اندھا اعتقاد

تحریر: سارہ واحد، کوئٹہ
ذکیہ سخت پریشانی میں گھر سے نکلی اور سیدھا سائرہ کے گھر پہنچ گئی۔ رسمی سلام کے بعد بند مٹھی کھول کے سائرہ کو دیکھایا ۔ ’’یہ دیکھو 3ٹافیاں سفید کاغذ میں لپٹی الماری کے کپڑوں میں رکھی تھیں، میں تو ڈر گئی ہوں، یہ کیا معاملہ ہوسکتا ہے‘‘۔
’’سائرہ مجھے تو کچھ اور ہی معاملہ لگتا‘‘۔ میں تمھیں ایک بابا جی کے پاس لے جاتی ہوں وہ سب بتا دیں گے ‘‘۔ ذکیہ نے معاملے کو ہوا دیتے ہوئے کہا۔
ایک دن سائرہ اور ذکیہ ہانپتی کانپتی بابا جی کے آستانے پر پہنچ گئیں۔ ذکیہ نے کانپتے ہاتھوں سے پردہ اٹھایا۔ آستانہ کھچا کھچ عورتوں سے بھرا ہوا تھا ۔ سامنے ایک میلا کچلا گندہ مکروہ چہرے والا شخص بیٹھا تھا ،ایسے لگ رہا تھاجیسے برسوں سے نہیں نہایا ۔ عجیب شکل، بکھری ہوئی اور مٹی میں اٹی داڑھی تھی ۔ بابا جی بلند آواز میں دیوانہ وار اﷲ ہو اﷲ ہو کا مسلسل ورد کر رہا تھا۔
ذکیہ ڈرتے ڈرتے آگے بڑھی اور اور مٹھی کھول کر کاغذ میں لپٹی ٹافیاں بابا جی کی طرف بڑھا دیں۔ ’’باباجی یہ گھر کی الماری سے ملی ہیں جبکہ کوئی لایا بھی نہیں ہے‘‘۔ بابا جی نے کاغذ، کھولا اور آنکھیں بند کر کے کچھ پڑھ کر دم کیا اور پھر آنکھیں کھول دیں۔ ’’اﷲ اﷲ ، یہ کوئی عام چیز نہیں ہے بی بی! تیرے دشمن کا وار ہے، تجھ پہ سخت جادو ہوا ہے‘‘۔ ذکیہ کی تو جان ہی نکل گئی۔ ’’بابا جی اب اس کا توڑ کیا ہے ؟ اب کیا کروں میں ۔۔۔؟
’’توڑ ہے بی بی ! اس کے لیے بہت محنت کرنا پڑے گی، پیسے بھی لگ سکتے ہیں‘‘۔ بابا جی نے گھورتے ہوئے کہا۔ ’’کتنا پیسے اور کیسی محنت بابا جی؟‘‘ ذکیہ نے گھبرائے ہوئے لہجے میں پوچھا۔ ’’3سفید مرغے ، ایک کالا بکرا ، 7ہزار نقد آپ کو لاکر دینے ہوں گے۔ یہ سب اس خطرناک جادو کے توڑ میں مدد دیں گے‘‘۔ بابا نے اپنا آخری وار کرتے ہوئے بے نیازی سے کہا۔
ذکیہ کے تو جیسے پاؤں سے زمین نکل گئی۔ ’’بابا جی میں کیسے کر سکتی ہوں، ہمارا تو اپنا گھر مشکل سے چلتا ہے‘‘۔ وہ پریشان ہوتے ہوئے بولی۔ ’’یہ تیرا مسئلہ ہے، اب جا جب بندوبست ہو جائے تب آنا‘‘۔ بابا جی نے بے رخی سے منہ پھیرتے ہوئے کہا۔
ذکیہ مایوس گھر لوٹ آئی۔ سوچا سائرہ سے ہی ادھار لے لیکن اس کے تو اپنے حالات نہیں ٹھیک تھے۔ یہ سوچ سوچ کر پریشان تھی کہ چھوٹے بیٹے عبدﷲ پہ نظر پڑی جو الماری سے کپڑے نکال رہا تھا ۔ ’’ارے عبدﷲ! کیا کر رہے ہو اور کیا تلاش کر رہے ہو الماری میں‘‘ ذکیہ نے اس سے ڈانٹ کے اندا ز میں پوچھا۔ امی کے اچانک تلخ لہجے سے معصوم عبدﷲ ایک دم گھبرا گیا۔ ڈرتے ہوئے کہا ’’ماما میں نے الماری میں اپنی ٹافیاں چھپائی تھیں ۔ علی بھائی کھا جاتے ہیں ہمیشہ، وہ اب مجھے نہیں مل رہیں‘‘۔
عبداﷲ کی بات سن کر ذکیہ جہاں کھڑی تھی وہیں کھڑی رہ گئی۔ مارے شرمندگی کے جسم ہی سن ہو گیا تھا۔ وہ سوچ رہی تھی اگر وہ اﷲ سے دور نا ہوتیں تو ایک جاہل بابا کی باتوں میں نا آتیں اور نہ ہی وہ کبھی اتنا اندھا اعتقاد نہ کرتیں۔اس کے لب ہلے اور بے اختیار نکلا، ’’میرے اﷲ مجھے معاف کر دے ، بیشک میں ہی گناہگارہوں‘‘۔

YOU MAY ALSO LIKE: