امریکہ افغانستان میں مسلسل ناکامی سے دوچار ہے۔ دنیا کی
سب سے بڑی خفیہ ایجنسی اور سب سے بڑی جنگی طاقت اور سب سے طاقتور معیشت
امریکہ سترہ سال سے یہاں برسر پیکار ہے، اُس کے ساتھ اس جنگ میں بھارت اور
اس کی ایجنسی ’’را‘‘ بھی مسلسل اس کی مدد کر رہی ہے اور ضرورت کے وقت موساد
بھی بلکہ ہر وقت ہی حاضر رہتی ہے، اس کی اپنی بنائی ہوئی این ڈی ایس بھی اس
کی مدد میں لگی ہوئی ہے لیکن تا حال کامیابی کے کوئی آثار نظر نہیں آر ہے
اور کسی بھی روایتی فوجی تعلیم سے عاری افغان طالبان انہیں اپنی زمین پر
سکون کا سانس نہیں لینے دے رہے۔ یہ بھی تسلیم ہے کہ گوریلا جنگ دنیا کی سب
سے مشکل جنگ ہے جب آپ کا دشمن بے شناخت آپ کے سامنے گھوم رہا ہو آپ اُسے
نہیں جانتے لیکن وہ آپ کو جانتا ہے لیکن اگر دوسری طرف جدید ترین ہتھیاروں،
تربیت اور جاسوسی آلات سے آراستہ و پیراستہ دنیا کی سب سے بڑی فوج ہو تو
پھر کامیابی کہیں تو نظر آتی لیکن ایسا ہے نہیں اور اب کھسیانی بلی نے
کھمبا نوچ کر یعنی مسٹر ٹرمپ نے اپنی ساری ناکامی کا ملبہ پاکستان پر ڈال
دیاکہ پاکستان نے کچھ نہیں کیاتو کیا مسٹر ٹرمپ سوال یہ ہے کہ پاکستان کے
پاس آپ سے زیادہ جدید جنگی ٹیکنالوجی ہے جس سے وہ آپ کو زچ کیے ہوئے ہے۔
ٹرمپ کی شکایت یہ بھی ہے کہ پاکستان اندرون خانہ اس کے خلاف لگا ہوا ہے اور
اِس کے ساتھ اُس طرح سے تعاون نہیں کر رہا جیسا کہ کرنا چاہیے تو دراصل یہ
اس کا اعتراف ہے کہ وہ پاکستان کے بغیر کچھ نہیں کر سکتا۔ اس کی افغانستان
میں روس کے خلاف کامیابی جس پر وہ نازاں تھا بھی دراصل پاکستان کی مر ہون
منت تھی اور اب بھی وہ اس کے بغیر کچھ نہیں کر پا رہا اور الزام پاکستان پر
لگا رہا ہے۔ حالانکہ حقیقت حال یہ ہے کہ امریکہ دہشت گردی کی جنگ ختم نہیں
کرنا چاہ رہا وہ نہ صرف افغانستان میں اس جنگ کو طول دے رہا ہے بلکہ دنیا
بھر کے اسلامی ممالک کو نشانہ بنانے کے لیے اسے استعمال کر رہا ہے اور خاص
کر پاکستان اس کے خاص نشانے پر رہتا ہے اس تمام سازش کے آگے پاک فوج کے
ساتھ ساتھ اس کی خفیہ ایجنسی آئی ایس آئی کمربستہ ہے اور اسے کامیاب ہونے
نہیں دے رہی یہی آئی ایس آئی ہے جو مشرقی سرحد پر بھی دشمن کے خلاف ڈٹی کڑی
ہے اور یہی وجہ ہے کہ دشمن کی آنکھ کا کانٹا بنی ہوئی ہے صرف آئی ایس آئی
ہی کیا جو بھی پاکستان کی حفاظت پر مامور ہے وہ دشمن کے لیے ناقابل قبول ہے
اور اس میں اچھنبے کی کوئی بات بھی نہیں لیکن یہ مخالفت صرف باہر سے نہیں
ہوتی اندر سے بھی شدید تنقید کی جاتی ہے اور بہت سارے واقعات جن کے ملزمان
و مجرمان معلوم نہیں ہوتے اس کے کھاتے میں ڈال دیے جاتے ہیں کئی جگہوں پر
یہ بھی سنا کہ بہت سارے واقعات میں آئی ایس آئی کا ہاتھ ہے وہی آئی ایس آئی
جو دشمنوں کو انتہائی طور پر مطلوب ہے کیونکہ وہ ان دشمنوں کو پاکستان میں
