دنیا کی بڑی طاقت یا علاقے کے بڑے بدمعاش کے لئے یہ بات
ناقابل برداشت اور ناقابل قبول ہوتی ہے کہ وہ اپنی حقیقی شکست کا اعتراف
زمینی حقیقت سمجھ کر کر لے کیونکہ عالمی طاقت یا علاقائی بدمعاش کی اصل
طاقت اُس کی دہشت اور رعب ہوتا ہے جو ختم ہونے کی صورت میں اُس کا رعب اور
دبدبہ ختم ہو جانا اُس کی سیاسی موت ہوتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ امریکہ نے ماضی
میں بھی جہاں جہاں شکست کھائی اُس کا ملبہ دوسرے ممالک پر ڈالا۔ افغانستان
میں سپر پاور امریکہ Super Poor افغان طالبان سے شکست کھا چکی ہے۔ یہ اﷲ
تعالیٰ کی شان اور حکمت عملی ہے کہ ہاتھی کو چیونٹی سے مروا دے۔ امریکہ جو
بدمست ہاتھی کی طرح افغانستان پر چڑھ دوڑا تھا اور وہاں اُس نے آگ اور
بارود کی خوفناک بارش برسا کر بھی اپنے اندازے کے مطابق طے شدہ وقت کے بعد
بھی کامیابی حاصل نہیں کی۔ خود امریکی حلقے تسلیم کرتے ہیں کہ افغانستان کے
چالیس فیصد علاقے پر طالبان کی عملداری ہے۔ بھلا چالیس فیصد علاقہ زیر قبضہ
ہوتے ہوئے طالبان کو افغانستان چھوڑ کر پاکستان میں پناہ گاہوں کی کیوں
تلاش اور محتاجی ہوگی لیکن بھیڑیے اور بھیڑ کے بچے کی کہانی تو آپ نے سنی
ہی ہوگی جس میں بھیڑیا بھیڑ کے بچے کو شکار کرنے کے لئے پہلے پراپیگنڈا مہم
شروع کرتا ہے اور الزام لگاتا ہے کہ بھیڑ کے بچے تم پانی گندلا کررہے ہو تو
بھیڑ کا بچہ جواب دیتا ہے کہ آپ اوپر والی جگہ سے پانی پی رہے ہیں میں تو
ڈھلوان پر ہوں پانی تو آپ کی طرف سے نیچے آ رہاہے۔ جس پر بھیڑیا کہتا ہے
پھر یہ تمہارے باپ دادا نے گندلا کیا ہوگا۔ آج کل یہی کہانی امریکہ بار بار
پاکستان پر الزام تراشیاں کرکے دہرا رہا ہے۔ سی آئی اے کے موجودہ سربراہ نے
پاکستان پر دھمکی دھونس اور الزامات کی تازہ بارش کردی ہے مگر اسی سی آئی
اے کے سابق سربراہ ڈیوڈ پیٹریاس کے مطابق امریکی فوج کو افغانستان میں
پاکستان کی مداخلت کے کوئی ثبوت نہیں ملے اور نہ ہی ایسے کوئی شواہد موجود
ہیں کہ اسلام آباد دہشت گردوں کی پشت پناہی کررہا ہے۔ حتیٰ کہ امریکی صدر
ڈونلڈ ٹرمپ کی ذہنی صحت کے بارے میں خود امریکہ کے اندر بہت سارے سوالات
اٹھائے جا رہے ہیں۔ مگر ڈونلڈ ٹرمپ کا رویہ ’’ایک پاگل کو کئی دیوانے
سمجھائیں گے کیا‘‘ کی عکاسی کرتا ہے۔ مائیکل وولف کی نء یکتاب Fire and
Fury، صدر ٹرمپ کی صدارت کے ایک غیر محتاط اور بے وقار منظر نامے کا ایک
ناقابل فراموش اظہار ہے۔ یہ کسی کے لئے بھی حیران کن امر نہیں ہوگا کہ
امریکی صدر ملک کے لئے ایک مایوس کن اور غیر مستحکم کردار ثابت ہوئے ہیں جن
کے عوامی بیانات کو قابل ثبوت حقائق نے مسترد کردیا ہے۔ ایک صدارتی شخصیت
