جب میں جوان تھا تو بھٹو صاحب بڑے متحرک تھے۔ جنرل ایوب
کے خلاف تحریک میں ان کے پاس تاشقند کی پٹاری تھی۔ اسے کھولنے کا جھانسہ دے
کر انہوں نے اس قوم کے نوجوانوں کی اک عمر ضائع کر دی ۔ لوگ دیوانہ وار ان
کے پیچھے بھاگتے رہے اس غلط فہمی میں کہ شاید پٹاری سے کچھ بڑی چیز برآمدہو
جائے گی۔ مگر کچھ برآمد نہ ہو سکا لیکن وہ پٹاری انہیں الیکشن جتا
گئی۔اقتدار میں آنے کے بعد بھٹو صاحب پٹاری کا ذکر بھول گئے اور بھٹو صاحب
کے رخصت ہونے کے ساتھ ہی وہ پٹاری بھی غائب ہو گئی۔ان کے الیکشن جیتنے کے
بعد لوگوں کو احساس ہی نہیں یقین ہو گیا کہ ایسی کسی پٹاری کا وجود ہی نہیں
وہ تو فقط لوگوں کو ورغلانے کی ایک کوشش تھی جس میں بھٹو صاحب بہت کامیاب
رہے مگر اس کے بعد پٹا ری والا ڈرامہ اپنی کشش ہمیشہ کے لئے کھو گیا۔
آج پچاس برس بعد جناب نواز شریف اپنی ایک نئی پٹاری لا رہے ہیں۔کہتے ہیں سب
راز کھول دوں گا۔وہ دھمکا رہے ہیں کہ اگر خفیہ رابطوں اور ان کے بقول غیر
قانونی فیصلوں کے ذریعے ان کے ہاتھ پاؤں باندھے گئے اور کسی مد مقابل کے
لئے ڈھیل اور ڈیل کا انتظام کیا گیا ۔ (بے لگام) جمہوریت کو پھلنے پھولنے
نہ دیا گیا۔ان کے خلاف پردے کے پیچھے ہونے والی کاروائیاں نہ روکی گئیں تو
وہ چپ نہیں رہیں گے بلکہ سارے ثبوت اور شواہد عوام کے سامنے لائیں گے اور
سب کھول دیں گے۔ میں سمجھتا ہوں کہ پٹاری کلچر جسے نواز شریف ایک بار پھر
زندہ کرنا چاہتے ہیں، بھٹو صاحب کے ساتھ ہی ہمیشہ کے لئے ختم ہو چکا۔لوگ
ایسی چیزوں کی حقیقت سے واقف ہو چکے۔ مگر نواز شریف کی مجبوری ہے انہیں
سیاست میں زندہ رہنے کے لئے کچھ تو کرنا ہے۔ ایک بات یقینی ہے کہ اب کچھ
نہیں کھلے گا اور اگرکچھ کھلا بھی تو وہ صرف سعادت حسن منٹو والا’’ کھول دو‘‘
ہی ہو سکتا ہے اس کے سوا کچھ نہیں۔
ویسے محترم نواز شریف آج کل بڑے جذباتی ہو رہے ہیں۔ کہتے ہیں کہ مجھے اقامے
پر نکالا گیا ہے۔ کرپشن دس روپے کی بھی ثابت نہیں ہو سکی۔ اگرمجھے کرپشن پر
نکالتے تو میں منہ چھپاتا پھرتا۔ آج میں اس لئے منہ چھپانے کی بجائے ڈٹ کر
بات کر رہا اور پوری طرح مدمقابل ہوں کہ مجھ پر کرپشن کا کوئی الزام نہیں۔
میں سمجھتا ہوں کہ محترم نواز شریف صاحب بہت صحیح اور سچ کہتے ہیں۔ اصل میں
ججوں اور جناب شریف میں سوچ کا فرق ہے، ان کے کلچر کا فرق ہے۔ طرز زندگی کا
فرق ہے۔نواز شریف جب سے سیاست میں آئے ہیں انہوں نے سیاست کو باقاعدہ ایک
انڈسٹری بنا دیا ہے۔ یہ بڑی جاندار انڈسٹری ہے اور بہت بھاری سرمایہ کاری
مانگتی ہے اور لمحوں میں کئی سو گنا منافع بھی دیتی ہے۔جو ہمارے سیاستدانوں
