عوام کو پتلی تماشوں سے بڑی خار ہے۔وہ ایک عرصے سے اس
ڈرامے بازی کو جھیل رہے ہیں۔پہلے پہل کچھ مزا آیا۔پھر بوریت ہونے لگی۔اب
سخت قسم کی بیزاریت کا سماں ہے۔پتلی تماشوں کو دیکھ کر بلا کی کوفت ہورہی
ہے۔مگر یہ کم نہیں ہورہے۔جانے کہاں کوئی کمی ہے کہ اس فلاپ مووی کو زبردستی
دکھایا جارہاہے۔کسی بدصورت چہرے والے کا اپنے چہر ے پر کوئی خوشنما ماسک
پہن کر اس طرح کا کھیل کھیلا جاتاتھا۔پھر یہ ہوا کہ خوشنما ماسک کی جگہ
لینے خوش نما چہرے آگئے۔تھوڑی قیمت لیکر بد نما چہرے والو ں کی نمائندگی کا
یہ طریقہ پتلی تماشہ کرنے ولوں کے لیے مزید آسانیاں دے گیا۔بری شکل والے ان
خوشمنا شکل والوں کو آگے کرکے اپنا کام چلانے لگے۔کچھ یہی حال ان بدنیت اور
بے ایمانوں نے اپنایا۔اپنی مکروہ تعلیما ت کے پرچار کے لیے انہیں بھی ایسے
کئی خوش الحان مل گئے۔جن کی آواز کے دیوانے گنتی سے باہر تھے۔انہیں ایسے
فریب کار بھی میسر آگئے جو ان کی شیطانی سوچ کو کسی اچھے ڈھنگ او رخوشنما
لبادے میں ڈھال سکیں۔ملمع کاری سے گھٹیا اور بے کار سوچ کو اس قدر خوبصورت
اور دلکش بنا دیا جاتا کہ یہ سننے اور پڑھنے والوں کے لیے قابل برداشت ہی
نہیں بلکہ واجب غور بن جائے۔بد نما شکلوں والے ہوں یا بھدی سوچ والے معقول
انویسٹ مینٹ کے ذریعے پتلیوں کو نچاتے ہیں۔اشاروں پر ناچتی پتلیاں جھوٹ او
رمکر کا ایسا سماں بناتی ہیں جو پیچھے چھپے شیطانوں کی تسکین کاباعث
بنے۔ایک عرصے سے جاری یہ پتلی تماشہ اب اپنا سحر کھوچکا۔عوام کی بیزاری
عروج پرہے۔مگر ڈوریاں ہلانے والے اب بھی پتلی تماشوں سے مکمل نتائج پانے کی
خام خالی میں ہیں۔
17جنوری 2018 کا دن اس لحاظ سے یادگاررہے گاکہ اس دن پارلیمنٹ کو لعنتی
قرار دیے جانے کا افسوس ناک بیانیہ سامنے آیا۔اس دن اپوزیشن جماعتوں کی طرف
سے ایک مشترکہ احتجاجی جلسہ تھا۔اسی جلسے میں اجتماعی طور پر پارلیمنٹ سے
مستعفی ہونے پر غور کرنے کا اعلان کیا گیا۔یہ فیصلہ ہوا کہ پارلیمنٹ میں
بیٹھنے کا کچھ فائدہ نہیں۔اس موقع پر پہلی بار پی پی قیادت۔تحریک انصاف کی
قیادت کے ساتھ اکٹھی بیٹھی۔علامہ طاہر القادری نے اس آگ او رپانی کے اکٹھ
کو ممکن بنایا۔اپنے خطاب میں قادری صاحب نے جہاں سلطنت شریفیہ کا خاتمہ
ہونے کی چاہت کا اظہار کیا۔وہی پرعمران خاں نے احساس دلایاکہ وہ اب بھی
تازہ دم ہیں۔ بولے کہ ہمیں پیچھے نہیں ہٹنا چاہیے۔سڑکوں پر آنے کی پریکٹس
ہے۔سابق صدر آصف علی زرداری نے اس موقع پر یہ انکشاف کرکے حیران کردیا کہ
جب چاہوں حکومت کو گھر بھیج سکتاہوں۔ملک کو جاتی عمرا ء کے شیخ مجیب
الرحمان سے خطرہ ہے۔اس اہم جلسے سے شیخ رشید اورمصطفی کما ل نے بھی خطاب