کا حامل ہونے سے قاصر رہتے ہوئے ٹرمپ نے صدارتی شخصیت کو بے وقار کردیا
ہے۔تجربہ کار اور سمجھ بوجھ کے حامل مشیروں کی عدم موجودگی میں ٹرمپ کا
وہائٹ ہاؤس اس وقت دو دھڑوں میں تقسیم ہو چکا ہے جس میں سے ایک دھڑے کی
قیادت ان کی بیٹی ، ایونکا، داماد جبکہ دوسرے دھڑے کی قیادت Stev Bannon کے
ہاتھ میں ہے جو ایک زمانے میں ٹرمپ کے مرکزی مشیر تھے اور ان کے عروج و
زوال کی کہانی سے معلوم ہوتا ہے کہ ٹرمپ دنیا کے انتہائی ہم عہدے کے لئے کس
قدر ناموزوں ہیں۔
بینن کا نقطہ نظریہ ہے کہ ٹرمپ اپنے مدت اقتدار پوری نہیں کرسکیں گے اور ان
کا یہ انجام یا تو ان کے بیٹے اور روسیوں کے درمیان غیر محب وطن ملاقاتوں
کے باعث یا پھر وفاقی مستغیثوں کے ہاتھوں ہوگا جو اس وقت ٹرمپ کے خلاف
سنگین مالی جرائم بے نقاب کررہے ہیں۔ اس تجزیہ کی بنیاد پر بینن نے اس امر
کے لئے یکساں مواقع کا اظہار کیا کہ یا تو ٹرمپ کو کانگریس معزول کردے گی
یا پھر ان کی مخدوش ذہنی حالت کے باعث انہیں صدر کے عہدے سے ہٹا دیا جائے
گا۔ یہ نظریہ کوسوں دور محسوس ہوتا ہے لیکن امریکی آئین میں 25ویں ترمیم،
اس بات کی اجازت دیتی ہے کہ اگر ایک صدر اپنے فرائض اور اختیارات انجام
نہیں دے سکتا سو اسے اس کے عہدے سے معزول کیا جاسکتا ہے۔ اس وقت صدر ٹرمپ
کی ذہنی حالت اس قدر خراب ہے کہ ذہنی امراض کے علاج کے ماہرین کا کہنا ہے
کہ ٹرمپ اس وقت ناقابل علاج ذہنی خلل میں مبتلا ہیں جس کے باعث وہ صدر کے
عہدے کے لئے نااہل ہو چکے ہیں۔ اس مرحلے پر یہ امر اہم ہے کہ امریکہ کے
مشہور ذہنی معالجین بھی اس موقف کے حامی ہو چکے ہیں۔ وہائٹ ہاؤس کا یہ منظر
نامہ کس قدر تکلیف دہ ہے کہ سینئر ریپبلیکن کھلے عام اس خدشے کا اظہار
کررہے ہیں کہ صدر ٹرمپ کی ذہنی حالت خراب ہو رہی ہے جس کے باعث ان کے لئے
صدارت کے فرائض کی ادائیگی ممکن نہیں رہے گی۔ اس تمام صورتحال کے باوجود
ٹرمپ کے حامیوں کی بڑی تعداد دولت مند اور دائیں بازو کے نظریے کے حامل
افراد کی ہے جبکہ امریکی مزدور طبقہ بھی ان کے ساتھ ہے اور اسے اُمید ہے کہ
ٹرمپ ان کے لئے معاشی بحالی کا سبب ہوں گے۔ یہی وجہ ہے کہ ان کی اکلوتی
کامیابی، انکم ٹیکس کٹ، غریب امریکیوں کو متاثر کرے گی۔ یہ صورت تحال اس
امر کا مظہر ہوگی کہ وولف کی کتاب میں جو کچھ لکھا گیا ہے، سچ ہے۔ اس وقت
شنید ہے کہ ٹرمپ، مصنف کے خلاف مقدمہ دائر کرنے والے ہیں۔ اگر حکومت،
کلاسیفائیڈ پینٹاگون پیپرز کی اشاعت ن روک سکی، یقینی طور پر ٹرمپ اس کتاب
کو نہیں روک سکیں گے جو کسی دیگر کی نسبت انہیں سخت ناپسند ہے۔ یہ بات بھی
حقیقت ہے کہ وولف کی کتاب صحافت سے کہیں بڑھ کر ہے۔ انہوں نے ٹرمپ کے وہائٹ
ہاؤس کے اندرونی رازوں کو بے نقاب کیا ہے اور پھر مورخین اس ضمن میں کہیں
