توجہ کیجیےّ !
زینب کے ساتھ جو ھوا اس کا دکھ ھے ،غم ھے ،غصہ ھے مگر اس طرح ھنگامہ بازی
،توڑ پھوڑ املاک کو نقصان پہچانا کہاں کا انصاف ھے-پہلی بات ماں باپ کی غیر
زمہ داری،وہ بیٹی کو کسی کے پاس چھوڑ کر کیوں گےّ ،دوسری بات لا پرواہی جن
کے پاس چھوڑ کر گےّ انہوں نے بچیّ کی پرواہ نہیں کی،تیسری بات کہ کویّ اپنا
ہی رشتہ دار ہے جس کے ساتھ وہ خوف و خطر چلی جارہی ھے - ان تمام پہلووّں کو
دیکھ کر کیا دماغ مانتا ھے کہ غلطی حکومت کی یا انتظامیہ کی ھے جو اتنا بڑا
شر فساد پھیلایا گیا تمام حکومت کے مخالفین حکومت کو آڑے ھاتھ لیےّ ھویّ ھے
اس واقعے سے آگ پھیلی ،سیاست چمکی ،آوازیں ابھریں ،ھمدردیاں جتایّں گیّں
مگر ان ہی لوگوں نے آگ لگایّ جو آ گ لگانا چاھتے تھے ،چاھتے ھیں ان کو غرض
نہیں زینب سے اس کے ساتھ ھونے والے واقعے سے بس گلہ ھے تو حکومت سے کسی طرح
حکومت جاےّ بس !
دل جل جاتا ھے جب پولیس کے جوان جن کے ھاتھ باندھ کر کہا جاتا ھے کہ جاوّ
روکو ! قابو کرو !کسی کو خراش نا آےّکسی کو کویّ گزند نا پہنچے ! وہ جاتے
ھیں ،ڈراتے ھیں ،دھمکاتے ھیں ،مشتعل ہجوم کو منتشر کرنے کے لیےّ آگے بڑھتے
ھیں ،آگے سے ان پے حملہ کیا جاتا ہے وہ واپس دوڑتے ھیں اپنی جان بچانے کے
لیےّ کیّ بچ پاتے ھیں کیّ حملے کی زد میں آجاتے ھیں ،اور کچھ سازش کی بھینٹ
چڑھ جاتے ہیں-
تمام شعبے اپنی اپنی حق کے لیےّ آواز اٹھاتے ھیں ،احتجاج کرتے ھیں ،اپنے
مطالبات منواتے ہیں تو اب کی باری کیوں نا پولیس انتظامیہ کی ھو پھینک دیں
ھتیار ، اتار دیں وردی ، چھوڑ دیں اس ملک کو ،اس عوام کو ،ان سیاست دانوں
کو، ان حکمرانوں کو جو کر سکتے ھیں کر لیں جو بچے گا ملک اور اس کی عوام ان
پر جو بچے گے سیاست دان بن جایں گے حکمران ! چھوڑ دو ،چھوڑ دو ان کو ان کے
حال پر مگر یہ تکلیف نا قابل برداشت ھے کہ پر کاٹ کے کہا جاےّ اڑو ،اڑو
،اور اونچا اڑو !!!!!!١! |