بسم اﷲ الرحمن الرحیم
کابل میں بین الاقوامی شہرت کے حامل اور انتہائی سیکورٹی زون میں موجود
ہوٹل پر حملے کے دوران چالیس سے زائد افراد کے جاں بحق ہونے کی اطلاعات
ہیں۔یہ وہی ہوٹل ہے جس پر طالبان نے چھ سال قبل حملہ کیا تھا ۔ کہا جاتا ہے
کہ ہوٹل میں حملے کے وقت طلباء کی کثیر تعداد موجود تھی جو بھارت کے امدادی
پروگرام کے تحت تعلیم حاصل کرنے کے لیے بھارت جانا چاہتے تھے جبکہ بعض
اطلاعات کے مطابق حملہ کے وقت آئی ٹی کانفرنس ہو رہی تھی جن میں غیر ملکی
افراد کی بھی بڑی تعداد بھی شریک تھی ۔ حملہ میں مارے جانے والوں میں چودہ
کا تعلق مختلف ممالک سے ایک افغان سفارتکار اور امن کونسل کا رکن بھی شامل
ہے ۔گزشتہ ماہ کے آخر میں بھی ایک بڑے اور مہلک حملے میں چالیس کے قریب
افراد جان کی بازی ہا ر چکے تھے۔افغانستان کے دارلحکومت کابل میں اس طرح کے
مسلسل مہلک حملوں کی وجہ سے اس نظریے کو تقویت ملتی ہے کہ امریکہ اپنے
اتحادیوں کے ہمراہ سترہ سال بعد بھی یہ جنگ جیت نہیں سکا۔ شاید یہی وہ نکتہ
ہے جس کی بنیاد پر امریکہ کے وزیر خارجہ جان سلیوان نے افغانستان کے مسئلہ
پر سلامتی کونسل کے اعلیٰ سطح کے اجلاس میں اس بات پر زور دے کر کہا کہ
افغانستان کے میدان جنگ میں فتح حاصل نہیں کی جاسکتی اس لیے اس کا سیاسی حل
تلاش کیا جانا چاہیے۔امریکی معاون وزیر خارجہ نے یہ بھی تسلیم کیا کہ افغان
حکومت طالبان سے امن مذاکرات پر بضد ہے تاہم طالبان اس پر راضی نظر نہیں
آتے ۔موجودہ امریکی حکومت جس کی کمان ڈونلڈ ٹرمپ کے ہاتھ میں ہے افغان
مسئلہ پر خاصی کنفیوز نظر آرہی ہے ۔ گزشتہ سال اگست میں صدر ٹرمپ نے اپنی
افغان پالیسی بیان کرتے ہوئے سابق امریکی صدر باراک اوباما کے برعکس
افغانستان میں امریکی افواج کی تعداد بڑھانے کا فیصلہ کیا تھا ۔اسی اجلاس
میں معاون وزیر خارجہ نے اپنی کامیابیوں کا دعوٰی بھی کیا جس کی افغانستان
کے معاون وزیر خارجہ نے اپنی تقریر کے دوران تعریف بھی کی ۔ تاہم عملی
میدان میں یہ کامیابیاں نظر نہیں آتیں ۔ سال کے آغاز پر امریکی صدر نے اپنی
ایک ٹویٹ کے ذریعے افغانستان کے سب سے بڑے سٹیک ہولڈر پاکستان کے خلاف ایک
طوفان برپا کر دیا تھاجس کے بعد پاکستان کے امریکہ اور افغانستان کے ساتھ
تعلقات میں کافی دوریاں پیدا ہو چکی ہیں ۔ اسی اجلاس میں امریکہ نے پھر
پاکستان پر الزام تراشی کرتے ہوئے کہا کہ اب امریکہ پاکستان کے ساتھ مزید
نہیں چل سکتا کیونکہ اس نے دہشت گرد تنظیموں کو پناہ دے رکھی ہے ۔ پاکستان
کو ان تنظیموں کی پشت پناہی ختم کر کے افغان تنازعے کے حل میں بھرپور شریک
ہونا چاہیے۔پاکستان کی جانب سے اجلاس میں پیش مستقل مندوب ملیحہ لودھی نے
امریکی الزامات کو مسترد کرتے ہوئے واضح کیا کہ وہ اپنی شکست کا الزام کسی
دوسرے پرلگانے کی بجائے اندرونی تنازعات پر توجہ دیں ۔اب اس حوالے سے یہ
سوال بہت اہم ہے کہ افغان تنازعہ کے حل میں رکاوٹ کون ہے ۔اس سوال کے جواب
کے لیے ہمیں حالیہ علاقائی پیش رفت کو جائزہ لینا ہو گا۔
اافغانستان اس وقت علاقائی سیاست کا مرکز بنتا جا رہا ہے ۔ اس حملے سے
چندروز قبل افغان صدر اشرف غنی نے چین کے ساتھ بیلٹ اینڈ روڈ میں شمولیت کی
خواہش ظاہر کر چکے تھے۔افغان صدر نے اس موقع پر چین کے ساتھ اپنی دوستی کو
بے مثال قرار دیتے ہوئے کہا تھا کہ چین افغانستان کا دائمی ، قابل اعتماد
اور تزویراتی پارٹنر ہے ۔اسی طرح اسی ماہ چین میں ہونے والے سہ ملکی اجلاس
