اﷲ پاکستان کو سلامت رکھے گا !

امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے پاکستان کو دھمکی آمیز ٹویٹ کے ذریعے دنیا پر واضح کر دیا ہے کہ ان کے طرز حکمرانی کے بارے تمام خدشات اور دعوے درست تھے اور ماضی میں صدر ٹرمپ مسلم امہ کے خلاف جن عزائم کا اظہار کرتے رہے ہیں اب انھیں عملی جامہ پہنانے کے لیے کسی بھی حد تک جانے سے گریز نہیں کریں گے ۔ڈونلڈ ٹرمپ نے پاکستان کی قربانیوں اورانسداد دہشت گردی کی مد میں کی جانے والی تمام کاوشوں کو بدنیتی سے جھٹلاتے ہوئے پاکستان کا نام ان ممالک کی فہرست میں شامل کر دیا ہے جوکہ دہشت گردی کو پروموٹ کرتے ہیں اور پاکستان کو دی جانے والی امداد بند کرنے کا اعلان کر دیا ہے مزیدمرتب کی جانے والی امریکی پالیسیوں میں پاکستان میں عسکری مہم جوئی کا بھی امکان ہے ۔

اس میں تو کوئی دو رائے نہیں کہ ڈونلڈ ٹرمپ نے جو بھی کہا ہے وہ متوقع تھا مگر کیا پاکستان اس جارحانہ اقدام کا مقابلہ کرنے کے لیے تیار ہے ؟ انسداد دہشت گردی کی مد میں کی جانے والی ہماری کاوشوں ، قربانیوں اور جا نثاریوں کی تفصیلات کو امریکہ سمیت دنیا تک کیوں نہیں پہنچایا گیا ؟جس کشکول کو ہمارے گلے کا طوق بنا دیا گیا ہے کیا اسے توڑ کر ہم آگے نہیں بڑھ سکتے ہیں ؟موجودہ مخدوش حالات تیسری جنگ عظیم کا الارم ہیں تو کیا ایسے میں امن کے داعی اس انتہا پسندی کی روک تھام کے لیے آگے بڑھیں گے جبکہ وہ ازخود اسلام دشمنی میں حد سے گزر چکے ہیں ؟میاں نواز شریف 4سال وزرات خارجہ کی کرسی پر براجمان رہنے کے باوجود امریکہ اور بھارت کے تحفظات دور کرنے میں کیوں ناکام رہے ہیں جبکہ ان دونوں ممالک کے ساتھ ان کے گہرے مراسم بھی تھے ؟جہاں تک بات ہے ڈونلڈ ٹرمپ کی تو امریکی انتخابی مہم کے دوران ہی ڈونلڈ ٹرمپ کی طرف سے مسلمانوں کے خلاف ہرزہ سرائی اور جارحانہ پالیسیاں زیر بحث تھیں علاوہ ازیں اپنے ہی ملک میں ان کے لیے ناپسندیدگی اور نفرت کی شدید لہر پائی جاتی ہے کہ ان کے امریکی میڈیا کے ساتھ بھی تعلقات کشیدہ اور متنازعہ ہیں ۔مزید اپنی حلف برداری تقریر میں ڈونلڈ ٹرمپ نے مسلم انتہا پسندی کے خاتمے کا تذکرہ کرتے ہوئے واضح نہیں کیا تھا کہ کونسا ملک انتہا پسند ہے اور کس کے خلاف جلد پالیسی مرتب کی جائے گی مگر ملے جلے بیانات سے اسلام دشمنی واضح تھی ۔انتہا پسند بیانات کے باوجود ہمارے حکمرانوں نے ڈونلڈ ٹرمپ کو سپیس دی جبکہ عالمی میڈیا اور پاکستانی میڈیا چیخ رہا تھاکہ ڈونلڈ ٹرمپ پاکستان ہی نہیں بلکہ امت مسلمہ کے لیے خوفناک عزائم رکھتا ہے اورنر یندر مودی کے ساتھ مل کر خطے پر اپنا تسلط قائم کرنا چاہتا ہے اور یہ دونوں دنیا کے لیے بہت بڑا خطرہ ثابت ہوسکتے ہیں کیونکہ یہ دونوں لیڈران مسلمانوں کے خلاف انتہا پسند رویے اور بیانات کیوجہ سے جیتے ہیں جبکہ ماضی میں عوامی فلاح و بہبود یا کوئی ایسی قابل قدر کار کردگی نہیں کہ جسے بنیاد بنا کر ان مذکوران کو موجودہ منصب کے قابل قرار دیا جاتا۔

