نئے سال کے شروع ہوتے اہل مغرب جشن منا رہے تھے ہم
لوگوں کو آپ نے سب سے پہلا تحفہ پیٹرول کا بم گرا کر دیا جس سے ملک کے غریب
بھر لوگوں سے دو وقت کی روٹی بھی مشکل ہو گئی ۔واہ میرے ملک کے ظالم
حکمرانوں شرم مگر تم کو نہیں آتی ۔عوام مرتی ہے تو مرنے دو میرے پنجاب کے
مشہور شہر قصور جہاں بابا بلھے شاہ کے ڈیرے ہیں وہاں ہر ایک مریم نہیں یکے
بعد دیگرے زینب پر آکر قیامت ٹوٹی لیکن آپ لوگوں کے ذہن ہر جوں تک نہیں
رینگی بلکہ آپکے چہیتے خوش آمدی لوگوں نے تو یہاں تک کہہ دیا کہ ایسے واقعا
ت دنیا بھر میں ہوتے رہتے ہیں واہ خادم اعلیٰ یہی کام اگر آپکی بیٹی یا
نواسی سے ہوتا تو آپ پر گیا گزرتی پھر بھی یہی کہتے کہ یہ روز کامعمول ہے
رات کے اندھیرے میں مظلومہ کے والد سے ملاقات بھی ایک سوالیہ نشان ہے عوام
اب جاگ اُٹھے ہیں اور ایک سیلاب کسی وقت بھی سونامی کی طرح آنے والا ہے جو
آپکی کی کشتی کو ڈبوکر غائب کر دے گی۔ آپکی اولادیں پورے عرب امارات پر پُر
آسائش زندگی گزار رہے ہیں ۔
آپ نے تو اس ملک کو کئی سالوں سے لوٹاہے اور پھر رفو چکر ہو جاتے ہیں میرے
ملک کی غریب عوام کا کیا ہو گا یہ کہاں جائیں گے یہاں تو ہسپتالوں میں بھی
ان کی زندگی محفوظ نہیں رہی اے خادم اعلیٰ تیرے ہسپتالوں کی عمارتیں بھی
غریبوں کے خون سے لہو لہان ہو رہی ہیں کرپشن اور لوٹ مار تیرے پنجاب کے
ہسپتالو ں کے دور دیوار میں گھس چکی ہے ناقص تعمیرات کے پول بھی اب کھلنے
شروع ہو چکے ہیں جس کی زندہ مثال ڈی ایچ کیو ہسپتال اٹک ہے جس پر کروڑوں
روپے سرکاری فائلوں میں خرچ ہو چکے ہیں آج یہ عمارت اپنے نیچے زندہ انسانوں
کو روند رہی ہے۔ نیا سال اٹک میں ایک سانحہ اہلیان کے لئے چشم فلک نے دیکھا
کہ گیس لیکج کا بہانہ تھا یہ سلنڈر پھٹنے کا حادثہ جو بھی ہو اس واقعہ جو
رنگ دے لو کیا ہسپتال کی عمارت ایک سلنڈر پھٹنے کی سکت نہیں رکھتی تھی جس
نے اپنے نیچے پناہ لینے والے مریضوں کو بھی نا بخشا ایک دھماکے کے ساتھ دو
منزلہ عمارت زمین بوس ہو گئی اور آٹھ سے زائد افراد کو اپنے ساتھ زمین میں
دفن کر لیا ۔خوش قسمتی سے کچھ افراد زندہ تو بچ گئے لیکن سات افراد کو اس
دنیا سے کوچ کرنا پڑا۔
نئے سال کا یہ نیا صدمہ متاثرین افراد کے لواحقین کو تا حیات برداشت کرنا
پڑے گا مگر جو افراد اس غفلت اور لا پرواہی کے مرتکب ہوئے وہ اپنے مال بناؤ
مشن سے کیا باز آجائیں گے جی نہیں کرپشن کا نا سور من پسند ٹھیکیداروں کو
ٹھیکے دے کے جاری و ساری رہے گا ناقص تعمیرات سے سرکاری عمارتیں اسی طرح
غریبوں پر گرتی رہیں گی لیکن جب تک عوام کو ظالم کرپٹ حکمرانوں کے خلاف
آواز اُٹھانے کا شعور نہیں آٗئے گا اور ان کو ووٹ دیتے رہیں گے تو یہ دولت
کے پجاری یہ ظلم کرتے رہیں گے یہ انسانیت کی خدمت کے دعویدار آج ڈاکوں کا
روپ دھار چکے ہیں کل تک کرائے کے مکان میں رہنے والے آج کروڑوں پتی کیسے بن
گئے ان کو کوئی نہیں پوچھ رہاکیوں کہ ادارے مفلوج ہو چکے ہیں اور یہ بے خوف
ہو کر غریبوں کو دونوں ہاتھوں سے لوٹ رہے ہیں ۔انسانیت نام کی کوئی چیز نظر
نہیں آتی کسی کی عزت محفوظ نہیں ہے اور حکمرانوں کا مشن صرف پیسہ کمانا ہے
اور جائیدادیں بنانی اپنے پلازے کھڑے کرنا ہے یہ دولت کے پجاری آج مخلوق
خدا کیلئے عذاب بنتے جا رہے ہیں۔ان کو کون لگا م دے گا قانون قدرت ہے جب
ظلم حد سے بڑھتا ہے تو قدرت کا انصاف اپنی راہ خود بناتا ہے آج انسانیت
سسکیاں مار رہی ہے ۔اور یہ دولت کے پجاری اپنی کرپشن کو بچانے کیلئے کبھی
عدلیہ پر الزام تو کبھی فوج کو گالیاں ۔اﷲ کی گرفت میں یہ جلد آنے والے ہیں
انقلاب فرانس آیا تو غریبوں کا مال بٹورنے والے ہاتھوں کو تلاش کر کرے ان
کے سر قلم کئے گئے اب عوام اُٹھنے والی ہے ا وران کو نشان عبرت بنا دیں گے
اور ان سے لوٹی ہوئی دولت گریبانوں سے پکڑ کر عدلیہ کی مدد سے قومی خزانہ
میں واپس لائیں گے انکوائری ہوئی مگر کسی کو سزا نہ ہو سکی سانحہ ماڈل ٹاؤن
سب کے سامنے ہے اور اب یہ ہسپتال کی بلڈنگ گر گئی مگر کسی کلاس فور کو
الزام دے کر سزا وار قرار دیں گے عوام کا مطالبہ ہے اس انکوائری کو ایف آئی
اے کے حوالے کیا جائے تاکہ یہ جو کروڑوں کے فنڈ ہسپتال کیلئے آئے ہیں وہ کس
طرح لگے اور کتنا کھایا گیا اور سیاسی بنیادوں پر کن کن افسران کا تعلق اس
فنڈ کی تقسیم میں ہے ۔۔ |