زیادہ قابل اعتماد معلومات فراہم کریں گے۔ ایک فاصلے سے اس منظر کودیکھنے
سے اس امر کا فیصلہ آسان ہوجاتا ہے کہ ٹرمپ کا دور، تاریخ کا کون سا باب ہے
اور اس کے حاشیے میں کیا لکھا ہے۔ Fire and Fury ٹرمپ کی صدارت پر حرف آخر
نہیں جو ٹرمپ کے ابتدائی صدارتی منظرنامے کے متعلق ایک تفکر آمیز جھلک
فراہم کرتی ہے۔ واشنگٹن پوسٹ کے ادارتی بورڈ نے لکھا ہے کہ صدر ٹرمپ کی
ٹویٹ نے امریکی خارجہ پالیسی کی دھجیاں اُڑا دی ہیں۔ سمجھ سے بالاتر ہے کہ
اس ٹویٹ کا مقصد کیا ہے اور وہ کون سے محرکات ہیں جن کی بنیاد پر ٹویٹ کیا
گیا۔ یہ بھی سمجھ نہیں آتا کہ یہ ٹویٹ ٹرمپ کے ذاتی اشتعال کا شاخسانہ ہے
کوئی حکمت عملی یا پاکستان کی تذلیل۔ شائد صدر اپنے جذبات پر قابو نہ رکھ
سکے۔
حقیقت تو یہ ہے کہ اب پاکستان کراس بارڈر دہشت گردی کا شکار ہے۔ بھارتی
’’را‘‘ اور افغان انٹیلی جنس ’’این ڈی ایس‘‘ کی ایماء پر تحریک طالبان
پاکستان اور سی آئی اے کی پروردہ خفیہ قاتل تنظیمیں پاکستان میں دہشت گردی
کروا رہی ہیں۔ سی آئی اے کے موجودہ سربراہ نے پاکستان پر بھیانک الزامات
لگائے ہیں مگر حقیقت یہ ہے کہ افغانستان میں طالبان اور افغان شہریوں کے
خلاف سی آئی اے کی درجن بھر دہشت گرد تنظیمیں قتل و غارت گری مچائے ہوئے
ہیں۔ ایک تنظیم کاؤنٹر ٹیررازم پرسوٹ ٹیم (سی ٹی پی ٹی) اسے سی آئی اے کا
سپیشل ایکٹیوٹی ڈویشن این ڈی ایس ہیڈ کوارٹر سے آپریٹ کرتا ہے، مگر اس پر
این ڈی ایس کے قوانین کا اطلاق نہیں ہوتا ہے۔ تین ہزار کی نفری رکھنے والی
اس فورس کو پورے ملک میں وارداتوں کی اجازت ہے۔ اس میں شمالی اتحاد کے لڑنے
والے شامل کئے گئے ہیں۔ جن میں سے بعض کی تربیت امریکہ میں سی آئی اے کے
کیمپوں میں کی گئی ہے۔ خوست پروٹیکشن فورس دوسری بڑی تنظیم بتائی جاتی ہے،
یہ شمالی اتحاد کیل ئے لڑنے والے پشتونوں پر مشتمل ہے اور افغان آرمی کے
25ویں بریگیڈ سے منسلک قرار دی جاتی ہے مگر اس پر کوئی فوجی ضابطہ لاگو
نہیں ہوتا۔ اس پر اجرتی قتل، حراستی قتل، تشدد، لوگوں کے گھروں پر حملوں کے
الزامات کی بازگشت 2014ء اور 2016ء میں امریکی اخبارات میں بھی سنائی دیتی
رہی۔ اس کی خوب یہ بھی ہے کہ چونکہ امریکی شہریوں کے لئے تشدد میں ملوث
ہونا جرم ہے لہٰذا سی آئی اے اور امریکی فوجی اس کے ذریعے اپنے سامنے تشدد
کرواتے رہے اور یہ سلسلہ اب بھی جاری ہے۔ افغان سکیورٹی گرڈز تاجک کمانڈر
عزیز اﷲ کے زیر کمان سی آئی کی یہ غنڈہ فورس پکتیا صوبے میں امریکی مفادات
کی نگہبان ہے اور نیو یارک ٹائمز کے صحافی Jules Caveudish کے دعوے کے
مطابق پکتیا میں سی آئی اے کا ایک ٹریننگ کیمپ فائر للی کے نام سے کام
