بنگلہ دیش نے میانمار کے ساتھ ایک معاہدہ طے کر لیا ہے جس
کے مطابق میانمار کی فوج اور پولیس کی درندگی و سفاکیت کی وجہ سے نقل مکانی
کرکے بنگلا دیش میں پناہ لینے والے 6لاکھ سے زاید روہنگیا مسلمانوں کو واپس
میانمار بھیجا جائے گا۔ بنگلا دیش کا کہنا ہے یہ پہلا قدم ہے۔ میانمار نے
کہا ہے کہ وہ روہنگیا کو ’جلد از جلد‘ واپس لینے کے لیے تیار ہے۔میانمار کے
دارالحکومت نیپیدو میں طے پانے والا یہ معاہدہ امریکی سیکریٹری اسٹیٹ ریکس
ٹلرسن کی گزشتہ ہفتے میانمار میں آنگ سان سو چی سے ملاقات کے بعد ہوا۔ ریکس
ٹلرسن کا کہنا تھا کہ ’’صورت حال صاف ہے کہ راکھائن کی ریاست روہنگیا افراد
کے خلاف نسل کشی کر رہی ہے، اس ظلم کی کوئی وضاحت نہیں کی جاسکتی۔‘‘ اقوام
متحدہ کی جانب سے بھی اسے نسل کشی قرار دیا جا چکا ہے۔ رواں سال میانمار
فوج کی جانب سے روہنگیا مسلمانوں کی نسل کشی کا نیا سلسلہ شروع کرنے کے بعد
سے اب تک 6 لاکھ 20 ہزار روہنگیا افراد ہجرت کرکے بنگلا دیش میں دنیا کے سب
سے بڑے پناہ گزین کیمپ میں مقیم ہیں۔ روہنگیا مسلمان بے وطن اقلیت ہیں،
جنھیں عرصہ دراز سے میانمار میں امتیازی سلوک کا سامنا ہے۔ میانمار میں
صدیوں سے مقیم مسلمانوں کو میانمار کی حکومت نے اپنا شہری تسلیم کرنے سے
انکار کر دیا اور ان کی شہریت کے حقوق سلب کر لیے گئے جس کے بعد ملک کی
سیکورٹی فورسز ان پر پل پڑیں اور ان پر حملے شروع ہو گئے حتی کہ ان کی
بستیوں کی بستیاں جلانی شروع کر دی گئیں۔ اب مظلوم اور کمزور مسلمانوں کے
پاس اس کے سوا اور کوئی چارہ نہ رہا کہ اپنی جان اور عزت آبرو بچانے کے لیے
ملک سے فرار ہو جائیں اور یوں وہ لاکھوں کی تعداد میں پڑوسی ملک بنگلا دیش
ہجرت کر گئے، جہاں انھیں پناہ گزین کیمپوں میں رکھا گیا، جب کہ سمندری
راستے سے فرار ہونے والوں میں زیادہ تر سمندر کی طوفانی لہروں کی نذر ہو
گئے اور چھ لاکھ سے زاید بنگلا دیش میں پناہ لینے میں کامیاب ہوگئے، بنگلا
دیش کی جانب سے کئی ماہ سے ان کی واپسی کی کوششیں کی جارہی ہیں، گزشتہ ہفتے
میانمار اور بنگلا دیش کے درمیان ان کی واپسی کا معاہدہ طے پا گیا ہے۔
امدادی اداروں نے روہنگیا مسلمانوں کے تحفظ کی ضمانت کے بغیر ان کی زبردستی
واپسی کے بارے میں خدشات کا اظہار کیا ہے۔ انسانی حقوق کی تنظیموں نے بھی
اس معاہدے پر سوال اٹھاتے ہوئے کہا کہ کئی گاؤں کو جلایا جاچکا ہے، یہ
روہنگیا افراد کہاں رہائش اختیار کریں گے اور جس ملک میں اسلام مخالف جذبات
موجود ہوں تو وہاں روہنگیا مسلمانوں کی حفاظت کو کیسے یقینی بنایا جائے گا؟
جبکہ اقوام متحدہ نے بھی اس معاہدے کے حوالے سے کہا ہے کہ میانمار ابھی
روہنگیا مسلمانوں کی بنگلہ دیش سے واپسی کے لیے محفوظ نہیں۔ میانمار میں
روہنگیا مسلمانوں کے خلاف میانمار فوج اور بدھ مت مذہب سے تعلق رکھنے والے
افراد کی جانب سے المناک جنسی طور پر ہراساں، قتل اور آتشزدگی کے بھیانک
اور المناک واقعات سامنے آئے ہیں اور اب بھی مظالم کا سلسلہ نہیں رکا، ورنہ
عالمی میڈیا کو متاثرہ علاقوں میں جانے کی اجازت دے دی جاتی۔ ایسے میں زندہ
بچ کر بنگلادیش میں پناہ لینے والے ساڑھے چھ لاکھ روہنگیا مہاجرین کو بغیر
کسی حفاظتی معاہدے کے ایک بار پھر انسانوں کے روپ میں درندوں کے حوالے
