دابستان اقبالؒ ِ لاہو کے پلیٹ فورم سے موجودہ دور میں
فکرِاقبال کی معنویت کو زیادہ سے زیادہ فروغ دینے کے لئے معروف اساتذہ
اقبالیات کی تعلیم ،فروغ اور تشہیر کیلئے طلبا کے ساتھ عصری تقاضوں کیمطابق
گفتگو کا سلسلہ باہم عروج پر ہے جسکا بنیادی مقصد ہے کہ نسل نو میں انکی
قابلیت اور صلاحیتوں کو بروئے کار لا یا جاسکتے اور اُن میں ملک و قوم کی
خدمت کا نئا جوش و جذ پیدا کیا جا سکے۔تو امارات سے تشریف لائے معروف سکالر
بریگیڈیر(ر) وحیدالزمان طارق کا سیر حاصل لیکچر بعنوان ’’اقبال و ملوکیت‘‘
کا اہتمام بھی اِسی شاندار سلسلے کی ایک کڑی تھا، تقریب میں جسٹس ناصرہ
جاوید اقبال، میاں اقبال صلاح الدین،کرنل(ر) مقصودمظہر،تیمور افضل خان،مسز
وحیدالزمان،ڈاکٹر کلیم عرفانی، مسز تنویر بٹ، تنزیلہ فاطمہ، علی حسن، نواب
برکات ،مستنصر رضوی، مسعود اقبال(مسٹر پاکستان)،محمد عمر رانا، ڈاکٹر عطیہ
سید اور، رانا امیر احمد خان سمیت اہل علم حضرات نے بڑی تعداد میں شرکت کی۔
بریگیڈیر(ر) وحیدالزمان طارق نے اپنے خطبے میں کہا کہ ملوکیت موروثی
بادشاہات کی صورت ہے جس میں مختلف یعنی جاگیردار، سرمایہ دار، مذہبی رہنما،
پیر اور طاقتور طبقات ایک شخص کو اقتدار کے تخت پر بٹھا کر اسے زمین پر خدا
کا عکس قرار دیتے ہیں اور اس کی اندھی اطاعت پر عوام کومائل کرتے ہیں۔ یہ
دراصل فرعون کے نظام کا تسلسل ہے ۔۔یہ ابلیسی نظام انسان سے سوچ اور عمل
چھین کر اسے غلام کی زنجیروں میں جکڑ دیتا ہے۔ اسلام نے اسی نظام کو تہہ و
بالا کرکے انسانیت کو عظمت اور فکری آزادی سے روشناس کراویا تھا۔ بقول
علامہ اقبالؒ
موت کا پیغام ہر نوع غلام کے لئے
نے کوئی فخفور و خاقاں نے فقیر رہ نشیں
اس سے بڑھ کے اور کیا فکر ء نظر کا انقلاب
بادشاہوں کی نہیں، اﷲ کی ہے یہ زمین
(ابلیس کی مجلس شوریٰ، ارمغان حجاز)
بدقسمتی سے مسلمان بہت جلد فکری و عملی آزادیوں کو خیرباد کہہ کر خود
بادشاہت کی طرف مائل ہو گئے اور پرانی فرسودہ روایات کو از سر نو زندہ کرکے
اسی نظام کے محافظ بن گئے۔ بقول اقبال
خود طلسم قیصر و کسریٰ شکست
خود سر تخت ملوکیت نشست
(جاوید نامہ)
ترجمہ: خود جس قوم نے قیصر و کسریٰ کا طلسم توڑا تھا اسی کے افراد ملوکیت
کے تخت پر متمکن ہو گئے۔
قرآن پاک میں ملوکیت کو فساد اور معاشرتی تباہی کا باعث قرار دیا ہے۔ سورہ
نمل کی آیات نمبر34میں ارشاد ہوتا ہے ’’کہ جب سلوک (بادشاہ) کسی بستی میں
داخل ہوتے ہیں تو اس میں فساد برپا کردیتے ہیں۔ وہاں کے سب سے معزز افراد
کو ذلیل و خوار کر دیتے ہیں اور اسی طرح کے اور بھی کام کرتے ہیں‘‘
علامہ اقبال نے اسی آیات کی طرف اشارہ کرکے قوم کو خبردار کیا ہے کہ تباہی
اور بربادی سے بچنے کا ایک ہی طریقہ ہے کہ اس نظام کو سراسر خدا کے شرک کا
مظہر ہے ختم کر دیا جائے کیونکہ یہ استحصالی طبقات کے مفادات کا محافظ ہے
اس لئے انسان کو ان سے تصادم پر مجبور ہونا پڑتا ہے۔ آنحضورؐ کے دین میں اس
کی کوئی گنجائش نہیں اور جب تک یہ نظام قائم رہے گا انسان اپنی ذہنی ارتقاء
، اخلاقی سربلندی اور کردار کی عظمت سے محروم رہے گا۔ علامہ اقبال ارمغانِ
حجاز میں فرماتے ہیں:
ہنوز اندر جہان آدم غلام است
نظامش خام و کاوش نا تمام است
غلام فقر آن گیتی ہناھم
کہ دردنشیں ملوکیت حرام است
ترجمہ: ابھی تک انسان اس جہان میں غلامی کی زنجیروں میں جکڑا ہوا ہے۔ اس کا
سیاسی اور آئینی نظام بے کار ہے اور اس کا کام نامکمل ہے۔ میں رسول پاکؐ جن
کی آغوش تمام جہاں نے پناہ لے رکھی ہے، کے فقر کا غلام ہوں کیونکہ آپؐ کے
دین میں ملوکیت حرام ہے‘‘۔
آج بھی انسان ملوکیت کی نئی نئی چالوں اور صورتوں سے دوچار ہے۔ ابلیس کی
زبان سے علامہ فرماتے ہیں:
ہم نے خود شاہی کو پہنایا ہے جمہوری لباس
جب ذرا آدم ہوا ہے خود شناس و خود نگر
بہ مجلس ملت، اصلاحی تحریکیں، حقوق اور آزادیوں کی باتیں محض زبانی حد تک
میں اندر سے یہ نظام استحصال اور استبداد پر مبنی ہے۔ علامہ اقبال ان تمام
طبقات کے خلاف نبردآزما تھے جنہوں نے انگریز کے اقتدار، موروثی حکمرانوں
اور استبدادی طاقتوں کا ساتھ دیا ہے اور انسان سے اس کا ضمیر اور مال چھین
کر اسے نان جویں کا محتاج کر دیا ہےّ بنکاری بھی اسی نظام کا آلہء کار ہے
اور علامہ اقبال فرماتے ہیں۔
تانہ و بالا نہ گردد این نظام
دانش و تہذیب و دیں سودائے عام
ترجمہ: جب تک یہ نظام تہ و بالا نہیں ہو جاتا، آپ کا علم، دانش، تہذیب اور
حتیٰ کہ دین بھی یاد گل بن کے مظہر بن کے رہ جاتے ہیں۔
دوران خطبہ حال کا منظر قابل دید تھا جو اہل علم خواتین و حضرات سے کچھا
کچھ بھرا ہوا تھا ۔شرکاء کی خطبے میں دلچسپی بھی قابل تعریف تھی۔ حسب سابق
دابستان اقبال آج بھی اپنے بنیادی ہدف میں کامیاب نظر آیا کہ ہر پہلو میں
اقبال سے ایک مفصل رہنمائی لینے کا عمل جاری رکھا جائے اور اس عمل کو
سوسائٹی کے بااثر افراد اور طبقات تک پھیلانے کی کوشش بھی ہو۔ |