دُنیا تاریخ بنانے والوں اور تاریخ لکھنے والوں سے بھری
پڑی ہے تاہم دیکھنا یہ ہے کہ تاریخ بنانے والوں نے تو اپنی تاریخ رقم کردی،
چاہے وہ مثبت تھی یا منفی مگر مؤرخین نے ان کے ساتھ کس حد تک انصاف کیا،
یہاں پر بھی مثبت اور منفی دونوں پہلو نہایت اہمیت کے حامل ہیں۔ مسلم
مارخین (تاریخ بنانے والے) نے ایسے ایسے کارہائے نمایاں انجام دیئے کہ پوری
دُنیا کی تاریخ بدل کر رکھ دی مگر مخالفین، حاسدین، پست اذہان اور طمع وحرص
کے مارے مؤرخین (تاریخ لکھنے والوں) نے ان عظیم کرداروں کو نہایت منفی رنگ
دیتے ہوئے نہ صرف بے شرمی بلکہ انتہائی بے حیائی کا مظاہرہ کرتے ہوئے پوری
تاریخ کو بھی مسخ کر کے رکھ دیا۔ ایسا ہی کچھ معاملہ صدی کے اس عظیم رہنما
اور مارخ محمد علی جناحؒ کے ساتھ بھی ہے جنہوں نے بلاشک وشبہ اپنے انتہائی
طاقتور مدمقابل کے برخلاف ایک ایسی تاریخ رقم کی جو تواریخ کے ابواب میں
اپنی مثال آپ ہے مگر آپ کی ذاتِ گرامی اور فولادی کردار پر یہودوہنود کے
پیروکار مؤرخین جس فکر اور طرز پر انگشتِ بدنداں ہیں، وہ بھی اس منفی تاریخ
کا ایک حصہ ہے۔ فارسی کی ایک مشہور کہاوت ہے کہ ’’چاند نور برساتا ہے، کتے
بھونکتے ہیں مگر مسافر اپنا سفر طے کرتے اپنی منزل تک پہنچ جاتے ہیں‘‘۔
ایسا ہی کچھ معاملہ دورِحاضر کے امام شموئیل اور عالمِ اسلام کے بطلِ جلیل
حافظ محمد سعید کا ہے جنہیں یہود ونصاریٰ اور یہودوہنود اپنا بدترین دُشمن
اور دہشت گرد قرار دیتے ہیں۔ ایک مدت سے عالمی دہشت گرد امریکہ حافظ محمد
سعید کے درپے ہے اور حافظ محمد سعید وہ ہے جو امریکہ کی دسترس سے باہر ہے۔
یہودیوں، نصرانیوں اور ہنودیوں کا کسی مسلمان کو دہشت گرد قرار دینے کا
مطلب نہایت واضح اور صاف ہے کہ وہ دہشت گرد حقیقت میں ایک نامور، جرأت مند،
نڈر، بے باک اور بے مثال مجاہدِ اسلام ہے جس نے کفار اور دُشمنانِ اسلام کی
نیندیں حرام کررکھی ہیں۔ حافظ سعید امریکہ کی نگاہ میں دہشت گرد مگر عالمِ
اسلام کے ماتھے کا جھومر ہیں جن کی جرأت وجوانمردی پر پوری قوم کو فخروناز
ہے۔ چند روز قبل امریکی محکمہ کے ترجمان ہیتھرنوئرٹ نے ایک بیان جاری کیا
کہ ’’ہم حافظ سعید کو دہشت گرد سمجھتے ہیں۔ لشکرِطیبہ دہشت گرد تنظیم ہے
لہٰذا ہم نے حکومتِ پاکستان کو تحفظات سے آگاہ کردیا ہے اورپاکستان کو
پیغام دے دیا ہے کہ وہ حافظ سعید کے خلاف قانونی کارروائی کرے اس لیے کہ
ممبئی حملے میں امریکیوں سمیت کئی افراد ہلاک ہوئے جس کا ذمہ دار ہم حافظ
سعید کو سمجھتے ہیں‘‘۔
پہلی بات تو یہ ہے کہ پاکستان ایک آزاد وخودمختار اسلامی ریاست ہے، کوئی
