نہ سوال وصل، نہ عرض غم، نہ حکائیتیں، نہ شکائیتیں

بہت سے دوستوں کو حیرانگی ہے کہ وکی لیکس نے فاش کئے جانے والے راز اور دستاویزات آخر حاصل کیسے کیے؟ سوال اگرچہ اپنی جگہ خاصا وزن دار ہے لیکن آئی ٹی کی دنیا سے ذرا بھی واقفیت رکھنے خصوصاً انٹرنیٹ پر مغز ماری کرنے والوں کیلئے ”ہیکنگ“ کوئی نئی اور اجنبی ٹرم نہیں ، وکی لیکس نے بھی اسی ہیکنگ کے ہی ذریعے دنیا بھر میں قائم امریکی سفارتخانوں کی جانب سے انکل سام کو بھجوائے جانے والے مراسلوں کو ڈاﺅن لوڈ کر لیا۔ اب بھی اگر کسی کو سمجھ نہیں آئی تو صرف اتنا ذہن میں رکھ لیں کہ جس طرح ہر ای میل ایڈریس کے ”پاس ورڈز“ سائٹ انتظامیہ کی دسترس سے دور نہیں ہوتے اسی طرح انٹر نیٹ کی دنیا میں پھیلے برقی سگنلز ہیکروں کی پہنچ میں ہوتے ہیں اور وہ کسی بھی وقت ان کو ڈی کوڈ کر کے اپنے مقاصد کیلئے استعمال کر سکتے ہیں ۔ یہ اقدام قانونی ہے یا غیر قانونی یہ البتہ الگ بحث ہے لیکن امریکی دستاویزات کی چوری اور وکی لیکس انتظامیہ کی جانب سے مچائے گئے تہلکے کے پس منظر میں صرف ہیکنگ ہی کار فرما نہیں بلکہ خود امریکی انتظامیہ دنیا بھر میں اپنے اور اتحادیوں کے جاری معرکوں میں واضح شکست دیکھ کر اپنے ہی اتحادیوں کو بدنام کر کے ایک نئی افراتفری میں دھکیلنے پر عمل پیرا ہو چکا ہے اور وکی لیکس انکشافات بھی اسی سلسلہ ہی کی ایک کڑی ہیں۔

بات بہت آسان اور عام فہم ہے کہ جب آگ اپنے گھر کو لپیٹ میں لیتی ہے تو اس کے لگانے اور اس پر تیل ڈالنے والے تما م احتیاطی تدابیر نظر انداز کر کے اپنے بچاﺅ میں لگ جاتے ہیں۔ امریکہ کا معاملہ بھی کچھ ایسا ہی ہے ، ذرا سا غور کریں تو ان سارے انکشافات میں صرف انہی ممالک کے راز فاش کئے گئے ہیں جو کسی نہ کسی طرح امریکی مفاد کیخلاف کام کر رہے ہیں یا پھر جن سے کسی بھی حد تک واشنگٹن کو کسی ہینکی پھینکی کا خدشہ ہے ۔ اگر ایسا نہ ہوتا تو اسرائیل سے لیکر دیگر امریکی پٹھوﺅں کی دستاویزات بھی عالمی میڈیا کو پہنچائی جاتیں لیکن ایسا نہیں ہوا اور صرف چین سے لیکر پاکستان اور خود اپنی ہی بے مقصد یا بڑی حد تک بیکار ہوئی دستاویزات کو دنیا انتہائی منظم سازش کے ذریعے دنیا کے سامنے لایا گیا ہے اور اس مقصد کیلئے وکی لیکس کو محض قربانی کا بکرا بنایا جا رہا ہے۔اگرچہ پاکستان جیسے اہم اتحادی کو اس سارے بکھیڑے میں دھکیلا گیا ہے وہیں بھارت کے بارے میں بھی کچھ باتیں منظر عام پر لائی گئی ہیں لیکن صرف اس حد تک کہ ”بیلنس“ برقرار رہے اور کسی کو انگلی اٹھانے کا موقع نہ مل سکے، اگر ایسا نہ ہوتا تو بھارت کے وہ کرتوت بھی سامنے آتے جو گزشتہ باسٹھ تریسٹھ برسوں میں خود امریکی تعاون یا آشیر باد ہی سے خطے میں عدم استحکام خصوصاً پاکستان کی سالمیت کیخلاف انجام دیئے گئے ہیں۔

پنجابی کہاوت گونگلوﺅں سے مٹی جھاڑنے کے مترادف امریکہ نے وکی لیکس سربراہ جولیان آسانچے کو انتہائی مطلوب افراد کی فہرست میں شامل کرنے کے ساتھ ساتھ اس کے انٹر پول ریڈ نوٹس بھی جاری کروا دیئے ہیں جبکہ ساتھ ہی ساتھ ہیلری کلنٹن نے پاکستانی صدر کو فون کر کے نہ صرف ان انکشافات کو غیر قانونی ہونے کی سند عطا کر دی ہے بلکہ ساتھ ہی ساتھ پاکستانی حکومت اور اداروں کو ہونے والی شرمندگی پر اظہار افسوس بھی کیا ہے جو کہ اپنے ہی سٹیج کئے گئے ڈرامے کا دوسرا پہلو ہے ۔اگرچہ جولیان آسانچے کو انتہائی مطلوب قرار دیدیا گیا ہے لیکن اس کی گرفتاری اتنی ہی ناممکن ہے جتنا کہ پاکستان کا نام نہاد دہشتگردی کی جنگ سے جان چھڑوانا۔ وجہ یہ نہیں کہ امریکہ کے پاس وکی لیکس سربراہ کو پکڑنے کے لئے وسائل نہیں بلکہ سبب یہ ہے کہ واشنگٹن اس کو بالکل ویسے ہی گرفتار نہیں کرنا چاہتا جس طرح آج تک اسامہ بن لادن کو حراست میں نہیں لے سکا، اگر ایسا نہ ہوتا تو گینگ ریپ کے متعدد مقدمات اور بعض اطلاعات کے مطابق دنیا کے ایک سو اٹھارہ ممالک کو مطلوب آسانچے کو انٹر نیٹ پر تہلکہ مچانے ہی کیوں دیا جاتا؟