کی موجودہ اور ماضی کی صورت حال اور ان کے گھریلو حالات کے تقابل سے صاف
نظر آتا ہے۔ اب بیچارے ججوں کی سوچ وہاں تک کیسے پہنچے کہ نواز شریف نے جو
سرمایہ کاری کی تھی۔ ان کا موجودہ سارا سرمایہ جس کو جج کرپشن قرار دیتے
ہیں، اس سرمایہ کاری کا منافع ہے جو میاں برادران کا جائز حق ہے۔اگر عام
سرکاری افسر کسی بھی فائل کو آگے پیچھے کرنے کے لئے پیسے وصول کرکے اسے
ناجائز نہیں کہتا بلکہ سپیڈ منی کہہ کر جائز قرار دے سکتا ہے تو بیچارے
نواز شریف کا کیا قصور۔ پوری قوم نے خوامخواہ ان کو جائز اور ناجائز کے چکر
میں ڈالا ہوا ہے۔
میاں شہباز شریف البتہ بڑے برد بار اور تحمل والے شخص ہیں۔ بڑی سلجھی باتیں
کرتے ہیں۔ ان کی باتوں سے قوم کا درد چھلکتا ہے ۔وہ کسی دستور کو نہیں
مانتے بلکہ سچ یہ ہے کہ وہ اپنے علاوہ کسی کو نہیں مانتے۔ دو دن پہلے انہوں
نے ارشاد فرمایا کہ اس ملک کی اشرافیہ اس ملک کو لوٹ رہی ہے۔ غریب ، غریب
تر ہوتا جا رہا ہے ، کوئی اس کی بات نہیں سنتا، غریبوں کا حال برا ہے اور
چند لوگوں کی لوٹ ما رہے کہ رکتی ہی نہیں۔ اس صورت حال پر ان کا دل روتا ہے۔
یہ باتیں کرتے ہوئے ان کے چہرے سے جو یتیمی اور مسکینی ٹپک رہی تھی اس نے
مجھے بھی رلا دیا۔غریبوں کے لئے اس قدر درد دل رکھنے والے لیڈر صدیوں میں
پیدا ہوتے ۔مگر افسوس کہ ہماری بے شعور عوام کو ایسے لیڈروں کی قدر کرنا
نہیں آتی ۔قصور میں ہونے والے انسانیت سوز واقعے کے بعد شہباز شریف اور ان
کے وزرا کی گفتگوسے لگتا تھا کہ انہوں نے خصوصی وقت نکال کر اس الم ناک
واقعے اور اس قدر سفاکی پر عوام کی ڈھارس بڑھائی ہے۔اس واقعے نے ان کے
خوبصورت طرز حکمرانی کو بھی پوری طرح نمایاں کر دیا ہے۔
میاں برادران کی باتیں سن کر مجھے جناب حضرت میکا ولی یاد آئے ، لگتا ہے ان
بھائیوں نے ان کو بہت پڑھا ہے اور ان کے اقوال سے خوب تربیت حاصل کی ہے۔
شاید اسی لئے انہیں حکمرانی کرتے اتنا عرصہ ہو چکا اور اب بھی ذہنی طور پر
وہ حکمرانی سے کسی طرح بھی دست بردار ہونے کو تیار نہیں۔میکا ولی فرماتے
ہیں کہ اچھی حکمرانی کے لئے حکمران کو ضرورت کے وقت صرف اور صرف جبر پر
کاربند رہنا چاہیے۔ حکمران اگر نرمی سے کام لیں تو عوام انہیں کمزور جان کر
نہ ہی ان کے لئے محبت کے جذبات رکھتے ہیں اور نہ ہی ان سے خوف کھاتے
ہیں۔حکمران کے لئے مزیدضروری ہے کہ وہ مکارہو، عیار ہو، بخیل ہو اور بد عہد
ہو۔صرف نیکی کا پرچار کرکے اور نیک بن کر کوئی شخص حکمران نہیں رہ
سکتا۔حکمران کے لئے شدید قسم کا موقع پرست ہونا بھی بہت ضروری ہے۔ ماشااﷲہمارے
حکمران ہر انداز سے اس معیارپر پورے اترتے ہیں۔ |