امریکہ کی کالونی نہیں کہ وہ پاکستان پر اپنا حکم صادر کرے اور دوسری اہم
بات کہ حافظ سعید کوئی کرائے کا قاتل نہیں جس کے بارے میں امریکہ
پاکستانیوں کو اپنے تحفظات سے آگاہ کررہا ہے۔ امریکہ خود ایک بہت بڑا دہشت
گرد ہے جس نے پوری دُنیا میں دہشت گردی کے ذریعے نہ صرف دُنیا کا امن تباہ
کیا بلکہ اپنے کرائے کے قاتلوں سے لاکھوں بے گناہ ومعصوم لوگوں کا قتل کیا۔
ریمنڈڈیوس جیسے کرائے کے قاتل دُنیا بھر میں دندناتے پھرتے اور معصوم
شہریوں کے قتلِ عام میں ملوث ہیں۔ امریکہ نے بھارت کی صورت میں ایک ایشیائی
غنڈہ پال رکھا ہے جو نہ صرف پاکستان بلکہ نہتے کشمیریوں کا بھی قاتل ہے،
اگر تحفظات ہیں تو وہ پاکستان کو ہیں نہ کہ امریکہ کو، یعنی ’’چور اُلٹا
کوتوال کو ڈانٹے‘‘ کی مثل امریکہ پاکستان کو ڈانٹ پلانے اور اس پر دباؤ
ڈالنے کی ناکام کوششوں میں ہے مگر امریکہ اور بھارت دونوں کو یاد رکھنا
چاہیے کہ یہ 1971ء نہیں 2018ء کا پاکستان ہے جس میں پاک افواج کے جانبار
اور حافظ سعید جیسے جانثار بستے ہیں جن کی سرپرستی وسربراہی میں وطن کے
کروڑوں سپوت اپنی جانیں قربان کر دینے کے لیے ہمہ وقت تیار ہیں۔ لیکن اس سب
کے باوجود حافظ سعید کو حددرجہ محتاط رہنے کی ضرورت ہے، اس لیے کہ ایمل
کانسی کا انجام بھی ہمارے سامنے ہے جس کے ساتھ بدترین غداری کرتے ہوئے
ہمارے انہی سول حکمرانوں نے اسے امریکہ کے حوالے کردیا۔
امریکی جیل سے لکھا گیا اس کا خط جو اس نے جنرل حمید گُل کے نام لکھا، میں
نے خود پڑھا جس کا آخری پہرا تھا کہ ’’مجھے نہایت دُکھ اور افسوس کے ساتھ
یہ بات کہنا پڑ رہی ہے کہ ہمارے حکمران غدار ہیں‘‘۔ یہاں پر یہ بات بھی
نہایت اہمیت کی حامل ہے کہ ایمل کانسی کی گرفتاری کے بعد جب اسے امریکی
عدالت میں پیش کیا گیا تو امریکی وکیل نے بھری عدالت میں یہ ذلت آمیز الفاظ
کہے کہ ’’کسی کو 20لاکھ ڈالر انعام دینے کی کوئی ضرورت نہیں اس لیے کہ یہ
پاکستانی قوم تو چند ٹکوں کے عوض اپنی ماں بھی بیچ دیتی ہے‘‘، جس پر حکومتِ
پاکستان نے بہت احتجاج کیا مگر احتجاج کر لینے سے تاریخ کے اوراق پر رقم یہ
الفاظ مٹ سکیں گے؟ یاد رہے کہ اس وقت صدرِ پاکستان فاروق احمد خان لغاری
اور وزیراعظم میاں نواز شریف تھے جبکہ ایمل کانسی کی گرفتاری پر 20لاکھ
ڈالر کا انعام رکھا گیا تھا۔ خدشہ بھی اسی بات کا ہے کہ حافظ سعید کے سر کی
قیمت بھی ایک کروڑ ڈالر مقرر کررکھی ہے جو غداروں کے لیے ایک خطیر رقم ہے۔
حافظ سعید کا اپنے کشمیری بھائیوں کے لیے ناقابلِ فراموش کردار کسی سے
ڈھکاچھپا نہیں، امریکہ کی نظر میں لشکرِطیبہ کا کردار ایک دہشت گرد تنظیم