جو لوگ نیٹ کی سمجھ بوجھ رکھتے ہیں وہ بخوبی جانتے ہیں کہ انفارمیشن ٹیکنالوجی کے اس انقلابی پلیٹ فارم پر جگہ حاصل کرنے کے لئے بھی خطیر رقم ضروری ہوتی ہے ، ایک عام ادارے یا تنظیم کو اپنی تشہیر کے لئے الیکٹرانک اور پرنٹ میڈیا پر اشتہارات کے برعکس نیٹ تک رسائی کیلئے کئی گنا زیادہ خرچ کرنا پڑتا ہے ، پھر بھی مخصوص بائیٹس ہی ملتے ہیں جن پر بمشکل دو اخبارات کا ڈیٹا سما سکتا ہے ۔ وکی لیکس نے جو دستاویزات جاری کی ہیں وہ ہزاروں میں نہیں بلکہ لاکھوں کی تعداد میں ہیں جبکہ ابھی سائٹ انتظامیہ کے بقول ان کے پاس ایسی ہی دستاویزات کا ڈھیر لگا ہوا ہے جو تمام تر تنقید کے باوجود بتدریج جاری کی جارہی ہیں۔ اس نکتے کو سامنے رکھ کر دیکھیں تو سب سے پہلے یہی سمجھ میں آتا ہے کہ اتنی بڑی سائٹ قائم کرنے کے لیے جو سرمایہ درکار ہے وہ ایک عام شہری کے بس میں نہیں اور کوئی بھی کسی منظم ادارے یا حکومت کی سرپرستی کے بغیر ایسا کوئی اقدام نہیں کر سکتا۔ باالفرض اگر امریکی موقف کو درست مان بھی لیا جائے تو ایک ایسا ملک جہاں قانون ہر چھوٹی بڑی حرکت پر حرکت میں آجاتا ہو پہلے ایک مجرم کیخلاف سویا کیوں رہا اور پھر غیر قانونی سرمائے اور پھر انتہائی حساس نوعیت کی معلومات تک دسترس اور پھر ان کو عالمی میڈیا تک پہنچانے پر خاموشی کیوں رہی ؟جب کہ یہ کہنا کہ کمپیوٹر سسٹم خراب ہونے کے سبب معلومات چرائی گئیں اور اب خرابی درست کر دی گئی ہے بھی سمجھ سے بالا ہے کہ انتہائی سکیورٹی والے سرورز تک ایک معمولی سائیٹ انتظامیہ کی دسترس آخر کیونکر ہوگئی؟

ہیلری کلنٹن نے امریکی حکومت کی جانب سے پاکستانی انتظامیہ کو ہونے والی شرمندگی پر بھی اظہار افسوس کیا ہے جس کو ہم تو ”دائیاں دکھا کر بائیاں مارنے“ کے مترادف ہی قرار دینگے کہ خود اپنے ہی جال میں پھانس کر شکار کو تسلیاں دینا یہی نتائج سامنے لاتا ہے، رہ گئی بات پاکستانی حکومت کی شرمندگی کی تو جس چیز کا وجود ہی نہ ہو اس کے ہونے یا نہ ہونے پر افسوس کرنا یا نہ کرنا ایک برابر ہو تا ہے۔ ہیلری کلنٹن کو شاید معلوم نہیں کہ پاکستانی حکومت لفظ”شرمندگی“ سے بالکل نابلد ہے اگر ایسا نہ ہوتا تو بھلا خودی کو بیچنے ، غلامی کو اختیار کرنے اور اپنے مفادات کیلئے امریکی سفیر یا اکابرین سے ملکی اور قومی راز کہنے اور پاکستان کی سلامتی کی قیمت پر امداد حاصل کرنے کی سامنے آنے والی درخواستیں کی ہی کیوں جاتیں؟ہمارے حکمران اگر شرمندگی سے واقف ہوتے تو آج نوبت غیر ملکی آقاﺅں کے ہاتھوں غیرت داﺅ پر لگانے تک نہ پہنچتی، اگر ہمارا بر سر اقتدار طبقہ واقعی شرمندہ ہوتا تو کسی کو ہمارے لیڈروں کو بد اعتماد اور وعدہ خلاف کہنے کی جرات نہ ہوتی اور اگر واقعی اس لفظ شرمندگی کی ہمارے حکمرانوں اور سیاسی لیڈروں کے نزدیک کوئی وقعت ہوتی تو بات عالمی سیاست میں یوں رسوائی تک پہنچنے سے قبل ہی سنبھال لی جاتی۔امریکہ کو فکر یا افسوس کرنے کی قطعاً ضرورت نہیں کہ جو بھی ہوا اس میں خود اس کا ہاتھ ہونے کے ساتھ ساتھ ہم بھی برابر کے شریک ہیں اور وہ بھی اس حد تک کہ صورتحال ”نہ سوال وصل، نہ عرض غم، نہ حکائیتیں ، نہ شکائیتیں۔ تیرے عہد میں دل زار کے سبھی اختیار چلے گئے“کی سی نہ ہوتی۔
RiazJaved
About the Author: RiazJaved Read More Articles by RiazJaved: 69 Articles with 54236 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.