ڈونلڈ ٹرمپ کی ٹویٹ کے بعد سابق وزیراعظم میاں نواز شریف نے مذمتی پریس کانفرنس کی جوکہ دو حصوں پر مشتمل ہے پہلے حصے میں میاں صاحب نے امریکی صدر کی ٹویٹ کو غیر سنجیدہ اور افسوسناک قرار دیتے ہوئے کہا :’’ہمیں مدد اور امداد دینے کے طعنے نہ دئیے جائیں ،نائن الیون کے بعد سب سے زیادہ قربانی پاکستان نے دی ،ہم سترہ سال سے ایسی جنگ میں الجھے ہوئے ہیں جو ہماری نہیں ہے مگر ہم پر مسلط کی گئی ہے ۔کسی دوسرے کو اتنا جانی و مالی نقصان نہیں ہوا جتنا پاکستان کو ہوا ہے ‘‘ ۔مگر اس تقریر کا دوسرا حصہ زیادہ اہم ہے جوکہ ڈونلڈ ٹرمپ کی ٹویٹ کی تائید کرتا ہے انھوں نے کہا :ـ’’میں کہتا ہوں کہ ہمیں اپنے گھر کی خبر ضرور رکھنی چاہیے اور اپنے کردار کا جائزہ بھی ضرور لینا چاہیے ،کسی لاڈلے کو غیر آئینی اور غیر قانونی راستہ فراہم نہ کیا جائے ،غلام جمہوریت آمریت ہی کہ شکل ہوتی ہے ، پس پردہ کاروائیاں نہ رکیں تو وقت آنے پر گذشتہ چار سال کی کہانی سناؤں گا اور تمام ثبوت سامنے لاؤں گا ‘‘۔
اگر موجودہ حالات ،ٹرمپ کے بیانات ، میاں صاحب اور لیگی وزراء کے خیالات اور حرکات کا عمیق نظری سے جائزہ لیا جائے تو یہ بات کھل کر سامنے آجاتی ہے کہ امریکہ کو الفاظ دئیے گئے ہیں ۔حالات حاضرہ سے باخبر رہنے والوں کو یاد ہوگا کہ چند ماہ پہلے جب امریکہ نے ڈومور کا مطالبہ کیا تھا تو وزیر خارجہ خواجہ آصف نے کہا تھا کہ ہمیں اپنے گھر کی صفائی کرنی پڑے گی پھر کوئی اور بات ہوگی ۔اس بیان کو مزید تقویت تب ملی جب قائم مقام وزیراعظم شاہد خاقان عباسی نے نیویارک میں اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی میں شرکت سے پہلے ہی خواجہ آصف کے مؤقف کی تائید کر دی تھی اس کے بعد دیگر لیگی رفقاء کی طرف سے بھی ایسے بیانیے سامنے آئے جن پر چوہدری نثار نے بر ملا کہا تھا کہ’’ وزیراعظم اپنے گھر کی صفائی ضرور کریں مگر پاکستان کا تماشا مت بنائیں ،بیانات کی بجائے عملی اقدامات پر توجہ دینی چاہیے ،پاکستان تو اب وہ بات خود مان رہا ہے جو بھارت کہتا رہا ہے ،کیا بھارتی حکومت یا سیاستدانوں میں سے کبھی کسی نے اس بات کا اعتراف کیا جبکہ افغانستان میں دن کے اجالے میں بھارتی دہشت گردوں کے درجنوں کیمپ امریکہ کے کیمروں کے نیچے چل رہے ہیں اور افغانستان سے دہشت گرد پاکستان آکر خون کی ہولی کھیلتے ہیں لیکن کیا کبھی امریکہ اور بھارت نے افغانستان کی ’’صفائی ‘‘ کا ذکر کیا ،گذشتہ چار سالوں میں گھر کے اندر جتنی صفائی ہوئی اس کی تاریخی مثال نہیں ملتی ‘‘۔مگر چوہدری نثار کے بیانات کو قابل اعتنا نہ سمجھا گیا اور اسٹیبلیشمینٹ مخالف بیانات میں کمی واقع نہ ہوئی اور دنیا کو یہی پیغام ملا کہ حکومت اور فوج کی سوچ میں فرق ہے اوردشمنان پاکستان واقف ہیں کہ پاکستان کی سب سے بڑی محافظ یہ فوج ہی ہے لہذا لوہا گرم دیکھ کر ڈونلڈ ٹرمپ نے بھی چوٹ کر دی کیونکہ منتخب قیادت کا کردار ہی ہماری پالیسی سے جھلکتا ہے۔ ہمارے وضاحتی بیانات کی کیا اہمیت ہے کہ جب مذمت اور سرزنش کے ساتھ ساتھ حکمران جماعت کی طرف سے ایک بار پھر مشکوک بیانئے نے امریکہ ہی نہیں دشمن ملک بھارت کو بھی جواز فراہم کر دیا ہے کہ وہ پاکستان پر کیچڑ اچھالے اور جنگ اخبار لندن کی شہ سرخی تو انتہائی افسوسناک ہے جس میں لکھا گیا ہے ’’پاکستان جھوٹا اور دھوکے باز ‘‘ بریں وجہ بھارتی میڈیا بھی پاکستان پر چڑھ دوڑا ہے جوکہ پہلے ہی کلبوشن یادیوکو لیکر الزامات لگا رہا تھااور ان کے صحافی اینکرز یہ کہہ رہے ہیں کہ پاکستان نے جتنے بھی خودی کے کھڈے کھودے ہیں انھی میں دب جائے گا ۔