کررہا ہے جس میں سی آئی افغانستان اور ارد گرد (یقیناًٰپاکستان کے سوا کون
ہوسکتا ہے) کام کرنے والے بے شناخت لوگوں کو تربیت دیتی ہے، یہ سکیورٹی
گارڈز اس کیمپ کی حفاظت کے ذمہ دار ہیں اور اپنے علاقے میں ہر طرح کی آزادی
انہیں حاصل ہے۔ اقوام متحدہ میں اس کے خلاف شکایات موجود بتائی جاتی ہیں۔
قندھار سکیورٹی فورس ملا عمر کے گھر پر بنا Gecko نام کا امریکی کیمپ ان کی
رہائش گاہ ہے، احمد زئی کرزئی پہلا سربراہ رہا، براہ راست سی آئی اے کو
جواب دہ ہے، نفری قریباً چار سو، یہ تنظیم اور قندھار میں موجود سی ٹی پی
ٹی کا یونٹ افغان پولیس کے سربراہ اور سی آئی اے کے ایجنٹ عبدالرزاق سے بھی
تعاون کرتا ہے اور اس کے اشارے پر پاکستان میں بھی ٹارگٹ کلنگ میں شامل ہے،
امریکی صحافی KAT CLARKکی رپورٹ کے مطابق عبدالرزاق اس گروپ کو پاکستان میں
اپنی مرضی کی کارروائیوں میں اشتعمال کرتا رہتا ہے جو کہ ٹارگٹ کلنگ کی
صورت ہوتی ہیں۔ ٹیم کنٹر (ٹی کے) اسے NDS-4بھی کہا جاتا ہے۔ ۔پاکستان کے
خلاف امریکی سازش یہ نظر آ رہی ہے کہ داعش کو پاکستان پر حملے کا جواز
بنایا جاسکتا ہے تاکہ کسی بھی کارروائی کو داعش قبول کرے اور الزام پاکستان
پر لگا دیا جائے۔ حالانکہ داعش پاکستان میں قاتل گری کرتی ہے جس کی نقش گری
افغانستان میں امریکہ کے زیر سایہ ہوتی ہے۔ اور تو اور اب یہ بات کھلا راز
ہے کہ قندھار میں بے شناخت ہیلی کاپٹروں کے ذریعے داعش کو اتارا گیا۔ خود
سابق افغان صدر حامد کرزئی نے بھی کہا کہ افغانستان میں امریکہ کی موجودگی
میں داعش کا پھیلاؤ ہو رہا ہے۔
حیرت کی بات اور افسوس کا مقام ہے کہ مذہبی آزادیوں کی واچ لسٹ میں امریکہ
نے پاکستان کو شامل اور بھارت شامل نہیں کیا جو کہ دوغلے پن کی بدترین مثال
ہے۔ بھارت میں مسیحوں، مسلمانوں اور دلتوں سمیت بے شمار اقلیتوں کی سرکاری
سطح پر اور سرپرستی میں قاتل عام کیا گیا ہے۔ چرچوں کو جلایا گیا، گولڈن
ٹمپل پر حملہ کیاگیا، سکھوں کا قتل عام کیاگیا، کشمیریوں کے خلاف کیمیائی
ہتھیاروں کا استعمال اور ریاستی دہشت گردی جاری ہے مگر بھارت کو سرٹیجٹک
پارٹنر بنا کر امریکہ سب کچھ بھول گیا بلکہ اب سرعام افغانستان میں بھارتی
کردار کو وسعت دیکر پاکستان کو دیوار سے لگایا جا رہا ہے۔ اس طرح امریکہ کے
ساتھ دیرینہ تعلقات رکھنے کی پاکستانی خواہش کے برعکس پاکستان کو مجبور کیا
جا رہا ہے کہ وہ مکمل طور پر روس چین کے کیمپ میں چلے جائیں۔ اعتماد کا جو
بحران روس چین کو پاک امریکہ تعلقات کے حوالے سے تھا شکریہ صدر ٹرمپ تمہاری
پالیسیوں اور رویے سے اب روس اور چین پاکستان پر زیادہ اعتماد اور انحصار
کررہے ہیں۔ واقعی ایک در بند ہو تو سو کھل جاتے ہیں۔
|