آلِ سعود نے جب سے شریف مکہ کاتختہ الٹ کرسعودی عرب کاتخت
وتاج سنبھالاہے،یہ پہلاموقع ہے کہ موجودہ ولی عہدجن کاسعودی بادشاہت میں
حکومتی منصب پرآنے کا٤١واں نمبرتھا، انہیں شاہ سلمان نے تمام روایات کے
برعکس اپناولی عہد نامزدکیاہے اورولی عہدمحمدبن سلمان جوشاہ سلمان کے سب سے
چھوٹے بیٹے ہیں ،انہوں نے منصب سنبھالتے ہی جس سرعت کے ساتھ اپنی ذات میں
تمام اختیارات منتقل کرلئے ہیں اوراس پرمستزادکہ کرپشن کے اختتام اورنئے
سعودی عرب وژن کے نام پرجس تیزی کے ساتھ اقدامات اٹھائے ہیں ،اس کے پیش
نظرکئی خدشات نے جنم لے لیاہے۔یہی وجہ ہے کہ پچھلے چند ہفتوں کے دوران
سعودی عرب اور اسرائیل سیاسی تجزیوں اور قیاس آرائیوں کا گرما گرم موضوع
رہے ہیں۔ کوئی بھی دن ایسا نہیں گزرتا جب ان کے حوالے سے کوئی نہ کوئی ایسی
بات سنائی نہ دیتی ہو، جس سے ان کے ارادوں اور اقدامات کا پتا نہ چلتا ہو۔
میں نہیں جانتا کہ سعودی ولی عہد محمد بن سلمان نے حال ہی میں تل ابیب کا
خفیہ دورہ کیا ہے یا نہیں مگر ہاں سعودی عرب اور اسرائیل کے سابق انٹیلی
جنس سربراہوں کو نیو یارک کے ایک سائناگوگ (یہودی معبد) میں ایک ہی اسٹیج
پر بیٹھے ہوئے میڈیا نے ضرور دیکھا ہے۔ اس تقریب میں سابق سعودی انٹیلی جنس
چیف شہزادہ ترکی الفیصل نے موساد کے سابق سربراہ افرائیم ہالیوی سے ایران
کے معاملے پر شدید اختلافِ رائے کا اظہار کیا۔ افرائیم ہالیوی نے ’’جوہری
ایران‘‘ کو برقرار رکھنے کے حق میں رائے دی۔ سعودی عرب چونکہ اس وقت ایران
کو جوہری معاملات سے دور رکھنے کیلئےمہم چلا رہا ہے اس لیے شہزادہ ترکی
الفیصل کیلئےناگزیر تھا کہ اسرائیلی رائے کے خلاف جاتے۔ اور وہ گئے۔ جب
کوئی اسرائیلی اسپائی ماسٹر کسی مسلم ملک کے معاملے میں غیر معمولی اعتدال
کا مظاہرہ کرتے ہوئے اُسے ’’فیلو مسلم نیشن‘‘ قرار دے تو لوگوں کا حیران
اور متوجہ ہونا حیرت انگیز نہیں۔
شہزادہ ترکی الفیصل نے سوئس شہر ڈیووس میں عالمی اقتصادی فورم کے اجلاس میں
بھی سابق اسرائیلی وزیر خارجہ زیپی لِونی سے بعض معاملات پر بحث و تمحیص کی۔
اسرائیلی سفارت کاروں سے سعودی ہم منصبوں کا یوں غیر رسمی طور پر ملنا اور
متنازع امور پر بات کرنا حیرت انگیز ہے۔ اب بحرین اور متحدہ عرب امارات بھی
اس عمل میں شریک ہیں۔ یہ سب کچھ یقینی طور پر اس لیے ہے کہ اسرائیل سے
باضابطہ تعلقات استوار کرنے کے حوالے سے عرب دنیا کے لوگوں کو ذہنی طور پر
تیار کیا جائے۔نئی سعودی حکومت اور صہیونیوں کا یوں نزدیک آنا کئی پہلوؤں
سے ’’حلال‘‘ بھلے ہی نہ ہو، تاہم یہ نیا ہے نہ حیرت انگیز۔ سعودی عرب اور
اسرائیل کیلئےاب بھی ایک دوسرے میں کچھ خاص کشش نہیں۔ یہ دونوں اگر قریب
آرہے ہیں تو اس لیے نہیں کہ انہیں ایک دوسرے سے کچھ لگاؤ ہے بلکہ محض اس
