے۔ مگر افسوس کسی نے اس کے لیے کوئی قدم نہ اٹھایا۔ الٹا وعدہ بھول ہی گئے۔لیکن کوئی بات نہیں ، انتخابات قریب ہیں۔ تمام مذہبی و سیاسی جماعتوں کے قائدین سے آنے والے الیکشن میں قوم سوال کرے گی بتاؤ عافیہ کی رہائی کے حوالے سے سینٹ و قومی اسمبلی میں کیا کردار ادا کیا؟ جو پارلیمنٹ عوام کی نمائندگی کا حق ادا نہ کرے عوام اس کو یکسر مسترد کرنے کا حق محفوظ رکھتے ہیں۔

2013 میں میاں نواز شریف اقتدار میں آئے، انہوں نے بھی وعدہ کیا تھا کہ عافیہ صدیقی کو رہا کرایا جائے گا۔ انہوں نے ڈاکٹر عافیہ صدیقی کی والدہ عصمت صدیقی صاحبہ سے ملاقات میں کہا تھا کہ امی جان!میں آپ کا بیٹا ہوں۔ میں وعدہ کرتا ہوں کہ عافیہ کو واپس لاؤں گا۔ مگر وہ اس وعدے کو بھول گئے۔ انہوں نے امریکا کے دورے کے درمیان بھی عافیہ کو بھلائے رکھا ۔ تاحال نہ ہی انہوں نے کوئی اقدام اٹھایا نہ ہی مناسب انداز سے امریکا سے رہائی کا معاملہ اٹھایا، نہ مطالبہ کیا۔ سال رواں کے شروع میں عافیہ کی رہائی کا، امریکا کی جانب سے ملنے والا موقع بھی گنوا دیا۔ لیکن میاں صاحب تو اب اقتدار میں نہیں رہے، اور انہی کی جماعت کے وزیر خارجہ خواجہ آصف کہتے ہیں کہ نواز شریف نے کیے تمام وعدے پورے کر لیے۔ وہ سانس لینے رکے تو میں نے کہا۔

وہ مسکرائے، ہاتھ میں پکڑا چائے کا کپ میز پر رکھا اور بولے: شریف خاندان کی سیاست کا سورج غروب ہو رہا ہے ناں۔۔۔! ایسے اعلان تو کریں گے ہی۔ اور ابھی انتخابات کو سات آٹھ ماہ باقی ہیں۔ اقتدار میں تاحال انہی کی جماعت ہے۔ یہ اب بھی اگر ڈاکٹر عافیہ کے معاملے کو امریکا سے اٹھائیں، ان کی رہائی کے لیے صحیح معنوں میں کوشش کریں تو ان کا سورج دوبارہ طلوع ہوسکتا ہے۔ اور اگر یہ حکومت یہ کام نہ کر سکی تو آنے والے انتخابات میں اکثریت ووٹ نہیں ملے گا۔ کیوں کہ لوگ عافیہ کو واپس نہ لانے کی صورت میں ووٹ نہ دینے کی قسم کھا چکے ہیں۔ وہ خاموش ہوئے ، چائے کا کپ اٹھایاپھر بولے: موجودہ وزیراعظم آئے روز پارٹی ایشوز پر اجلاس بلاتے ہیں، اور بھی بہت سے کام، اقدام ہیں جو اس وزیراعظم کو دوسروں سے ممتاز کرتے ہیں۔ یہ اگر ڈاکٹر عافیہ کے معاملے کو بھی اٹھائیں تو قوم ان کا یہ احسان نہیں بھولے گی۔ اور وطن عزیز کی تاریخ میں ان کا نام سنہرے حروف میں لکھا جائے گا۔ انہیں بسر و چشم بٹھائے گی۔ عافیہ کی رہائی حکمرانوں کے ذمہ قرض اور عوام کے ذمہ فرض ہے۔ لیکن حقیقت کی آنکھ سے دیکھا جائے تو حکومت کا رویہ تذبذب، تامل، پس و پیش، حیص بیص کے تانے بانے میں الجھا ہوا ہے اور یہ سوال ابھی باقی ہے کہ ڈاکٹر عافیہ صدیقی کو وطن واپس کون لائے گا؟؟

Abdul Basit Zulfiqar
About the Author: Abdul Basit Zulfiqar Read More Articles by Abdul Basit Zulfiqar: 38 Articles with 30845 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.