کے طور پر ہو گا مگر ہماری اور ہر مسلمان کی نگاہ میں لشکرِطیبہ اپنے نام
اور کردار کی مناسبت سے ’’ لشکرِ اسلام‘‘ ہے جو حقیقی معنوں میں حکمِ
خداوندی بجا لارہا ہے۔ حافظ سعید کے اس مجاہدانہ قابلِ فخر کردار کو دیکھتے
ہوئے مجھے عالمِ اسلام کے عظیم مجاہد حضرت امام شموئیل کی یاد عود آئی کہ
اس دُبلے پتلے مجاہدِاعظم نے اپنے سے بیس گنا طاقتور روسی فوج کو کس طرح
ناکوں چنے چبوائے۔ اپنے قارئین کے لیے صرف ایک واقعہ درج کرتا ہوں تاکہ روح
میں تازگی اور دلوں میں ایمان کی چمک پیدا ہوسکے۔
’’روس کی ایک دیومالائی داستان کے کردار ایسے عظیم الجثہ اور طاقتور سورما
ہیں جن کی آواز صورِاسرافیل کی آواز کی طرح ہیبت ناک ہے، جن کی تلواریں
ٹکرانے سے بجلی کی کڑک کا سماں پیدا ہوتا ہے۔ روس کے شہنشاہوں کی یہ آرزو
تھی کہ قفقاز (کوہ قاف) کے فلک بوس پہاڑوں پر بھی روسی پرچم لہرائے لیکن ان
پہاڑوں اور ان کے مکینوں نے کسی کے آگے جھکنا سیکھا ہی نہیں تھا۔ روسی
افواج کے تمام حملے ناکام رہے۔ روسی شہنشاہ کو ایک ایسے سُورما کی ضرورت
تھی جس کی آواز سے پہاڑ لرز اُٹھیں اور پہاڑوں کے مکین سہم جائیں، جس کی
تلوار وہ تمام سر قلم کردے جو شہنشاہِ روس کے آگے جھکنے کو تیار نہیں۔
چنانچہ جنرل میخائل برمالوف کی ناکامی کے بعد جنرل وارنسٹوف کی شکل میں
شہنشاہ کو وہ سُورما مل ہی گیا جسے مجاہداعظم امام شموئیل کو سبق سکھانے کے
لیے قفقاز کی مہم پر روانہ کیا گیا۔ جنرل وارنسٹوف نے قفقاز پہنچتے ہی امام
شموئیل کو خط لکھا کہ ’’میں چاہتا ہوں تمہارے علاقے کے لاکھوں باشندے جنگ
کی بھٹی کا ایندھن نہ بنیں۔ وارنسٹوف ایک پیدائشی اور خاندانی جرنیل تھے۔
جنوبی روس کے طول وعرض میں جس آدمی سے بھی بات کرو وہ میرا ذکر ضرور کرے
گا۔ شہنشاہ نے بڑھاپے میں مجھے یہ خدمت سونپی ہے، بہتر ہے کہ تم میرے ساتھ
طاقت آزمائی کی کوشش نہ کرو اس لیے کہ تم وارنسٹوف کو نہیں جانتے۔ یاد
رکھو! شہنشاہ کے کان سرکشی یا بغاوت کے الفاظ سننے کے عادی ہوسکتے ہیں مگر
میں نے اپنی زندگی میں یہ الفاظ نہیں سنے، طاقت کی لغت میں یہ الفاظ ہوتے
ہی نہیں …… ان کی بجائے اطاعت، فرمانبرداری، ماتحتی، باجگزاری اور درخواست
کے الفاظ ہوتے ہیں۔ تم ان پانچوں لفظوں میں سے جو چاہو منتخب کرلو‘‘۔ امام
شموئیل کو جب یہ خط ملتا ہے تو وہ اپنے نائبین سے مشورہ کرتے ہیں چنانچہ یہ
طے پاتا ہے کہ اس متکبر انسان کے خط کا جواب ایسی زبان میں دیا جائے کہ جس
سے اس کا رواں رواں بلبلا اُٹھے۔ امام شموئیل وارنسٹوف کو جواب بھیجتے ہیں۔
’’وارنسٹوف مجھے تمہارے شہنشاہ پر ترس آتا ہے کہ وہ تم جیسے بوڑھے اور