لیے کہ دونوں کا خوف مشترکہ ہے۔ اس خوف کو ایران کہتے ہیں۔ ایران کا جوہری
پروگرام اسرائیل اور سعودی عرب دونوں ہی کیلئےانتہائی تشویش کا باعث ہے۔
دونوں طرف یہ ڈر ہے کہ ایران خطے میں غیر معمولی پوزیشن حاصل نہ کرلے، اس
کے اثرات کا دائرہ اس قدر وسیع نہ ہوجائے کہ اسے کنٹرول کرنا مشکل ہوجائے۔
یہ خوف جس قدر پروان چڑھتا جارہا ہے،اسرائیل اورسعودی عرب کے درمیان تعلقات
بھی اُسی رفتار سے پروان چڑھتے جارہے ہیں۔ اصول یہ ہے کہ دشمن کا دشمن دوست
ہوا کرتا ہے۔
امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کیلئےسعودی عرب اور اسرائیل کے درمیان رابطے قلبی
تسکین کا باعث ہے۔ مئی میں سعودی عرب کے دورے کے بعد سے جو تبدیلیاں رونما
ہو رہی ہیں، اُن میں اسرائیل اور سعودی عرب کا نمایاں طور پر قریب آنا بھی
شامل ہے اور یہ تبدیلی ٹرمپ کو زیادہ بھائی ہے۔ ایران کا جوہری پروگرام
امریکا کیلئےبھی تشویش کا باعث تو ہے۔سعودی عرب کے جریدے ’’الف‘‘سے حالیہ
انٹرویو میں اسرائیلی فوج کے چیف آف اسٹاف گادی آئزن کوٹ نے کہا ہے کہ
ایران جو کچھ کر رہا ہے وہ بہت خطرناک ہے۔ وہ ایک طرف تو عراق، شام اور
لبنان میں قدم جماچکا ہے اور دوسری طرف یمن میں بھی اس کے واضح اثرات ہیں،
جس کےنتیجے میں ایک طرف بحیرۂ روم میں ایرانی اثرات نمایاں ہیں اور دوسری
طرف بحیرۂ احمر بھی اس کے اثرات کے دائرے سے باہر نہیں رہا۔سعودی عرب سے
تعلقات استوار کرنے کے معاملے میں اسرائیل زیادہ بے صبرا ہوا جارہا ہے۔ ایک
زمانے سے وہ اس بات کا خواہش مند رہا ہے کہ سعودی عرب میں اعتدال پسند اور
لبرل قسم کی سُنی حکومت ہو اور اب اس کا یہ خواب بہت حد تک شرمندۂ تعبیر
ہوتا دکھائی دے رہا ہے۔
سعودی عرب سے تعلقات استوار کرنے کے عمل میں اسرائیل کیلئےکوئی بھی معاملہ
خسارے کا نہیں۔ اگر وہ سعودی عرب سے باضابطہ سفارتی تعلقات استوار کرنے میں
کامیاب ہو جاتا ہے تو مسلم دنیا میں اس کیلئےبہتر تعلقات کے کئی دروازے کھل
جائیں گے۔ عرب دنیا میں اس کیلئےقبولیت کی راہ ہموار ہوگی اور دیگر خطوں کے
مسلم ممالک بھی اس سے باضابطہ تعلقات استوار کرنے میں زیادہ قباحت محسوس
نہیں کریں گے۔ ۱۹۹۳ء میں اوسلو معاہدے کے بعد مسلم دنیا میں اسرائیل
کیلئےنرم گوشہ پیدا ہوا تھا، جس کا فائدہ اٹھاتے ہوئے اس نے اردن اور قطر
سے تعلقات قابلِ رشک حد تک بہتر بنائے تھے۔ قطر نے البتہ ۲۰۰۹ء میں غزہ کی
ناکہ بندی کے خلاف ردعمل ظاہر کرتے ہوئے اس کا تجارتی دفتر بند کردیا تھا۔
سعودی عرب اور اسرائیل کے درمیان قربت یوں بھی فطری ہے کہ اُن کے مفادات
اور اسٹریٹجک اہداف بہت حد تک مشترک ہیں۔ اسرائیل کے وزیر توانائی یووال
