آج حکمرانوں اور سیاستدانوں کی اقتدار کی چھینا جھپٹی
اور لڑا ئی میں مسائل وپریشا نیوں میں مبتلااوراپنے بنیادی حقوق سے محروم
پاکستان کے عوام تو جانس پر زندہ ہیں،ایسے میں آخر عوام کی دادرسی کون اور
کب کرے گا؟ کیا پاکستا نی عوام اشرافیہ کی لڑا ئیوں کی وجہ سے مسائل اور
مشکلات کی دلدل میں ہی دھنسی رہیں گے؟ یا کو ئی اِن کا مسیحا بھی بنے گا ؟
یہ سب جا نتے ہیں کہ گزشتہ ستر سالوں سے تو اشرافیہ کو اقتدار کی مسند تک
پہنچا نے والے عوام کی کسی نے اِس کی خواہشات کے مطابق ادادرسی کبھی نہیں
کی ہے جو بھی آیا ہے وہ اقتدار کے مزے لوٹ کرچلتا بنا مگر پرا نے نعروں اور
وہی فرسودہ منشور لے کر پھرپلٹ پلٹ کر آتارہاہے اور عوام کو مسا ئل درمسا
ئل کی چکی میں پستا رہا اِس میں کو ئی شک نہیں کہ ہمیشہ پاکستان پر ڈھیٹ
اور بیحد شارپ اور بڑے بے ...اشرافیہ کا ٹولہ ہی قا بض رہا جس نے ہمیشہ
اپنے ذاتی اور سیاسی مفادات اور اقتدار کے خاطرعوام کو بے وقوف بنا کبھی
عوام کو اداروں سے لڑایا اور اپنی سیاست چمکا ئی تو اکثر یت ایسی بھی گزری
ہے جس نے آج کی طرح اداروں عدلیہ ، فوج اور پارلیمنٹ کے وقار اور احترام کو
دباؤ پر لگا نے سے بھی دریغ نہیں کیا ہے۔
اِس منظر اور پس منظر میں حالا نکہ مُلک میں متوقعہ عام انتخا بات میں چند
ماہ ہی باقی رہ گئے ہیں ،مگر پھر بھی حکمرانوں اور سیاستدانوں نے مُلک میں
ایک نہ ختم ہونے والے ٹینشن اور تناؤ کا ما حول پیدا کررکھا ہے ضرورت اِس
امر کی ہے کہ اَب سیاستدان اپنی لڑا ئیوں میں اداروں کو بُرا بھلا کہنے کا
سلسلہ بند کریں اور لازمی ہے کہ اِنہیں جو کام کرنے کے ہیں وہ کریں ورنہ؟
یہ کس منہ سے ووٹ کی بھیک ما نگنے عوام کی دہلیز پر جا ئیں گے۔آج یہ بات کو
ئی نہیں سوچ رہاہے کہ اِنہیں عوامی مسا ئل حل کرنے کے لئے وقت بہت کم رہ
گیاہے مگر اِنہوں نے دیدہ دانستہ اپنی سیاسی بساط کی چلیں ایسی بچھارکھیں
ہیں کہ جیسے عوامی مسائل حل کرنے کے لئے ابھی بڑا وقت پڑا ہے ، کو ئی اپنی
سیاسی سازشوں سے سینیٹ کے انتخا بات کو ٹالنے کے لئے طرح طرح کے حربے
استعمال کررہاہے تو کوئی عام انتخابات قبل ازوقت کرانے کی ضد پر آڑابیٹھاہے
اور کچھ کا خیال یہ ہے کہ انتخابات وقت پر تو ہوں مگر یہ سینہ چوڑا کرکے
عوامی فلاح و بہبود کا کام اور دیگر مسا ئل حل کئے بغیرہی وفاق اور صوبوں
میں اپنی حکومتیں بنا ئیں اور سارا بجٹ دُبئی اور لند ن کے فلیٹ اور بلند و
بالا عمارتیں خریدنے میں لگا دیں اورمُلک اور عوام کو سِوا ئے سبز باغات
دِکھا نے اور تسلی پر بہلا کراپنا اُلوسیدھا کریں اور قومی خزا نے اور عوام
کے ٹیکسوں سے جمع ہونے والی قومی دولت کو آف شور کمپنیاں بنا نے اور اپنے
خاندان کے افراد کے اللے تللے کے لئے استعمال کریں،اِس کھینچا تا نی میں
سیاستدان عوام اور مُلک کو بھول چکے ہیں ۔
اِس سے انکار نہیں کہ اِن دِنوں سیاستدانوں کو اگر کو ئی راہ سُجھا ئی دے
رہی ہے توسب ہوں کو بس ایک یہی راستہ دکھا ئی دے رہاکہ اگلے متوقعہ
انتخابات میں کا میا بی کے خاطر ایک دوسرے کو گندا کرتے ہوئے اگر اعلیٰ
عدلیہ اور پارلیمنٹ جیسے مقدس اداروں کی عزت بھی تار تار کر نی پڑے تو اپنا
گنداداروں کی طرف بھی اُچھالنے سے دریغ نہ کیا جائے اِس لئے اِن دِنوں
برسرِ اقتدار جماعت ن لیگ سمیت اپوزیشن کی جماعتیں بھی اِسی گمراہ کن راہ
پر چل پڑی ہیں اِن کی یہ لڑا ئی اور اقتدار کی چھینا جھپٹی کب اور کِدھر جا
