اپوزیشن کے دِل میں ساڑھے تین سال بعداچانک سانحہ ماڈل
ٹاؤن کے شہیدوں کا درد ایساجاگا کہ اُسے بے حال کر گیا اور وہ حکومت کا
’’مَکّو ٹھپنے‘‘ نکل کھڑی ہوئی۔ نعرہ سب کا خادمِ اعلیٰ اور رانا ثناء اﷲ
کا استعفیٰ تھا۔ حالانکہ سانحہ ماڈل ٹاؤن کا کیس ہائیکورٹ میں مولانا
طاہرالقادری کی مدعیت میں چل رہا ہے لیکن شاید اپوزیشن کو جلدی ہی بہت ہے ۔اُدھر
رانا ثناء اﷲ بھی چھوٹے موٹے خادمِ اعلیٰ ہی ہیں البتہ فرق یہ کہ وہ چونکہ
فیصل آبادی ہیں اِس لیے جُگت بازی کے ماہر کھلاڑی بھی ہیں۔ اُن کی انہی
جُگتوں نے اپوزیشن کو بدحال کر رکھا ہے۔ شاید اِسی لیے اپوزیشن کا نعرہ تھا
’’مارو یا مَر جاؤ ،رانا ثناء اﷲ کا استعفیٰ لاؤ‘‘۔ آدھر پیر حمید الدین
سیالوی بھی ’’لَٹھ‘‘ لے کر رانا صاحب کے پیچھے دَوڑ رہے ہیں لیکن رانا صاحب
بھی ایسی ڈھیٹ مٹی کے بنے ہوئے کہ مجال ہے جو استعفے کو قریب بھی پھٹکنے
دیں۔ یہی وجہ ہے کہ ساری اپوزیشن نے مِل کر ہلّہ بولا اور ہم نے دیکھا کہ
لاہور میں چیئرنگ کراس پر سجی سٹیج پر تِل دھرنے کو جگہ نہ تھی۔ حالت یہ
تھی کہ جب علامہ طاہر القادری سٹیج پر تشریف لائے تو بیٹھنے کے لیے جگہ
ندارد۔ ہمارے ننھّے مُنّے سردار لطیف کھوسہ مولانا صاحب کی بغل میں ایسے
’’اَڑ پھَس‘‘ کر بیٹھے تھے جیسے اُن کے ’’بَغل بچے‘‘ ہوں۔ یہ تو سٹیج کی
حالت تھی لیکن سامنے قطار اندر قطار لگی خالی کرسیاں سٹیج پر بیٹھے
رَہنماؤں کا مُنہ چڑا رہی تھیں۔ لاہوریوں کا دور دور سے آئے ہوئے مہمانوں
کا ایسا استقبال ہمیں اچھّا نہیں لگا۔ آخر کچھ شرم ہوتی ہے ، حیا ہوتی ہے ،
کیا مہمانوں کے ساتھ ایسا سلوک کیا جاتا ہے؟۔
اِس شوکے بارے میں تقریباََ تمام میڈیا (جس میں غالب اکثریت نواز مخالف ہے)
کا متفقہ فیصلہ تھا کہ یہ ایک ’’فلاپ شو‘‘ تھا جو نوازلیگ کو مزید مضبوط کر
گیا۔ ظاہر ہے کہ جب پیروں فقیروں اور تعویذگَنڈوں کے زور پر ایسے ’’شو‘‘
کیے جائیں گے تو وہ فلاپ ہی ہوں گے۔ وہ لوگ اکٹھے تو ’’سلطنتِ شریفیہ‘‘ کا
خاتمہ کرنے کے لیے ہوئے تھے لیکن اپنی ہی بھَد اُڑا بیٹھے۔ لال حویلی والے
نے ’’لعنتی پارلیمنٹ‘‘ سے استعفے کا اعلان ہی کر دیا اور لعنت ،لعنت کی
گردان کرتے لوٹ گئے۔ عمران خاں نے بھی یہ کہہ کر جان چھڑائی کہ وہ لعنتی
پارلیمنٹ سے استعفوں کا آپشن اپنی کورکمیٹی کے سامنے رکھیں گے۔ ہمیں یقین
ہے کہ اگر تحریکِ انصاف نے استعفے دے بھی دیئے تو شیخ رشید پھر بھی استعفیٰ
نہیں دیں گے کیونکہ اُن کی روزی روٹی کا سوال ہے اور اُن کا چولہا پارلیمنٹ