اسٹینز نے حال ہی میں بتایا ہے کہ دونوں ممالک کے درمیان انٹیلی جنس شیئرنگ
ایک زمانے سے جاری ہے اور یہ بات چھپانا اسرائیل کیلئےنہیں بلکہ سعودی عرب
کیلئےزیادہ ضروری تھا، تاکہ اسلامی دنیا میں آبرو محفوظ رہے۔سعودی عرب نے
۲۰۰۲ء میں امن قائم کرنے کی نئی کوشش کے طور پر اسرائیل سے تعلقات صرف اس
شرط پر بہتر بنانے پر آمادگی ظاہر کی کہ وہ فلسطین اور دیگر عرب علاقوں سے
قبضہ ختم کرے اور عسکری مہمات سے گریز کرے۔اسرائیل سے تعلقات کے معاملے میں
سعودی عرب کو پھونک پھونک کر قدم رکھنا پڑتا ہے کیونکہ سعودی قیادت اچھی
طرح جانتی ہے کہ اسلامی دنیا میں اسرائیل کو تسلیم کرنے کے حوالے سے عمومی
ذہن اب تک نہیں بن سکا ہے۔ سعودی عرب کا سخت جان حلیف متحدہ عرب امارات بھی
اسرائیل کے معاملے میں بہت محتاط رہتا ہے اور اسرائیلی تجزیہ کاروں کے
الفاظ میں کہیے تو وہ اب تک ’’سائلنٹ پارٹنر‘‘رہا ہے۔
اسرائیل سے تعلقات بہتر بنانے کے معاملے میں سعودی عرب کیا چاہتا ہے؟ یہ
بات سمجھنا کچھ زیادہ دشوار نہیں۔ سعودی عرب کی نئی قیادت بہت سے معاملات
میں نئی سوچ اپنا رہی ہے۔ نئے اہداف مقرر کیے جارہے ہیں۔ نئی پالیسیاں مرتب
کی جارہی ہیں۔ ’’الف‘‘ کے حالیہ شمارے میں شائع ہونے والے انٹرویو میں
اسرائیلی فوج کے چیف آف اسٹاف یووال آئزن کوٹ سے فلسطین کے بارے میں کوئی
سوال نہیں پوچھا گیا۔ اِسے محض کوتاہی یا صرفِ نظر قرار نہیں دیا جاسکتا۔
یہ سب کچھ ارادی طور پر تھا۔ اتنا اہم معاملہ نظر انداز نہیں کیا جاسکتا
تھا، مگر کیا گیا۔ ایسا کرنے کے سیاسی مقاصد ہوں گے۔ ذہنوں میں سوالوں کا
ابھرنا لازم ہے۔ کیا یہ سمجھا جائے کہ ایران کو کنٹرول کرنے میں معاونت کے
عوض سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات نے فلطسین کے معاملے پر سمجھوتہ کرلیا
ہے؟
سعودی عرب اور اسرائیل دونوں ہی اس وقت امریکی صدر ٹرمپ کی طرف سے فلسطین
کے معاملے پر کسی واضح رائے کے منتظر ہیں۔ اب سوال یہ ہے کہ ٹرمپ اسرائیل
سے کہیں گے کہ وہ مشرقی بیت المقدس سے انخلا کرے یا پھر فلسطینیوں سے کہا
جائے گا کہ وہ اپنے علاقوں سے اسرائیلی قبضہ ختم کرنے اور ایک آزاد
فلسطینی ریاست کے قیام کے مطالبے سے دست بردار ہوجائیں؟
معاملات آسانی سے نمٹتے دکھائی نہیں دیتے۔ ایک صدی پرانے قضیے کو طے کرانے
کیلئےصدر ٹرمپ نے کسی اور کو نہیں، اپنے داماد جیرڈ کوشنر کو مقرر کیا ہے،
جو جذباتی قسم کا صہیونی ہے۔ جیرڈ کوشنر کا وائٹ ہاؤس کیریئر زیادہ دیر
چلتا دکھائی نہیں دیتا، کیونکہ ایف بی آئی کے سابق سربراہ جیمز کومے کو
ہٹانے اور امریکی صدارتی انتخاب میں روس کی تکنیکی مداخلت کے حوالے سے
اسپیشل کاؤنسل رابرٹ ملر اُن کے پیچھے پڑے ہوئے ہیں۔ رابرٹ ملر اس امر کا