کر رُکے گی یا ختم ہوگی ؟ ابھی اِس کے بارے میں کچھ نہیں کہا جاسکتا ہے کہ
سیاستدانوں کی آپس کی لڑا ئی اور اداروں کو اپنی ذاتی اور سیاسی مفادات کے
لئے بُرا بھلا کہنے اور سخت الفاظ میں تنقیدوں کا نشا نہ بنا نے کا سلسلہ
بند ہوگا بھی کہ نہیں ؟اور اِن کی لڑا ئیوں میں قومی ادارے انتخا بات کرانے
کی پوزیشن میں ہوں گے بھی کہ نہیں؟
بہر کیف ، پچھلے دِنوں ایک عوامی احتجاجی جلسے میں شیخ رشید احمد اور عمران
خان کی جا نب سے پارلیمنٹ پر لعنت بھیجنے پر ایوان میں ایک قرار داد پیش
کردی گئی ہے شیخ رشید احمد اور عمران خان کے پارلیمنٹ سے متعلق نازیبا
جملوں کے خلاف ایوان میں ن لیگ والوں سمیت دوسروں نے بھی سخت الفاظ میں
مذمت کی ہے، حالانکہ جنہوں نے ایسا کیا ہے اُنہوں نے سیاق و سباق سے ہٹ کر
قرارداد پیش کی اور اِس کی حمایت کرنے والوں نے بھی وہی کیا جو اِنہیں کرنا
چاہئے تھا کہ قرار داد کی حمایت کرنے والوں کی اپنی نہ تو کو ئی سوچ ہے اور
نہ اِن کے پاس ایسا دما غ ہے کہ وہ اِسے استعمال کریں اور سوچیں کہ اِنہوں
نے ن لیگ والوں کی قرارداد کی حمایت کیوں ؟ اور کس لئے کی ہے ۔آج عمران اور
شیخ جی کے جملوں کو پکڑ کر چیخ چلا نے والے اپنے گریبان میں بھی تو
ذراجھانکیں یہ کس منہ سے چیخ چلا رہے ہیں، جی ہاں یہ وہی ن لیگ کے سربراہ
نوازشریف اور ن لیگ والے ہیں جو 28جولائی 2017کو اعلیٰ عدلیہ سے نا اہل
ہونے کے بعد سے آج تک اعلیٰ عدلیہ سُپریم کورٹ کو اپنے لاؤ لشکر کے ہمراہ
سڑکوں پر نکل کر بُرا بھلا کہہ رہے ہیں اور گلے پھاڑ پھاڑ کر آہو فغاں کرتے
’’ مجھے کیو ں نکالا؟؟ کا ماتم کرتے پھر رہے ہیں اور عوام کو اپنا مقدمہ
لڑنے کے لئے اُکسارہے ہیں حا لا نکہ نوازشریف پارلیمنٹ سے دوبارہ اپنی
پارٹی کے سربراہ منتخب ہو گئے ہیں مگر پھر بھی اِن کا حلق عدلیہ کے خلاف
گلے پھاڑنے اور اِن کی زبان عدلیہ اور معزز ججز پر تنقیدوں کے نشتر چلا نے
سے باز نہیں آرہی ہے، یہ کیسا اِنصاف اور طریقہ ہے ؟ کہ جب تین بارمُلک کا
وزیراعظم رہنے والا برسرِ اقتدار جماعت ن لیگ کا سربراہ عدالتی فیصلے سے نا
اہل ہوجائے تویہ اورحکومتی وزرا اور اراکین پارلیمنٹ اعلیٰ عدلیہ اور معزز
ججز صاحبان کے خلاف محاذ آرا ئی پر اُتر آئیں تو کچھ بُرا نہ ہو؟ اور کوئی
اِنہیں اِن کی اِس حرکت پر لگام بھی نہ دے؟ مگر جب مال روڈ پر اپوزیشن کے
احتجاجی جلسے سے خطاب کے دوران عوامی مسلم لیگ کے سربراہ شیخ رشیداحمد اور
پاکستان تحریک انصاف کے چیئر مین عمران خان اپنی جذباتی عادت و اطوار سے
مجبور ہوکر قومی اسمبلی سے مستعفی ہونے کااعلان کرتے ہوئے’’ ذراسایہ کہہ
دیں میں ایسی اسمبلی اور جمہوریت پر لعنت بھیجتاہوں، بہت جلد اپنی نشتوں کو
چھوڑ دیں گے‘‘ تو سابق وزیراعظم اور سربراہ ن لیگ نوازشریف سمیت پوری اُوپر
سے نیچے تک حکومتی کا بینہ کے تن بدن میں آگ لگ جا ئے اور اگلے ہی روز قومی
اسمبلی میں عمران خان اور شیخ رشید احمد کے خلاف کرارے کی قرارداد پیش کردی
جائے اورمعاملے کو اتنا اُلجھادیا جائے،عمران خان و شیخ رشید احمد
اینڈطاہرالقادری انڈسڑی کا معاملہ اُٹھ جا ئے تو اُن( نوازشریف فیملی
کواینڈ اسمبلی سنز) کا اعلیٰ عدلیہ کو بُرا بھلا کہنے اور معزز ججز صاحبان
کو سخت ترین تنقیدوں کا نشا نہ بنائے جا نے کا معا ملہ دب جا ئے تو عدلیہ
کو بُرا کہنے والے بچ جا ئیں۔( ختم شُد) |