تاہم بھارت کسی غلط فہمی میں نہ رہے کیونکہ بھارت نے ’’را‘‘ کے زریعے سرزمین پاکستان پر جتنے کھڈے کھودے ہیں افواج پاکستان کے جانثار سپوت انھی کھڈوں میں دشمنان پاکستان کو دبا کر اسلام کا جھنڈا لہرائیں گے اوربھارت بارہا آزما چکا ہے پھر آزما کر دیکھ لے! اور رہی بات امریکی امداد کی تو پاکستان خود کفیل تھا مگر اس کو جو بھی حکمران ملا وہ جونک کی طرح چمٹا کہ وہ کھرب پتی ہوگیا جبکہ پاکستان مقروض در مقروض ہوتا چلا گیا تو کیا ہی اچھا ہو کہ تمام حکمرانوں اور سیاستدانوں کے بے حدو حساب اثاثے بیچ کر امریکہ کا قرضہ واپس کیا جائے اور آئندہ کے لیے نصیحت پکڑی جائے ۔مگر کیا ایسا ممکن ہے ؟ویسے تمام سیاسی قوتیں سر جوڑے تو بیٹھی ہوئی ہیں حالانکہ سب کو آنے والے انتخابات کی فکر ہے ۔

ویسے امریکہ اور بھارت کی بیان بازیاں صرف ڈرامہ بازی ہے ۔پاکستان کی پاک سرحدوں کی حفاظت ہماری مسلم اور دنیا کی بہادر ترین فوج کے لیے کوئی مشکل نہیں ۔سیاستدانوں کی سیاست صرف عوام کو پریشان کرنے کے لیے ہے اور پریشان کن بیان بازیاں بھی پانامہ اور اقامہ سے توجہ ہٹانے کیلیے ہیں وفاقی وزیر اطلاعات و نشریات مریم اورنگزیب نے کہا :قومی سلامتی کے لیے تمام جماعتیں متحد ہوجائیں ۔تحریک انصاف رہنما شاہ محمود قریشی نے ٹرمپ کے الزام کو نامناسب اور بے وقعت قرار دیتے ہوئے ٹویٹ کے رواج کو خطرناک قرار دے دیا ہے ۔ وزیر دفاع خرم دستگیر نے کہا ہے کہ ’’پاکستان اپنی سرزمین کی حفاظت کرنے کی پوری صلاحیت رکھتا ہے اور افغانستان کی جنگ پاکستان کی سرزمین سے نہیں لڑی جائے گی ‘‘۔اور میاں شہباز شریف نے تو قلم توڑ ردعمل دیا ہے :ڈونلڈ ٹرمپ کا بیان قومی وقار کے منافی ہے اس کا جواب سوچ سمجھ کر دینا ہوگا ،ہم نے امریکی امداد لیکر عزت کا سودا کیا ،جو ہونا تھا ہوگیا ،آج بھی ہم ہوش کے ناخن لے لیں تو سب ٹھیک ہوسکتا ہے۔ہمیں پیسے نہیں چاہیے ،روکھی سوکھی کھالیں گے ۔