میں اک نوآموز لکھاری ہوں اور یہ میرا دوسرا کالم ہے میرا
پہلا کالم ’’تعلیمی نظام اور طبقاتی تقسیم‘‘کے نام سے شائع ہو چکا ہے میں
اس فیلڈ میں اس لیے آئی ہوں کہ حقائق کی روشنی میں لوگوں کو وہ حقیقت اور
سچ بتاؤں جس کو جانتے ہوئے بھی ہم انجان بننے کی کوشش کرتے ہیں ،میں آج کے
اس پرفتن دور میں سماجیات پہ لکھنا بہتر خیال کرتی ہوں اور میرا پہلا کالم
بھی اسی حساب سے تھا اور میرا آج کا موضوع ’’حفظان صحت اور چور بازاری‘‘ ہے
مجھے امید ہے کہ یہ کالم پڑھ کر آپ شعور کی منازل کو طے کرے گے اور اپنے
اردگرد اس کا سدباب کرنے کی حتی الامکان کوشش کرے گے۔سوشل میڈیا ایسی چیز
ہے جس کے ذریعے آپ تمام قسم کے حالات و واقعات سے باخبر رہ سکتے ہیں۔پچھلے
دنوں اک ویڈیو فیس بک پہ گردش کررہی تھی جس میں لال مرچ جو کہ ثابت حالت
میں تھی اور اسکو پیسنے کے لیے مشین میں ڈالا جارہا تھا اور اس میں موٹے
تازے چوہے بھاگ دوڑ رہے تھے اس چیز سے بے نیاز ساتھ میں اْن چوہوں کو بھی
پیسا جارہا تھا۔خدارا پناہ ،آجکل سردی کا موسم ہے اور مچھلی عام طور پر
زیادہ کھائی جاتی ہے پہلی بات تو یہ ہے کہ مچھلی تازی کی بجائے پانچ چھ
دنوں کی باسی ملتی ہے دوسرا ہم لوگ باہر کی تلی مچھلی کھانے کو زیادہ ترجیح
دیتے ہیں پچھلے دنوں لاہور کی سب سے بڑی مچھلی کی دکان جہاں سے مچھلی کھانے
پورا لاہورامڈآتا تھا فوڈ اتھارٹی کے مارے گئے چھاپے کے دوران مچھلی کو نمک
مرچ لگا کر باتھ روم تک میں محفوظ کیا گیا تھا۔کچھ ماہ پہلے کی بات ہے کہ
لیہ کے علاقے میں بچے کی پیدائش کی خوشی میں زہریلی مٹھائی کھانے سے بارہ
افراد اپنی جان سے ہاتھ دھو بیٹھے جس میں چھ سگے بھائی اور ان کے دو بچے
بھی شامل ہیں اس حقیقت سے انکار نہیں کیا جا سکتا کہ ہمارے ملک میں کھانے
پینے کی اشیا کی تیاری میں حفظان صحت کے اصولوں کا خیال کم ہی رکھا جاتا ہے‘
جس کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ ایسی اشیا تیار کرنے والوں کی نگرانی کا کوئی
اہتمام نہیں ہے۔ جس کا جو جی چاہتا ہے تیار کر کے لوگوں کو پیش کر دیتا ہے
اور تعجب کی بات یہ ہے کہ یہ اشیا کھاتے ہوئے وہ ذرہ برابر نہیں ہچکچاتے۔
حفظان صحت کے اصولوں کے بارے میں لوگوں کی آگہی کا اندازہ اس امر سے لگایا
جا سکتا ہے کہ ریڑھیوں اور ٹھیلوں پر کھانے پینے کی اشیا فروخت کرنے والے
استعمال شدہ برتن ایک بالٹی میں رکھے گئے پانی میں بار بار دھوتے اور اگلے
گاہکوں کو ان میں اشیا ڈال کے کھانے کے لیے پیش کرتے ہیں‘ لیکن عوام میں سے
کبھی کسی نے اس بات پر اعتراض نہیں کیا۔ ٹھیلے والے سے کبھی یہ نہیں کہا کہ
وہ بیماریاں پھیلانے والا یہ کام کیوں کرتا ہے۔ اسی طرح کھانے پینے کی کئی
اشیا میں ملاوٹ کی جاتی ہے‘ لیکن ان کے صارفین کی جانب سے کبھی آواز احتجاج
بلند نہیں کی گئی؛ چنانچہ یہ طے ہے کہ عوام میں حفظان صحت کے بارے میں آگہی
بڑھانے اور نگرانی کا کوئی ٹھوس انتظام کرنے تک کھانے پینے کی اشیا میں
ملاوٹ کا سدباب کرنا ناممکن ہے۔ یہاں صورتحال یہ ہے کہ بڑے بڑے نامور
ہوٹلوں میں‘ جہاں ایک وقت کے کھانے کے ہزاروں روپے وصول کیے جاتے ہیں‘
صفائی کی حالت ناگفتہ بہ ہوتی ہے‘ چھوٹے ہوٹلوں کا تو سوال ہی کیا۔ ضرورت
اس امر کی ہے کہ حکومت اشیائے خور و نوش میں ملاوٹ روکنے کے لیے بھی
اقدامات عمل میں لائے جائیں۔ |