کیا۔باقی مقررین کی تو خیر بات الگ ہے۔مگر جو بیان صابق صدر او رپی پی کے
چئیرمین آصف علی زرداری نے دیا۔وہ قابل ذکر ہے۔ان کے اس دعوے کو کہ وہ جب
چاہیں انہیں گھر بھیج سکتے ہیں تو ایک سیاسی بڑ ہی سمجھا جاسکتاہے۔مگر
نوازشریف کو جاتی عمراء کا شیخ مجیب الرحمان کہہ کر انہوں نے قوم کے زخموں
پر نمک چھڑکنے کی کوشش کی ہے۔ان کے سسر مرحوم بھی ایک مجیب الرحمان کے خلاف
تب کی اسٹیبلشمنٹ کے ساتھ ایکا کیے ہوئے تھے۔اب زرداری صاحب بھی اپنے سسر
کی طرح اس نیک کام کا بیڑا اٹھانے نظر آرہے ہیں۔
سقوط ڈھاکہ پتلی تماشوں کاایک سیاہ باب تھا۔آدھاملک گنوالینے کے بعد بھی
پتلے تماشے نہیں رکے۔پارلیمنٹ کو لعنتی قراردینے والے کسی طور بھی باہوش
قرار نہیں دیے جاسکتے۔بالخصوص ایسی تمام جماعتیں جو سیاسی عمل پر یقین
رکھتی ہیں۔ان کی طرف سے پالیمنٹ کو لعنتی قراردینا ان کی سیاسی اہلیت پر
ایک سوالیہ نشان ہے۔یوں لگتاہے جیسے اپوزیشن کا یہ احتجاجی جلسہ کوئی نیا
پتلی تماشہ ہو۔ایسا پتلی تماشہ جو کچھ نام نہاد جمہویت کے علمبردار وں کو
آگے رکھ کر جمہوریت کو کمزور کرنے کے لیے کیا جارہاہے۔ایک دوسرے کی بوٹیا ں
نوچنے والے اس وقت اس پتلی تماشے کے لیے ایک ہورہے ہیں۔میڈیا کی روشنیاں ان
کی کہہ مکرنیوں کو نمایاں کررہی ہیں۔ان کے پینترے کھل کرسامنے آرہے ہیں۔ان
کی کی پرفارمنس اور دعووں میں خلا صاف محسوس کیا جارہاہے۔پتلی تماشے ہورہے
ہیں۔عوام بے زار ہے۔جوں جوں یہ سلسلہ آگے جارہاہے۔طیش بڑھ رہاہے۔میڈیا نے
اب وہ اندھیرے مٹادیے جو جو ٹھگ بازی کے سبز باغ بنائے جانے سے متعلق
تھے۔اب یہ پتلی تماشے برداشت کرنا مشکل ہورہے ہیں۔سوال یہ ہے کہ یہ سلسلہ
کب تک رہے گا۔لوگ بے زار تو ہیں۔مگر عملا کیا کیا جارہاہے؟ محض جلنے بھننے
کے کیا کیا جارہاہے؟۔کب تک ہم تقدیر کے حوالے اپنے معاملے کرتے رہیں
گے؟پتلی تماشہ کرنے والوں کو شاید قیامت تک قرار نہ آئے۔کٹھ پتلی بننے والے
بھی ہمیشہ دستیاب رہیں گے۔تو یہ سلسلہ کیسے رکے گا۔سوائے عوام کے اور کوئی
قوت اس سلسلے کو روکنے میں کامیاب نہیں ہوسکتی۔بجائے جلنے بھننے کے اگر ایک
قدم آگے بڑھادیاجائے تو نہ پتلی تماشے والے ٹھہریں گے۔نہ ان کی کٹھ
پتلیاں۔قوم جس دن یہ ذہن بنالے گی کہ اب عوامی مینڈیٹ کو روندنے والی سوچ
کو مٹا کررکھ دینا ہے۔پتلی تماشے والے دبک جائیں گے۔جس دن قوم یہ فیصلہ
کرلے کہ اس کے فیصلوں کو سپوتاژ کرنے والے ہاتھ قطع کردیناہیں۔ کٹھ پتلیاں
چھٹ جائیں گی۔پتلی تماشہ کرنے والوں اور ان کی کٹھ پتلیوں سے زیادہ گنہگار
وہ عوام ہیں جو محض ایک قدم آگے بڑھانے کی بجائے جلنے بھننے تک محدود رہ
رہی ہے۔ |