کھل نہیں کھیلنے دیتی اور اسی لیے وہ اس کے خلاف سرگرم رہتے ہیں۔ چند ماہ
پہلے ایگر یکلچر یونیورسٹی پشاور کے ہاسٹل پر دہشت گرد حملے کی ایک ویڈیو
منظر عام پر آئی جس میں واضح طور پر دہشت گردوں کو کہتے ہوئے سنا گیا کہ
یہاں آئی ایس آئی والے ہیں اور وہ انہیں مارنے آئے ہیں لیکن حیرت کا مقام
اُس وقت ہوتا ہے جب ملک کے اندر سے یہ آوازیں آتی ہیں کہ آئی ایس آئی اِس
یا اُس واقعے میں ملوث ہے اور جب باہر سے بھی یہ صدا آتی ہے کہ آئی ایس آئی
اور پاکستان اور اس کی فوج دہشت گردی کے خلاف سنجیدہ کاروائی نہیں کر رہی
یعنی اپنے بھی خفا مجھ سے ہیں بیگانے بھی نا خوش طالبان بھی اسی کو نشانہ
بناتے ہیں اور ملک کے اندر صحافی اور سیاستدان بھی اس کے ناقدین بن جاتے
ہیں اور ایک ایسی صورت حال پیدا کردی جاتی ہے کہ جیسے آئی ایس آئی کوئی ملک
دشمن اور پاکستان دشمن ادارہ ہو حا لانکہ یہی آئی ایس آئی اور اس کے اہلکار
بڑی خاموشی سے ملک کی حفاظت کے لیے انجانے محاذوں پر موجود رہتے ہیں کبھی
ملک کے اندر دشمنوں پر کڑی نظر رکھے ہوئے ہوتے ہیں اورکبھی ملک سے باہر
ہونے والی سازشوں کی خبر پہنچا کر ملک کی حفاظت کی ضامن بن جاتے ہیں۔ دراصل
ہمارے ہاں یہ بیماری بڑی عام ہے اور مزید عام ہوتی جا رہی ہے کہ ہم خود کو
دانشور ثابت کرنے کے لیے اپنے اداروں کو ہدف تنقید بنا دیں اور پوری دنیا
کا کیا دھرا اُن کے سر تھوپ دیں۔ ہم بلوچستان کے قوم پرستوں کا دفاع اس لیے
کرنے لگ جاتے ہیں کہ خود کو انسانی حقوق کا چیمپئن کہلا سکیں اور دنیا
ہماری ’’انصاف پسندی‘‘ پر عش عش کرے لیکن جب یہی قوم کے غدار کبھی اس ملک
کی وفادار فوج اور اس کی سڑکوں پر گشت کر کے مجرموں اور غلط کاروں پر نظر
رکھنے والی پولیس اور اس کے گلی کوچوں میں عوام کی حفاظت کرتے ہوئے مختلف
بہروپ بھرے اس کی خفیہ ایجنسیوں کے اہلکاروں کو نقصان پہنچاتے ہیں انہیں
شہید کرتے ہیں تو تب ان کے انسانی حقوق کی پاسداری کی حس مر جاتی ہے اور
یوں لگتا ہے یہ دشمن کے سپاہی تھے جو مارے گئے اور آئی ایس آئی کے بارے میں
تو یہ رائے اور جذبات ایک خاص طبقہ ء فکر کے لیے طرۂ امتیاز ہے حالانکہ یہی
ادارہ ہے جو دنیا کی ساری دشمن ایجنسیوں کے خلاف بر سر پیکار ہے چاہے ان کی
کاروائیاں مک کے اندر ہوں یا باہر یہی ان کے سامنے بند باندھے ہوئے ہے اور
اسی لیے ان کے نشانے پر ہے تو کیا بہتر نہ ہو کہ اگر یہ ادارے ہمارے آگے
ڈھال بن کر کھڑے ہیں تو ہم اِن کی پشت پر ان کی طاقت بن کر اپنی صف باندھ
لیں تا کہ دشمن کی پہنچ آگے سے ہم تک اور پیچھے سے ان تک نہ ہو اور یہی
باہمی تحفظ اور قومی اتحاد واتفاق ہماری بقاء کا باعث اور ضامن بن جائے اگر
ہم بحیثیت قوم اپنے محافظوں پر فخر کریں گے تو دنیا ان کے سامنے جم نہ سکے
گی اور ہم تمام خطرات کا ڈٹ کر مقابلہ کرتے ہوئے انہیں شکست دے سکیں گے۔
|