کردینا دانشمندی نہیں ہے۔
یہ بات ٹھیک ہے کہ بنگلادیش مہاجرین کی اتنی بڑی تعداد کو بہت زیادہ دیر تک
اپنے ملک میں پناہ دینے کا متحمل نہیں ہوسکتا۔ روہنگیامہاجرین کی اصل جگہ
ان کا ملک میانمار ہی ہے، ان کو ان کے علاقے واپس ملنے چاہیے اور انہیں
وہاں تمام شہری حقوق بھی حاصل ہونے چاہیے، یہی اس مسئلے کا مستقل حل ہے،
لیکن بنگلا دیش اور مسلم ممالک سمیت تمام عالمی برادری کو روہنگیا مہاجرین
کو ان کے علاقوں میں واپس بھیجنے سے پہلے میانمار حکومت سے اس بات کی ضمانت
ضرور لینی چاہیے کہ وہ ان بے بس و مجبور روہنگیا مہاجرین کو اسی طرح درندگی
کا نشانہ نہیں بنائیں گے، جس طرح پہلے ان کے سامنے ان کے ہی عزیز و اقارب
کو نشانہ بنایا گیا ہے۔ میانمار میں برمی حکومت اور فوج نے مل کر روہنگیا
مسلمانوں پر بدترین مظالم ڈھائے ہیں۔ چشم فلک نے میانمار میں نہتے لاچار و
بے بس انسانوں پر ظلم و بربریت اور بدترین تشدد کے ایسے دلدوز و دلخراش
مناظر بھی دیکھے کہ چشم بشر ان کی تاب نظارہ نہیں لاسکتی اور اب تک یہ
مظالم روہنگیا مسلمانوں پر کیے جارہے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ گزشتہ ہفتے
میانمار اور بنگلا دیش کے درمیان معاہدے کے باوجود روہنگیا مسلمانوں کی
ہجرت کا سلسلہ جاری ہے۔
چند روز قبل امریکی وزیر خارجہ ریکس ٹلرسن نے میانمار کی سول و عسکری
قیادتوں سے ملاقات کے دوران روہنگیا میں مسلمانوں پر ہونے والے مظالم اور
انسانی حقوق کی سنگین خلاف ورزیوں کی شفاف تحقیقات کا مطالبہ کیا تھا۔
اقوام متحدہ کے اعلیٰ افسر نے میانمار آپریشن کو نسلی صفائی قرار دیا۔
میانمار کے سول ایڈمنسٹریشن کے ساتھ مشترکہ کانفرنس کرتے ہوئے امریکی وزیر
خارجہ کا کہنا تھا کہ میانمار میں سیکورٹی فورسز کے آپریشن اور ہنگامہ
آرائی سے متاثرہ افراد کے بارے میں کافی تشویش ہے، اس ضمن میں شفاف انداز
میں تحقیقات کی ضرورت ہے۔ اقوام متحدہ کے سینئر افسر کا کہنا تھا کہ
میانمار کی فوج نے آپریشن کے دوران سیکڑوں خواتین کو زیادتی کا نشانہ بنایا
اور کئی افراد کو قتل بھی کیا۔ ٹلرسن نے میانمار حکومت کو قابل اعتماد
تحقیقات کروانے اور انسانی حقوق کی خلاف ورزی کرنے والے افراد کو سزا دینے
کا مطالبہ کیا۔ اْن کا کہنا تھا کہ زیادتیوں اور انسانی حقوق کی خلاف ورزی
سے متعلق سامنے آنے والے الزامات کی تحقیقات اور اْن میں ملوث افراد کو سزا
دینا بے حد ضروری ہے۔
روہنگیا مسلمانوں پر بدترین مظالم ساری دنیا کے سامنے ہوئے ہیں۔ پاکستان
اور دوسرے کئی مسلمان ملکوں کے علاوہ امریکا اور یورپ میں بھی عوامی سطح پر
روہنگیا مسلمانوں پر مظالم کے خلاف احتجاجی مظاہرے تو کیے گئے، لیکن ان پر
ہونے والے مظالم کو رکوانے کے لیے عملی اقدام شاید کسی نے نہیں کیا۔
روہنگیا مسلمانوں پر مظالم کے خلاف دنیا بھر میں ہونے والے احتجاج کے بعد
اقوام متحدہ کے سب سے مقتدر ادارے سلامتی کونسل نے میانمار کی حکومت سے یہ
تو کہا ہے کہ وہ روہنگیا بحران پر فوری قابو پائے، مگر وہ مسلم اقلیت کی
نسلی صفائی مہم کو بند کرانے کے لیے کوئی ٹھوس اقدامات نہیں کرسکی اور
اسلامی ممالک کی تنظیم (او آئی سی) بھی آج تک اس مسئلہ کو مستقل طور پر حل