بھی جائزہ لے رہے ہیں کہ اوباما دور میں جیرڈ کوشنر نے فلسطینی علاقوں میں
غیر قانونی یہودی بستیوں کی تعمیر کے حوالے سے اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی
میں رائے شماری کے دوران امریکا کی پوزیشن کمزور کرنے کیلئےاسرائیلی وزیر
اعظم بنیامین نیتن یاہو سے ساز باز کی تھی۔عالمی سیاسی تجزیہ نگاروں کی
رائےیہ ہے کہ امریکی قیادت فلسطین کا مسئلہ حل کرنے کے حوالے سے قابل عمل
اور قابل قبول تجاویز سامنے لانے اور یہودیوں کو فلسطینی علاقوں پر قبضہ
کرنے سے روکنے میں ناکام ثابت ہوگی۔ دوسری طرف وہ ایران کے حوالے سے بھی
کامیاب ہوتی دکھائی نہیں دیتی۔ ایران اس وقت مشرق وسطیٰ کے بیشتر حصوں میں
اپنے قدم جماچکا ہے اور ایسے میں اس کے خلاف کوئی واضح اقدام بظاہر امریکا
کے بس کی بات نہیں۔ایرانی قیادت کو گھٹنے ٹیکنے پر مجبور کرنے کیلئےسعودی
عرب کو کچھ کرنے کی ضرورت ہے، نہ اسرائیل کو۔اس کیلئےتوامریکی قیادت کاایک
اشارہ کافی ہے۔ سعودیوں کوبہت جلداندازہ ہوجائے گا کہ ایران کو کنٹرول کرنے
کے معاملے میں اسرائیل کو ساتھ ملانے سے انہیں کچھ بھی حاصل نہ
ہوگااوردوسری طرف ایران پہلے سے زیادہ مضبوط ہوکر ابھرے گا۔ اسرائیل کبھی،
کسی بھی حالت میں سعودی عرب کی جنگ نہیں لڑے گا۔ سعودی عرب کو جو کچھ بھی
کرنا ہے خود کرنا ہے۔
شاہ سلمان اسرائیل سے تعلقات بہتر بنانا چاہتے ہیں مگر انہیں اندازہ نہیں
کہ اس کا نتیجہ کیا برآمد ہوسکتا ہے۔ ریاض میں اسرائیلی پرچم کے بلند ہونے
سے پہلے انہیں انور سادات کا انجام بھی ذہن نشین رکھنا ہوگا۔ سعودی عرب
فلسطینی علاقوں سے یہودیوں کے انخلا کا مطالبہ منوانا چاہتا ہے نہ اُسے
امریکا سے امداد درکار ہے۔
انور سادات نے چار عشروں پہلے کیمپ ڈیوڈ میں اسرائیل سے امن معاہدہ کیا۔ اس
سے سفارتی تعلقات قائم کیے۔ انہوں نے مصر کے علاقے سینائی کا قبضہ واپس
لینے اور امریکا سے اربوں ڈالر کی امداد کی شرط رکھی۔ انور سادات نے
اسرائیل سے معاہدے میں دیگر تمام مقبوضہ عرب علاقوں کا معاملہ یکسر
نظرانداز کیا۔ اس کا نتیجہ کیا برآمد ہوا؟ انور سادات دو سال بعد قتل
کردیے گئے۔ جوکچھ انہوں نے کیا تھا وہ عوام کی توقعات کے خلاف تھا۔
انور سادات کے جانشین حسنی مبارک نے تین عشروں تک مصر پر حکومت کی۔ اس
دوران انہوں نے اسرائیل سے کیے ہوئے معاہدے پرعمل جاری رکھا۔ سینائی کا
علاقہ مصر کو لوٹا دیا گیا۔ امریکا سے جی بھر کے امداد بھی ملتی رہی۔ مگر
مصریوں کو کیا ملا؟ ملک جدید دور کے تقاضوں سے ہم آہنگ ہوا نہ معاشرے میں
کھلے پن کا ماحول ہی پیدا ہوسکا۔ ذرائع ابلاغ پر پابندیاں عائد رہیں۔ مصر
کے عوام کے معیارِ زندگی میں ایسی کوئی تبدیلی رونما نہ ہوئی جس کی بنیاد
پر کہا جاسکے کہ اسرائیل سے معاہدہ کوئی فائدے کی چیز تھا۔ مصری معاشرے میں
