سرزمین ِ پاکستان کے دشمنوں نے آزادی سے لیکر اب تک اس
ملک میں منافرت اور انتشارکے اتنے راستے ڈھونڈ نکالے ہیں۔کہ اب وہ معمولی
پھونک مارنے سے بھی کام چلا سکتے ہیں۔کبھی لسانیت ، فرقہ پرستی اور صوبائیت
کو ہوا دی۔کبھی محرومیوں کا ڈھنڈورا پیٹا گیا۔تو کبھی مشرقی سرحدات پر
جارحیت کرکے سرجیکل سٹرائیک کا ڈرامہ رچایا گیا۔رہی سہی کمزور معیشت
اورقرضوں کے سہارے چلنے والی اقتصادیات کو دہشت گردی کے بے رحم طغیانوں کی
نذر کر دیاگیا۔
سویت یونین کیخلاف معرکہ آرائی میں پاکستان امریکہ کا قریبی حلیف تھا۔9/11
کے بعد شروع ہونے والی نام و نہاد جنگ میں بھی پاکستان نے صفِ اول کا کردار
ادا کیا۔دہشت گردی کیخلاف لڑی جانے والی اس پرائی جنگ میں پاکستان کو
130ارب ڈالرز کا نقصان اٹھانا پڑا۔ستّر ہزار پاکستانی جانیں اس بے نام جنگ
کی نذر ہو گئیں۔2001 ء سے لیکر 2016 ء تک (جوکہ اب بھی جاری ہے)پاکستان
میں بارود، دھماکوں اور انسانیت کے خون کے ساتھ ایک اندوہناک کھیل کھیلا
گیا۔اس عرصے میں پاکستانی عوام امن کی بحالی کے لیے بے تاب تھے۔سال 2017ء
میں دہشت گردی کے واقعات میں کمی نوٹ کی گئی۔
آسٹریلیا کے ایک ادارے انسٹیٹیوٹ فار اکنامکس اینڈ پیس سٹڈیز نے نومبر
2017ء میں ایک رپورٹ جاری کیا ۔جس میں ان ممالک کی فہرست پیش کی گئی۔جن
میں سال 2017ء میں دہشت گردانہ حملوں میں کمی ریکارڈ کی گئی۔رپورٹ میں
بتایا گیا۔کہ پاکستان میں امسال دہشت گردانہ حملوں کے نتیجے میں مرنے والوں
کی تعداد تقریباََ ایک ہزار ریکارڈ کی گئی۔جو کہ گزشتہ سال کے مقابلے میں
12% کی کمی واقع ہوئی ۔ مرنے والوں کی یہ تعداد 2006ء سے لیکر اب تک کم
ترین ہے۔چنانچہ 2007ء سے 2016ء تک گلوبل ٹیرارِزم انڈیکس کے مطابق ملکِ
پاکستان دہشت گردانہ سرگرمیوں کے حوالے سے چوتھا بدترین ملک قرار دیا گیا
تھا۔اور 2016ء میں دہشت گردی سے متاثرہ ممالک کی فہرست میں چوٹی کے دس
ممالک میں شامل تھا۔اتنی مالی اور جانی قربانیوں کے باوجود بھی امریکہ کی
جانب سے ان سے ڈومور کا مطالبہ کیا جاتا رہاہے۔
21اگست 2017ء کو ڈونلڈ ٹرمپ نے افغان پالیسی پیش کرتے ہوئے کہا۔کہ پاکستان
دہشت گردوں کے لیے محفوظ پناہگاہ بنی ہوئی ہے۔ اس پالیسی میں ٹرمپ نے
امریکی امداد کی بندش کی دھمکی دی تھی۔اور ہندوستان کے ساتھ اتحاد بنانے کا
عندیہ دیا تھا۔
2018ء کے آغاز میں صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے ایک ٹوئیٹ پھونک دی۔جس نے خود امریکہ
اور پاکستان کے باہمی اعتماد پر گہری ضرب لگائی۔ٹرمپ نے اس ٹوئیٹ میں
پاکستانی قوم کو دھوکے باز کہا ۔ساتھ ہی 900 ملین ڈالرز کی امداد کی بندش
کا بھی اعلان کیا۔جن میں 255ملین ڈالرز اسلحہ، جنگی سازو سامان اور
سیکیورٹی معاونت کے تحت پاکستانی سیکیورٹی فورسز کی تربیت پر خرچ کرنے
کیلئے دئیے گئے تھے۔اور 700ملین ڈالرز اتحادی سپورٹ فنڈز کی مد میں دئیے
گئے تھے۔یاد رہے کہ سابقہ امریکی صدر کارٹر نے بھی 1970 کے عشرہ میں یورنیم
افزودگی کی پاداش میں پاکستان کی امداد روک دی تھی۔اور اسامہ بن لادن کی
ایبٹ آباد میں موجودگی پر باراک اوبامہ نے بھی فنڈز کے استعمال پر سوال
اُٹھایا تھا۔
دوسری طرف امریکہ اسرائیل کو روزانہ کی بنیاد پر 10ملین ڈالرز مہیا کررہا
ہے۔مالی سال 2016-17 کیلئے دو طرفہ فوجی معاونت کے تحت اسرائیل کو 3.1بلین
ڈالرز دئیے گئے ۔چنانچہ اسرائیل کو باہمی تعاون کی مد میں دی جانے والی کل
رقم 3.7بلین ڈالرز بنتی ہے۔اسی طرح 2016 ء میں امریکہ اور ناجائزبچہ
اسرائیل کے بیچ ایک دس سالہ یاداشت پر دستخط ہوئی۔اس یاداشت میں اسرائیل کو
38بلین ڈالرز فوجی امداد دئیے جانے کا معاہدہ ہوا۔جس میں33 بلین ڈالرز غیر
ملکی فوجی معاونت اور 5بلین ڈالرز میزائل ڈیفنس سسٹم کیلئے دئیے جانے کی
بات ہوئی۔واضح رہے کہ اسرائیل امریکہ کی جانب سے کسی بھی ملک کو دی جانے
والی ملٹری فنڈز کا سب سے بڑا وصول کنندہ ہے۔اسرائیل اسلحہ سازی کی صنعت
میں دنیا بھر میں ایک مضبوط ترین ملک بن چکا ہے۔چنانچہ 2001ء سے لیکر
2008ء تک اسرائیل دنیا کو اسلحہ بیچنے والا ساتواں بڑا ملک بن گیاتھا۔جس
نے 9.9بلین ڈالرز کا اسلحہ اور دیگر جنگی سازوسامان فروخت کیں۔
اگر امریکہ کی طرف سے اسرائیل کو دی جانے والی امداد و تعاون کا جائزہ لیا
جائے۔تو 1949ء سے لیکر 2015ء تک مجموعی طور پر 127.4 بلین ڈالرز فراہم
کیے گئے۔اس کے بدلے میں فلسطین کے مسلمانوں کی امداد زیرو ہے اور وہ پناہ
گزینوں کی زندگی گزار رہے ہیں۔
پاکستان کو امداد دی جا رہی تھی کہ ان لوگوں کیخلاف جنگ کرو ۔جن کو سویت
یونین کیخلاف مجاہدین کا نام دیا گیاتھا۔اور اب انہی لوگوں کیخلاف ڈومور
کہا جا رہا ہے۔اسرائیل معصوم فلسطینیوں پرآئے روز جارحیت کرتا ہے ۔اور اب
تک لاکھوں فلسطینیوں کو شہید کر چکا ہے ۔ اس عمل کو دہشت گردی اور جارحیت
کہنے کی بجائے ڈومور کہا جا رہا ہے۔
|