کرنے کے لیے کوئی ٹھوس حکمت عملی نہیں بنا سکی۔ یہی وجہ ہے کہ میانمار میں
روہنگیا مسلمانوں پر مظالم کا سلسلہ آج بھی جاری ہے۔ صرف خبریں آنا بند
ہوئی ہیں۔ ایسے حالات میں کیا اس بات پر یقین کیا جاسکتا ہے کہ اگر روہنگیا
مہاجرین کو دوبارہ میانمار میں بھیج دیا جائے تو وہ درندے نما انسان دوبارہ
روہنگیا مسلمانوں کے ساتھ ویسا سلوک نہیں کریں گے جیسا پہلے کیا گیا۔ ایسے
حالات میں عالمی برادری کی جانب سے میانمار کو اس بات کا پابند کرنا ضروری
ہے کہ وہ روہنگیا مسلمانوں پر مظالم نہیں کرے گا اور انہیں ان کے شہری حقوق
دیے جائیں گے۔
جو روہنگیا مہاجرین بنگلادیش میں مقیم ہیں، ان کو بھی سخت مشکلات کا سامنا
ہے۔ وہاں خوراک کی کمی ہے، خوراک کی کمی کی وجہ سے کئی اموات واقع ہوچکی
ہیں۔ سردی کی شدت کی وجہ سے امدادی تنظیموں کی جانب سے امداد بھی کم کی
جارہی ہے۔ اقوام متحدہ کے ادارہ برائے مہاجرین اور فلاحی تنظیموں کی جانب
سے پناہ گزینوں کو مہیا کی گئی خوراک ختم ہو جانے کا خدشہ پیدا ہو گیا ہے
اور جو خوراک دی جارہی ہے، وہ بھی ناقص ہے، جس کی وجہ سے بیماریان پھیل رہی
ہیں، ادویہ کی کمی کی وجہ سے بھی کئی اموات ہوچکی ہیں۔ سردی کی وجہ سے دیگر
مسائل کے ساتھ ساتھ خصوصاً بچوں کی بیماریوں میں بھی اضافہ ہورہا ہے۔ اقوام
متحدہ نے بنگلا دیش کے پناہ گزین کیمپوں میں موجود ہزاروں روہنگیا مسلمان
بچوں کی حالت زار کو تشویش ناک قرار دیا ہے۔ اقوام متحدہ کے ذیلی ادارے
ورلڈ فوڈ پروگرام کے جائزے کے مطابق اس سے متاثر ہونے والے لاکھوں روہنگیا
مسلمانوں کو سنگین صورتحال کا سامنا ہے، اس معاملے میں خاص طور پر بچے
زیادہ متاثر ہوئے ہیں۔ ایک جائزے کے مطابق کیمپ میں موجود ہر 4 میں سے ایک
بچہ خوراک کی کمی کاشکار ہے اور اس میں مسلسل اضافہ ہو رہا ہے۔ یو این نیوز
سینٹر کی ایک رپورٹ کے مطابق پیر (20 نومبر) کو بچوں کے عالمی دن کے موقع
پر اقوام متحدہ کے ادارہ برائے پناہ گزین (یو این ایچ سی آر) کی خیرسگالی
سفیر اداکارہ کرسٹین ڈیوس نے بنگلا دیش میں پناہ گزین کیمپوں کا دورہ کیا
اور روہنگیا بچوں کی حالت زار کی جانب عالمی برادری کی توجہ مبذول کروائی۔
اس موقع پر ان کا کہنا تھا کہ میرے لیے روہنگیا بحران میں سب سے زیادہ
تکلیف دہ بات ان بچوں کا تصور ہے، جو اپنے گھروں سے نقل مکانی کرنے پر
مجبور ہوئے۔ کیمپوں میں موجود افراد میں سے آدھی تعداد بچوں کی ہے، جن میں
سے کچھ اپنے والدین کو کھوچکے ہیں اور اب بالکل تنہا ہیں۔ ان کا کہنا تھا
کہ میں تصور نہیں کرسکتی کہ ان بچوں اور ان کے اہلخانہ پر کیا گزری ہوگی۔
ایسے میں بنگلا دیش میں مقیم روہنگیا مہاجرین کی امداد کی بھی سخت ضرورت
ہے۔ اس حقیقت سے انکار نہیں کیا جاسکتا کہ روہنگیا مسلمانوں پر نہ تو عالم
اسلام نے کوئی توجہ دی ہے اور نہ ہی عالمی برادری نے اپنی ذمہ داری پوری کی
ہے۔ روہنگیا مسلمانوں کو پوری دنیا کے تعاون کی ضرورت ہے۔ مہاجر کیمپوں میں
مقیم روہنگیا مہاجرین کی بھی مدد ضروری ہے اور میانمار حکومت سے بات کر کے
وہاں جاری مظالم رکوانا اور ان کی حفاظت کی ضمانت لے کر روہنگیا مہاجرین کو
ان کے علاقوں میں بسانا عالم اسلام اور عالمی برادری کی ذمہ داری ہے۔ |