ہمیں امداد اور بھیک سے چھٹکارا حاصل کرنا چاہیے ،عزت و وقار سے زندگی گزارنے والی قومیں ہی زندہ رہتی ہیں ،کسی سے امداد لیکر امن کی زندگی نہیں گزاری جا سکتی اور یہ فیصلہ اشرافیہ نے کرنا ہے کیونکہ عوام کو ڈالرز اور پاؤنڈز کا کیا پتہ ہے ۔روکھی سوکھی کون کھائے گا ؟ جو جنگ ہم ہر مسلط کی گئی وہ بھی عوام نے ہی لڑی اور اب کون لڑے گا ؟ اگر واقعی ہماری غیرت کو للکارا گیا ہے تو کیا ہم اتنے باغیرت ہیں کہ اپنے تمام اثاثے اور بچے امریکہ سے پاکستان منتقل کرتے ہوئے امریکہ کا مکمل بائیکاٹ کر دیں تاکہ اسے احساس ہو ؟ لفاظی ہی لفاظی اور ڈائیلاگ بازی ہے مگر حقائق تلخ ہیں ۔۔باتیں انھیں کرتے ہیں کہ جو روز و شب سرحدوں پر سیسہ پلائی ہوئی دیوار کی مانند کھڑے ہیں اور ان کے بچے بھی یہی عزم لیکر جوان ہو رہے ہیں کہ
خون دل دے کے نکھاریں گے رخ برگ گلاب
ہم نے گلشن کے تحفظ کی قسم کھائی ہے

جنرل حمید گل مرحوم نے ایک ٹی وی ٹاک شو میں کہا تھا کہ یہ ریکارڈ رہے اور میری بات یاد رکھیے گا ’’جس آئی ایس آئی کو آج مورد الزام ٹھہرایا جا رہا ہے ،جب تاریخ رقم ہوگی تو کہیں گے کہ آئی ایس آئی نے امریکہ کی مدد سے سوویت یونین کو افغانستان میں شکست دے دی پھر ایک اور جملہ ہوگا کہ آئی ایس آئی نے امریکہ کی مدد سے امریکہ کو شکست دے دی ۔‘‘یہ طے ہے کہ بھارت یا مریکہ پاکستان کا کچھ نہیں بگاڑ سکتے اگر یہ ملک مفاد پرست اور پیشہ ور پرانے سیاستدانوں سے بچ گیا کیونکہ سیاست ان کا انتہائی نفع بخش کاروبار اور آسان کام ہے ۔آج بھی اگر ہمارے سیاستدان سیاست کوپرخلوص خدمت سمجھ لیں تو وہ اور ملک بد نامیوں اور خطرات سے نکل سکتا ہے مگر وہ ذلیل و رسوا اور خوار ہو جائیں گے ملک کی جان نہیں چھوڑیں گے صرف اﷲ پاکستان کو سلامت رکھے گا ۔

Roqiya Ghazal
About the Author: Roqiya Ghazal Read More Articles by Roqiya Ghazal: 127 Articles with 103042 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.