بین الاقوامی سطح پر اقوام کے مابین جارحیت توسیع پسندانہ
عزائم ،احساسِ برتری اور تعصبات سے جنم لیتی ہے ۔ مشرقِ وسطیٰ میں۱۴مئی
1948ء میں اسرائیل کے قیام اور پھر 1967ء اور1973ء میں عرب اسرائیل جنگوں
کے بعد فلسطینیوں پر مظالم نے دنیا بھر کے مسلمانوں کے دل میں اسرائیل
کیلئے نفرت اور جارحیت کے جذبات پیداکردیے ۔دوسری طرف امریکی توسیع پسندانہ
عزائم اور بے انصافیوں نے بھی جلتی پر تیل کا کام کیا ۔ان بین الاقوامی
مظالم اور بے انصافیوں کی کوکھ سے اُسامہ بن لادن اور القاعدہ نے جنم لیا ۔اب
دنیاکو اُسامہ ،القاعدہ اور دیگر مسلح انتہاپسند تنظیموں کی دہشت گردی یاد
رہ گئی لیکن جو مظالم اور بے انصافیاں ان کے محرکات بنے وہ سب کو بھول گئے
۔۹/۱۱ کے ایک چھوٹے سے سانحہ کے انتقام میں افغانستان ،عراق ،پاکستان میں
لاکھوں انسانوں کو صفحہ ء ہستی سے مٹادیاگیا لیکن کشمیر اور فلسطین کے
مظالم پر کوئی بین الاقوامی الائنس نہیں بنا ۔بین الاقوامی توسیع پسندانہ
عزائم کی ایک جھلک سنٹرل ایشیا میں بھی دیکھی جاسکتی ہے ۔کیسپین (بحرقزوین
یا بحر گیلان)کے قدرتی ذرائع (تیل اور گیس ) پر روس اور یورپ کی نظر رہی ہے
۔یہاں اندازاً 48 بلین بیرل تیل 8.7ٹریلین کیوبک میٹر گیس موجودہے۔1990ء سے
یہ علاقہ اپنے قدرتی وسائل کی وجہ سے روس اور امریکہ کے درمیان وجہ نزاع
بنا رہا ۔ امریکہ اور یورپ کی بڑی بڑی تیل کی کمپنیاں ان ذرائع پر نظر رکھے
ہوئے تھیں ۔ وسط ایشیائی ریاستیں تُرکمانستان،
قازغستان،تاجکستان،ازبکستان،کرگیزستان بشمول افغانستان ان بین الاقوامی
صیادوں کی وجہ سے بدامنی کا شکار ہوگئیں ۔صاف ظاہر ہے پیش آمدہ مسائل اور
مقاصد کیلئے خفیہ ایجنسیاں ریاستی تانے بانے کو اُلجھانے کیلئے اپنا کام
کرتی ہیں اور یہاں بھی ایسا ہی ہوا۔ازبکستان کے علاقہ وادی ٗ فرغانہ
میں1990ء میں ازبک اور کرگیزگروہوں کے درمیان خون ریز تصادم شروع ہوا جس
میں تقریباً ہزار لوگ مارے گئے ۔تاجکستان 1992ء سے 1997ء تک سول وار کی آگ
میں جلتارہا ۔ازبکستان میں انہی حالات کی وجہ سے اسلامی مسلح تنظیم آئی ایم
یو (اسلامک موومنٹ آف ازبکستان)نے جنم لیا ،اس تنظیم کا ماٹو پہلے وزیراعظم
کریمووکا تختہ اُلٹنا اور پھر پور ے وسط ایشیا میں اسلامی خلافت کا نفاذ
تھا ۔جب امریکہ نے افغانستان میں بلاجواز حملہ کیا تو آئی ایم یو کے
جنگجوؤں نے طالبان کے ساتھ اس جنگ میں شابہ بشانہ حصہ لیا۔
امریکہ کی ایشیا میں عسکری اور سیاسی پالیسی ناکامی کا شکار ہورہی ہے۔ایشیا
میں چین ،روس ،پاکستان ،ایران ،سعودی عرب اور ترکی کی شکل میں ابھرتاہوا
بلاک امریکہ کیلئے مشکلات پیدا کررہاہے۔افغانستان ،پاکستان اور وسط ایشیائی