سے ملنے والی تنخواہ پر جلتا ہے۔ اب بھی جب اُن سے استعفے کے بارے میں
پوچھا گیا تو فرمانے لگے’’فَنڈ ریزنگ کے سلسلے میں دبئی جا رہا ہوں ،واپس
آکر بات کروں گا‘‘۔ ہم تو اِنہی کالموں میں متعدد بار یہ لکھ چکے کہ شیخ
رشید اگر اپنی حویلی کے سامنے پھَٹہ لگا کر طوطا فال جیسا منافع بخش
کاروبار شروع کر دیں تو کاروبار چمکنے کی گارنٹی ہم دیتے ہیں کیونکہ فال
نکالنے میں اُن کا کوئی ثانی نہیں لیکن شیخ صاحب اِس کی طرف کوئی توجہ ہی
نہیں دیتے۔ وہ تو ہمیشہ کسی سجی سجائی سٹیج کو تاڑتے رہتے ہیں جہاں اُنہیں
بڑھکیں مارنے کا موقع مِل سکے۔
مولانا طاہرالقادری نے اپوزیشن کو اکٹھا کرنے کے لیے چال تو بہت اچھی چلی
تھی لیکن وہ اِس میں کامیاب نہ ہوسکے۔ ظاہر ہے کہ جن کے خیالات میں
بُعدالمشرقین ہو اور جو ایک دوسرے پر الزامات کی بارش کر رہے ہوں ،وہ بھلا
کیسے اکٹھے بیٹھ سکتے ہیں۔ اِس کی مثال تو یوں دی جا سکتی ہے کہ
کہیں کی اینٹ ، کہیں کا روڑا
بھان متی نے کنبہ جوڑا
اِسی لیے ہم نے دیکھا کہ احتجاجی جلسے میں ’’آنیاں ،جانیاں‘‘ لگی رہیں۔
پہلے آصف زرداری تشریف لائے اور عمران خاں جہانگیر ترین کے گھر بیٹھ کر اِس
انتظار میں رہے کہ کب زرداری صاحب جلسہ گاہ سے جائیں اور وہ اپنی باری دینے
آئیں۔ زرداری صاحب مختصر تقریر کے بعد یہ جا ،وہ جا اور کپتان حاضر۔ حقیقت
یہ ہے کہ دونوں بڑی جماعتوں کے سربراہان اِسی غلط فہمی میں مارے گئے کہ
احتجاجی جلسہ چونکہ مولانا طاہرالقادری کا ہے اِس لیے عوام کا جَمِ غفیر
ہوگاجہاں اُنہیں بھی مولانا کا کندھا استعمال کرنے کا موقع مِل جائے گا اور
وہ بھی لہو لگا کر شہیدوں میں شامل ہو جائیں گے۔ ہوا یہ کہ لاہوریوں نے
مولانا کو بھی مسترد کر دیااور جلسہ گاہ میں لوگوں کی اتنی تعداد بھی نہ
تھی جتنی ہر روز مال روڈ پر چلتی پھرتی نظر آتی ہے۔ شاید اِسی لیے مولانا
نے اپنے اگلے لائحہ عمل کا اعلان مؤخر کردیا۔ ہمیں یقین کہ یہ اعلان مؤخر
ہی رہے گا اور مولانا اپنے دیس سدھار جائیں گے بشرطیکہ نون لیگ نے اُنہیں
جانے دیا۔ اِس دفعہ شرارتی نوازلیگ اُن کا نام ای سی ایل میں ڈالنے جا رہی
ہے۔ وزیرِاعظم شاہدخاقان عباسی نے ایک انٹرویو میں کہا کہ دیکھنا ہو گا کہ
کسی غیرملکی کو پاکستان میں آکر جلسے جلوس کرنے کی کہاں تک اجازت ہے۔ اگر
مولانا کا نام ای سی ایل میں ڈال دیا گیا تو ’’سلطنتِ طاہریہ‘‘ کا تو بیڑہ
ہی غرق ہو جائے گا۔ ویسے بھی مولانا صاحب کو دہشت گردی کورٹ مفرور قرار دے
چکی ہے۔ عمران خاں نے تو دہشت گردی کورٹ کے سامنے پیش ہو کر اپنی ضمانت