ازکار رفتہ نام نہاد جرنیل کا سہارا لینے پر مجبور ہو گیا اور اگر تم حقیقی
جرنیل ہوتے تو تمہیں یہ علم ضرور ہوتا کہ ایک سپہ سالار دوسرے سپہ سالار سے
گفتگو کس طرح کرتا ہے۔ تمہیں تو اتنا بھی معلوم نہیں کہ سپاہی گفتگو کا
آغاز تلوار کی زبان سے کرتا ہے۔ زبان کے استعمال کی نوبت اس وقت آتی ہے جب
تلوار غالب یا عاجز آجائے۔ تمہاری اطلاع کے لیے عرض ہے کہ قفقاز میں کوئی
شخص یہ نہیں جانتا کہ وارنسٹوف کس چڑیا کا نام ہے؟ مگر ایک نام ایسا ہے جسے
صرف جنوبی روس میں نہیں پورے روس میں، پورے قفقاز میں ہر کوئی جانتا ہے،
تمہارے زاروں، جرنیلوں، افسروں اور سپاہیوں کے قبرستانوں میں مدفن لاکھوں
لوگوں کی روحیں بھی اس نام سے واقف اور خوفزدہ ہیں اور یہ نام ہے
’’شموئیل‘‘۔ وارنسٹوف! تم نے کہا کہ میں پانچ الفاظ میں سے کوئی ایک لفظ
منتخب کرلوں، میں تمہارے پانچوں الفاظ مسترد کرتا ہوں۔ میرے منتخب کردہ
پانچ الفاظ یہ ہیں، ’’اﷲ کی راہ میں جہاد‘‘۔
1844ء کے بعد 2018ء یعنی پونے دوسال کے بعد حافظ سعید کی صورت میں قدرت نے
ایک بار پھر امام شموئیل کو پیدا کردیا۔ فرق صرف اتنا ہے کہ وہ قفقاز کے
پہاڑ تھے اور یہاں کشمیر کے پہاڑ۔ تب دُشمن روس تھا، اب دُشمن امریکہ
وبھارت۔ جہاد تب بھی تھا، جہاد اب بھی ہے۔ اسلام تب بھی تھا، اسلام اب بھی
ہے۔ جذبہ تب بھی تھا، جذبہ اب بھی ہے۔ مجاہدین تب بھی تھے، مجاہدین اب بھی
ہیں۔ دھمکیاں تب بھی تھیں، دھمکیاں اب بھی ہیں لہٰذا موجودہ وارنسٹوف نے
ماضی کے جنرل وارنسٹوف کی زبان استعمال کرتے ہوئے دورِحاضر کے امام شموئیل
(حافظ سعید) کو دھمکی دیتے ہوئے کہا کہ ’’تم نہیں جانتے امریکہ کس طاقت کا
نام ہے۔ یہ وہ طاقت ہے جس سے دُنیا ہیبت کھاتی ہے اور جو اس طاقت کے سامنے
سر اُٹھائے، وہ سر کاٹ دیئے جاتے ہیں۔ بہتر ہے کہ تم اس طاقت کا سامنا کرنے
سے گریز کرو۔ طاقت کی لغت میں سرکشی یا بغاوت جیسے الفاظ نہیں ہوتے۔ اس کی
جگہ ’’منت، سماجت، خوشامد، غلامی اور سرنڈر‘‘ کے الفاظ ہوتے ہیں۔ تم ان
پانچوں الفاظ میں سے کسی ایک کا انتخاب کرلو‘‘۔ پھر اس متکبر قوت کو جواب
دیا جاتا ہے کہ ’’تم کیا جانو کہ طاقت کس چیز کا نام ہے؟‘‘ طاقت نام ہے
’’اسلام‘‘ کا۔ طاقت نام ہے ’’جہاد‘‘ کا جسے اﷲ اور اس کے رسولؐ نے ہم پر
فرض کیا اور اے نام نہاد متکبر قوت! اپنے ماضی کی طرف نگاہ دوڑاؤ، تمہیں ہر
مقام پر ذلت ورُسوائی اور شکست وریخت کے سوا کچھ دکھائی نہ دے گا۔ تم نے
کہا کہ میں تمہارے ان پانچ الفاظ میں سے کوئی ایک منتخب کرلوں، تو میں
تمہارے پانچوں الفاظ مسترد کرتا ہوں۔ میرے منتخب کردہ پانچ الفاظ یہ ہیں
’’اﷲ اور رسولؐ کی اطاعت‘‘۔
٭……٭……٭ |