ممالک میں انتشار امریکہ کے مفاد میں ہے ۔کیونکہ افغانستان کا انتشار
پاکستان کا انتشار ہے۔اور پاکستان ہی وہ واحد ملک ہے جو خطے میں اسرائیلی
اور امریکی مفادات کی راہ میں دیوار ہے۔افغانستان ،پاکستان اور وسط ایشیائی
ممالک کی جغرافیائی اہمیت بہت زیادہ ہے۔اقبال ؒ نے اس حقیقت کی طرف بہت
پہلے اشارہ کردیا تھا ۔
ٓآسیا یک پیکر ِ آب و گل است
ملت ِ افغان در آ ں پیکر دل است
از کشاد اُو کشاد آسیا
وز فساد ِ او ،فساد آسیا
یعنی ایشیا اگر جسم ہے تو افغانستان اس جسم میں دل کی طرح ہے ۔افغانستان کی
خوشحالی ایشیا کی خوشحالی اور اس کا فساد پورے ایشیا کا فساد ہے‘‘۔ امریکہ
افغانستان میں امن اسلئے نہیں ہونے دے گا کیونکہ اس امن سے پورے ایشیا میں
امن ہوگا اور ایشیا کا امن امریکی مفادات کی موت ہے۔افغانستان پر بلاجواز
حملہ بین الاقوامی عدل وا نصاف کی موت ہے ۔بغیر ثبوت اور ٹھو س شواہد کے
ایک قوم کو بموں سے جلادینا ،ایسے بم جنہوں نے پتھروں کو سرمہ بنادیا ،بین
الاقوامی عدل و انصاف کے منہ پر تھپڑ ہے۔اقبال ؒ نے بہت پہلے اقوام ِ متحدہ
کے بارے میں کہاتھا کہ یہ کفن چوروں کی تنظیم ہے جس نے قبروں کی تقسیم
کیلئے یہ انجمن بنائی ہے۔امریکہ کے تعلقات پاکستان کیساتھ منافقت اور
مفادات پر مبنی ہیں ۔امریکی کی خارجہ پالیسی ’’استعمال کرو اور پھینک دو
‘‘کے اُصول پر مبنی ہے ۔وزیرِ دفاع خواجہ آصف کے ایک ٹویٹ پر نظر پڑھی تو
حافظ ِ شیراز کا مصرعہ یاد آگیا ۔حافظ نے کہا تھا ’’الحرب المجرب حلت بہ
الندامہ‘‘ یعنی جس نے آزمائے ہوئے کو آزمایا وہ شرمندہ ہوا ۔خواجہ آصف نے
لکھا :
History Teaches us not to trust The United States
تاریخ ہمیں سکھاتی ہے کہ امریکہ پر بھروسہ نہیں کرنا ۔ان لفظوں کو پڑھتے
ہوئے غصے سے بھر پورایک طنزیہ مسکراہٹ میرے لبوں پر آئی اور ساتھ ہی وہ
محاورہ بھی یاد آیا جس میں سو جوتے اور سو پیاز کھانے کا ذکر ہے۔خواجہ آصف
نے کہا تاریخ ہمیں سکھاتی ہے اے کاش خواجہ آصف تاریخ کی بجائے کہتے کہ قرآن
ہمیں سکھاتاہے۔قرآن ِ کریم میں اﷲ رب العزت نے فرمایا :’’اے ایمان والو
یہود و نصاریٰ کو دوست نہ بناؤ وہ آپس میں ایک دوسرے کے دوست ہیں اور جس نے
تم میں سے اُن کو دوست بنایا سو وہ ان ہی میں سے ہے ‘‘(سورہ مائدہ آیت
51پارہ 5)۔سورہ ال ِ عمران میں ارشاد ہے :’’مسلمان کافروں کو دوست نہ
بنائیں مسلمانوں کے سوا اور جو ایسا کرے گا اس کا اﷲ سے کچھ تعلق نہ رہا
‘‘۔(آیت 28)۔اب ہم حکومت سے پوچھتے ہیں کہ حکومت نے یہ الفاظ کیوں کہے؟ یہی
الفاظ جب علما ئے اسلام کہتے تھے تو تم انہیں مولویت کہہ کر ٹال دیتے تھے ۔مولوی