کروا لی لیکن مفرور مولانا صاحب پتہ نہیں کِس زعم میں ہیں جو تاحال کورٹ کے
سامنے پیش نہیں ہوئے۔
مولانا نے ننّھے مُنے احتجاجی جلسے میں اپنے خطاب کے دوران خوب بڑھکیں
لگائیں۔ اُنہوں نے کہا ’’آئین نہیں ،سلطنتِ شریفیہ توڑنا چاہتے ہیں۔ ابھی
احتجاج کی ابتدا ہے ،اِسے انتہا تک لے جائیں گے۔ کارکنوں سے کہہ دوں تو
تمہیں نوچ ڈالیں ۔ تم جاتی امرا کے باہر قدم نہ رکھ سکو‘‘۔ عرض ہے کہ کرائے
پر لائے گئے لوگوں کے زور پر کبھی انقلاب نہیں آیا کرتے۔ یہ مولانا کی خوش
نصیبی ہے کہ اُنہوں نے جاتی اُمرا جانے کا قصد نہیں کیا۔ اگر وہ یہ حماقت
کر بیٹھتے تو ایسی ’’گِدڑ کُٹ‘‘ پڑتی کہ نانی یاد آجاتی۔ حکومت اُن کا نام
ای سی ایل میں ڈالنے جا رہی ہے اِس لیے اب وہ لاہور ہی میں ہوں گے، اپنا یہ
شوق بھی پورا کرکے دیکھ لیں لیکن ہمیں یقین ہے کہ کم از کم پیپلز پارٹی تو
اِس حماقت میں اُن کا ساتھ نہیں دے گی۔ کپتان صاحب کا مشورہ بڑا ’’صائب‘‘ ۔
اُنہوں نے ’’احتجاجی جَلسی‘‘ سے خطاب کرتے ہوئے مولانا سے کہا کہ اگر سڑکوں
پہ نکلنے کا کوئی پروگرام ہو تو اُن سے مشورہ کر لیں کیونکہ ساڑھے چار سال
تک سڑکوں پر دھکے کھاتے ہوئے اُنہیں اِس کا بہت تجربہ ہو چکا ہے۔ آصف
زرداری نے کہا کہ وہ جب چاہیں حکومت کو گھر بھیج سکتے ہیں ۔۔۔۔۔۔ بسم اﷲ
جلدی کریں ،قوم انتظار میں ہے ۔ سوال مگر یہ ہے کہ اُن کی جماعت تو سُکڑ
سمٹ کر دیہی سندھ تک محدود ہو کے رہ گئی ہے۔ وہ بھلا دوتہائی اکثریت کی
مالک نوازلیگ کو کیسے گھر بھیجے گی۔
اِس جلسی میں پارلیمنٹ پر لعنت کا بہت شور اُٹھاجس کا جواب پارلیمنٹ نے بھی
خوب دیا اور عمران خاں پر لعن طعن کی۔ سیّد خورشید شاہ نے کہا کہ پارلیمنٹ
پر لعنت بھیجنے والے کے مُنہ میں خاک۔ یہ بازاری، بے شرم، جِس تھالی میں
کھاتے ہیں اُسی میں چھید کرتے ہیں۔ پارلیمنٹ کو بُرا سمجھنے والے کو سیاست
کا کوئی حق نہیں۔ خواجہ آصف نے مطالبہ کیا کہ اِن لوگوں کو گرفتار کرکے
استحقاق کمیٹی کے سامنے پیش کیا جائے۔ ضمیر، غیرت اور شرم وحیا نام کی اِن
میں کوئی چیز نہیں۔ اِنہوں نے پہلے پارلیمنٹ سے اِستعفے دیئے ،پھر گھُٹنوں
کے بَل رینگتے ہوئے واپس ایوان میں آئے۔ پارلیمنٹ نے عمران خاں کے اِن
الفاظ کے خلاف متفقہ مذمتی قرارداد منظور کی لیکن کپتان کی ضِد کا یہ عالم
کہ اُنہوں نے کہا ’’ پارلیمنٹ کے لیے لعنت سے زیادہ سخت الفاظ استعمال کرنا
چاہتا تھا‘‘۔ کپتان سے قوم مطالبہ کرتی ہے کہ وہ کم از کم وصول کیے جانے
والے وہ 25 لاکھ تو واپس کر دیں جو اُنہوں نے ساڑھے چار سال میں اِس
’’لعنتی پارلیمنٹ‘‘ سے وصول کیے۔ |