اسرائیل کیلئےشدید نفرت کے جذبات ہمیشہ موجود رہے۔ فلسطین کے کاز کو بھی
مصریوں نے کبھی نظر انداز نہیں کیا۔
مصر سے امن معاہدے کا سب سے زیادہ اور بھرپور فائدہ اسرائیل کو پہنچا۔
جنوبی سرحدوں کے محفوظ ہوجانے پر اسرائیل نے فلسطینیوں کو کچلنے کا عمل تیز
کردیا۔ زیادہ سے زیادہ فلسطینی اراضی پر یہودی بستیوں کی تعمیر یقینی بنائی
گئی۔ مسلم دنیا کی ناراضی کی پروا نہ کرتے ہوئے اسرائیلی قیادت نے
فلسطینیوں کو کچلنے کا سلسلہ جاری رکھا۔
اسرائیل کی قیادت نے آج تک وہی کچھ کیا، جو اس نے چاہا ہے۔ اس نے کبھی
اسلامی ممالک کے ردعمل کی پروا نہیں کی۔ ۱۹۸۱ء میں گولان کی مقبوضہ پہاڑیوں
کو اسرائیلی قیادت نے ملک کا باضابطہ حصہ بنالیا۔ ۱۹۸۲ء میں لبنان کے
فلسطینی کیمپوں پر حملے کیے، جن میں بہت بڑے پیمانے پر شہادتیں ہوئیں۔ عراق
کے جوہری ری ایکٹر کو تباہ کیا۔ جنوبی لبنان سے مزاحمتی تحریک کا خاتمہ
کرنے کے بعد اسرائیل نے وہاں اٹھارہ سال تک قبضہ برقرار رکھا۔ جب اسرائیل
نے مشرق وسطیٰ میں من مانی کا سلسلہ دراز کیا تو امریکا نے اسے علاقائی
اتحادی سے ترقی دے کر گلوبل اسٹریٹجک پارٹنر بنالیا۔چالیس سال قبل حماس تھی
نہ حزب اللہ۔ القاعدہ تھی نہ داعش۔ جس طور افغانستان پر سابق سویت یونین کی
لشکر کشی نے اسلامی شدت پسند پیدا کیے بالکل اُسی طور اسرائیلی پالیسی کے
بطن سے فلسطینی مجاہد تنظیمیں بھی پیدا ہوئیں۔
عرب دنیا کے حکمران جس طور معاملات کو معمول پر لانا چاہتے ہیں، وہ غلط ہے۔
معاملات کو معمول پر لانے کے معاملے میں دکھائی جانے والی کمزوری امن کے
معاملے میں دکھائی جانے والی قوت کے برعکس ہے۔ فلسطینی کاز کو یکسر نظر
انداز کردیا گیا ہے۔ ایسے میں کسی بھی معاملے کو ہمیشہ کیلئےپرسکون اور
نارمل بنانے کا خواب کیوں کر شرمندۂ تعبیر کیا جاسکتا ہے؟ فلسطین کا
معاملہ اہلِ عرب کے دلوں میں ہمیشہ زندہ رہا ہے کیونکہ یہ جغرافیے یا نسل
سے زیادہ ضمیر کا معاملہ ہے۔ فلسطینی کاز کے حوالے سے دکھائی جانے والی
جذباتی وابستگی اس بات کی مظہر ہے کہ ضمیر ابھی زندہ ہے۔ اس کاز کو
نظرانداز کرکے مشرق وسطیٰ میں حقیقی امن یقینی نہیں بنایا جاسکتا۔
حال ہی میں قاہرہ میں جن طاقتوں نے سلامتی کے معاملات پر تبادلہ خیال کیا،
وہ دراصل وہی ہیں جنہوں نے اسرائیل سے انٹیلی جنس شیئرنگ تک کی ہے۔ ان کی
نااہلی نے امریکا، اسرائیل اور ایران کو پورے خطے میں بے لگام ہوکر کچھ بھی
کر گزرنے کا بھرپور موقع فراہم کیا ہے۔جب یہ پورا معاملہ ٹھنڈا پڑ جائے گا
اور شور و شغف کی گرد بیٹھے گی تب مؤرخ یہ بات درج کرے گا کہ عرب دنیا نے
فلسطین کی قیمت پر اسرائیل سے تعلقات معمول پر لانے کیلئےجو کچھ کیا وہ محض
خسارے کا سودا تھا۔
|