اﷲ اوررسول ﷺ کی بات کہتے ہیں ،اپنی بات نہیں کہتے ۔آئیے اس حقیقت کو
تعلقات کی تاریخ کی روشنی میں دیکھتے ہیں۔ 20اکتوبر 1947 ء کوقیام ِ
پاکستان کے دو ماہ اور چھ دن بعد پاکستان اور امریکہ کے سفارتی تعلقات قائم
ہوئے ۔1956ء میں پہلی بار امریکہ نے پاکستان کو اپنے مقاصد کیلئے استعمال
کیا ،چونکہ امریکہ پاکستان کی جغرافیائی اور سٹراٹیجک اہمیت سے واقف تھا ،اُس
نے روس کے بین البر اعظمی (Intercontinental ballistic missiles)کی جاسوسی
کیلئے پشاور ائیر اسٹیشن (Lease)پر لیا ۔یہ اتنا خفیہ تھا کہ ذوالفقار علی
بھٹو جیسی شخصیات کو داخلے کی اجازت نہیں تھی ۔پاک بھارت جنگوں میں امریکہ
کا پاکستان کے ساتھ جو تعاون رہا ،سب جانتے ہیں ۔1979ء سے 1989ء تک امریکہ
نے روس کو شکست دینے کیلئے ’’آپریشن سائیکلون‘‘میں پاکستان کی دفاعی قوتوں
کو استعمال کیا ،افغانستان میں مجاہدین کو اسلحہ دیا ۔پاکستان کے ایٹمی
پروگرام کو ’’پریسلر امنڈمنٹ ‘‘کے ذریعے روکنا چاہا لیکن ہوا تو وہی جو اﷲ
رب العزت نے چاہا ۔کشمیر ایشو پر امریکہ نے پاکستان کا ساتھ نہیں دیا ۔افغانستان
میں بلا جواز جنگ کیلئے نیٹو فورسز کے ساتھ پاکستان کو بھی اپنے مقاصد
کیلئے استعمال کیا جس نے پاکستان نے بھاری قیمت چکائی ۔مزے کی بات دیکھیں
ہمارے افغانستان کو پاکستان کا دشمن بنا کر امریکہ نے خود بھی پاکستان کو
مارا اسے کہتے ہیں ایک تیر سے دو شکار کرنا ۔11جون 2008ء میں ’’گورا پڑی
ائیر سٹرائیک ‘‘میں پاکستان کی فرنٹیئر کور کے دس جوانوں کو شہید کردیا
۔26نومبر 2011ء کو مہمند ایجنسی میں ’’سلالہ پوسٹ ‘‘ پر ہوائی حملہ کرکے
24جوانوں کو شہید کردیا ۔
خواجہ آصف اپنی قربانیاں یوں امریکیوں کے سامنے رکھ رہا ہے جیسے ایک گدا
اپنے آقاکو اپنی وفاداریوں کی Justification دے رہا ہو ۔انداز ملاحظہ
فرمائیں ۔’’تم نے ہمارے اڈوں سے افغانستان پر 57800حملے کیے ۔جو آپ کا دشمن
وہ ہمارا دشمن ۔ہم نے گوانتانامو بے کو مجاہدین پکڑ پکڑ کر بھردیا ۔تمہارا
اسلحہ بارود ،جنگی سازوسامان اورافواج ہماری سرزمین سے گزر کر جاتے رہے ۔ہمارے
ہزاروں فوجی جوان ،آفیسرز اور سویلین تمہاری چھیڑی ہوئی جنگ کی بھینٹ چڑھ
گئے۔ہم نے تمہیں اپنی معیشت کو تباہ کرلیا مگر تم پھر بھی خوش نہ ہوئے ہم
نے تمہیں ہزاروں ویزے دیے جس کی وجہ سے تمہارے ’’بلیک واٹر‘‘ملک بھر میں
پھیل گئے ‘‘۔ اور اس وفاداری کا نتیجہ کیا ہے ؟یکم جنوری 2018ء کو امریکی
صدر ٹرمپ نے کہا
: "they have given us nothing but lies & deceit"
پاکستان نے ہمیں دھوکے اور جھوٹ کے سوا کچھ نہیں دیا ۔ کاش خواجہ آصف نے
امریکی صدر کے بجائے اﷲ اور اُس کے رسول ﷺ کے سامنے یہ قربانیاں رکھی ہوتیں
پھر ان کی قدردانی دیکھتے ۔کیا ضرورت تھی اُس قوم کیلئے لڑنے کی جس کے بارے
میں اﷲ رب العزت نے واضح الفاظ میں منع فرمایا ہے :’’’’اے ایمان والو یہود
و نصاریٰ کو دوست نہ بناؤ وہ آپس میں ایک دوسرے کے دوست ہیں اور جس نے تم
میں سے اُن کو دوست بنایا سو وہ ان ہی میں سے ہے ‘‘(سورہ مائدہ آیت 51پارہ
5)۔سیاسی ،سفارتی یا مصلحت پر مبنی معاہدہ کرنے اور دوستی کرنے میں فرق ہے
۔ہمیں یہ تسلیم کرنا لینا چاہیے کہ ہم نے معاہدوں سے زیادہ امریکیوں سے
دوستی کی ہے یہ سارا عذاب جو ہم پر آیا ہے اسی دوستی کا نتیجہ ہے اگریہ
دوستی قائم رہی تو یہ تباہی ہمارا مقدر رہے گی ۔قیام ِ پاکستان سے لیکر
2001ء تک افغانی بھی یہیں تھے ،پٹھان بھی یہیں تھے ،پشتون بھی یہیں تھے ،ازبک
بھی یہیں تھے ،عرب بھی یہیں تھے اور طالبان بھی یہیں تھے لیکن کسی نے
ڈیورنڈ لائن پر پاک فوج کے خلاف ہتھیار نہیں اُٹھائے ،کسی نے پاکستان کے
قانون کو چیلنج نہیں کیا ۔اس صاف دودھ میں جو مکھی پڑگئی ہے اُس کا نام ہے
’’امریکہ ‘‘اس مکھی کو افغانستان اور پاکستان سے نکال دو سب ٹھیک ہوجائے گا
۔ امریکہ سے تعلقات ختم کرنے کیلئے اتنی ہی بات کافی تھی کہ انہوں نے
گستاخانہ فلم بنانے والوں کو ہمارے حوالے نہیں کیا ۔سلالہ کے جوانوں کا خون
کافی تھا اس تعلق کو مٹانے کیلئے لیکن سو جوتے اور سو پیاز کھانا شاید
ہماری روایت بن چکی ہے لیکن اب یہ روایت نہیں چلے گی ۔ہمیں امریکی مفادات
کیلئے کام کرنا بند کرنا ہے ۔ہمیں اپنے مفادات کیلئے کام کرنا ہے ۔ ۔تمام
ایشین اقوام اس حقیقت کا ادراک کر چکی ہیں کہ جہاں بھی فتنہ ہے اُس کے
پیچھے امریکہ ہے اور امریکی قیادت کے پیچھے یہودی لابی ہے۔مسلح تنظیمیں جو
سی آئی اے کی فنڈنگ سے چل رہی ہیں ان سے اپنا ناطہ ختم کریں کوئی تمہیں
نہیں مارے گا ،تم پُرامن رہو ،پاک فوج تمہارے خلاف بلاوجہ کیوں آپریشن کرے
گی ؟۔ ہم ایشیا میں امریکی اثرورسوخ کا خاتمہ کرسکتے ہیں اس کے مستقبل کا
فیصلہ کرسکتے ہیں ۔روس ،چین ،عرب ،ترکی ،ایران،مصر،عراق ،شام ،لیبیا،لبنان
ہمارے ساتھ ہیں ،انشاء اﷲ جاپان بھی ہمارے ساتھ ہوگا۔ہندوستانی مسلمان ،بنگالی
،افغانی اور کشمیری بھی ہمارے ہم زبان ہوں گے ۔ ایشیا میں امریکہ کا مستقبل
تاریک ہے کیونکہ ایشیا نے امریکہ کے ہاتھوں بہت زخم کھائے ہیں اب اس کے
چنگل سے نکلنے کا وقت آگیاہے ۔اب ایشیا میں کوئی ناگاساکی اور ہیروشیما
نہیں بنے گا اب باری کسی اور بر اعظم کی ہے ۔
کھول آنکھ ،زمیں دیکھ ،فلک دیکھ ،فضا دیکھ
مشرق سے اُبھرتے ہوئے سورج کو ذرا دیکھ |