میں چین ، پاکستان اور افغانستان کے وزرائے خارجہ نے افغان تنازعہ حل کے
لیے مل بیٹھنے پر اتفاق کیا ۔ اس وقت عالمی سطح پر چین کی ابھرتی ہوئی
معاشی ترقی اور اس کا مغربی ممالک میں اثر عالمی منظر نامے کو تبدیل کر رہا
ہے ۔ امریکہ اس تبدیلی کو فی الحال قبول نہیں کر رہا یہی صورتحال دیگر
یورپی ممالک کی ہے۔ دوسری طرف روس بھی پھر سے دنیا کے نقشے پر ایک بڑی طاقت
بن کر سامنے آرہا ہے لیکن اس دفعہ اس کی پالیسی دوطرفہ نظر آرہی ہے ۔ ایک
طرف وہ اپنی فوجی طاقت کو بڑھا رہا ہے دوسری طرف اپنی معاشی ترقی کے لیے وہ
چین کی پیروی کر رہا ہے بلکہ چین کے منصوبوں میں بھرپور تعاون کر رہا ہے ۔
چین کی معاشی ترقی میں افغانستا ن کا تنازعہ بہت بڑی رکاوٹ ہے اور یہ رکاوٹ
روس کو بھی نظر آرہی ہے ۔ تاہم افغانستان کے حکمرانوں کے مفادات کا بڑا حصہ
ابھی تک امریکہ کے ساتھ جڑا ہوا ہے ۔ دوسری طرف پاکستان کے مقابلے میں اسی
بھارت کی بڑی منڈی بھی اپنی طرف کھینچ رہی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ وہ گومگو کی
کیفیت میں ہے ۔ ایک طرف علاقائی تعاون کے لیے تیار نظر آتا ہے تو دوسری طرف
امریکہ و بھارت کے اتحادی ہونے کی وجہ سے اپنے علاقائی تنازعات کو بھی حل
نہیں کر پا رہا ۔روس بھی افغان تنازعہ کے حل کو معاشی ترقی کے لیے اہمیت
دیتا ہے ۔ یہی وجہ ہے کہ روس نے بھی چین کی پیروی کرتے ہوئے افغان تنازعہ
کے فریقین کو ماسکو جیسا غیر جانبدارانہ پلیٹ فارم فراہم کرنے پر آمادگی
ظاہر کی تھی ۔ تاہم اس پر امریکہ کی جانب سے شدید ردعمل دیکھنے میں آیا
۔امریکہ نے پلیٹ فارم فراہم کرنے پر آمادگی کو فریقین پر ’’بیرونی رائے
مسلط کرنے ‘‘کے مترادف قرار دیا۔اس پر افغانستان میں حکومتی شوریٰ اعلیٰ
صلح کے مشیر محمد اسماعیل قاسم یارنے اعتراف کیا کہ روس اور امریکا بین
الاقوامی سطح پر کئی محازوں پر ایک دوسرے کے حریف ہیں جس کی وجہ سے افغان
تنازعہ پر بھی اس کا اثر دیکھنے میں آ رہا ہے تاہم روس کی جانب سے براہ
راست مذاکرات کے لیے پلیٹ فارم فراہم کرنے کے بارے پوچھے گئے ایک سوال کے
جواب میں انہوں نے محتاط انداز میں اس کی پذیرائی کی اور کہا کہ یہ ہماری
ان کوششوں کے مطابق ہے، جوعلاقائی سطح پر بہتر تعلقات اور قیام امن سے
متعلق ہیں۔ افغانستان کی یہ خواہش ہے کہ خطے کے تمام ممالک اور بین
الاقوامی قوتیں اپنی رقابتیں یہاں نکالنے کی بجائے اپنے مفادات اور کوششیں
افغانستان میں قیام امن سے جوڑیں ۔اس موقع پرسابق صدر حامد کرزئی کے اس
بیان کو کسی صورت نظر انداز نہیں کیا جا سکتا جس میں انہوں نے داعش کی پشت
پناہی کا الزام امریکہ پر لگایا تھا ۔ اگرچہ کافی عرصہ کی خاموشی کے بعد
امریکہ نے اس بیان کی تردید جاری کر دی ہے تاہم ابھی الزامات کے مسترد کرنے
کی کوئی ٹھوس وجہ نہیں بتائی گئی جس کی وجہ سے کافی سوالات پیدا ہوتے ہیں۔
افغانستان میں منشیات کے بڑھتے ہوئے کاروبار میں امریکہ خفیہ ایجنسی سی آئی
اے کے ملوث ہونے کے حوالے سے بھی کافی ٹھوس اطلاعات موجود ہیں ۔ منشیات کی
دنیا بھر میں سپلائی سے ذخیر منافع کمایا جارہا ہے اور افغانستان اس کی
پیداوار کا مرکز بنتا جارہا ہے ۔یہ بھی افغان تنازعہ کے جاری رہنے کی ایک
بڑی وجہ ہوسکتی ہے اور سی آئی اے کے ملوث ہونے کی وجہ سے کہا جا سکتا ہے کہ
وہ کبھی یہ نہیں چاہے گی کہ یہ تنازعہ پرامن طریقے سے حل ہو۔
افغان تنازعہ کے حل میں روس اور چین کا کردار کسی صورت مسترد نہیں کیا جا
سکتا کیونکہ طالبان امریکہ پر اعتبار کرنے کے لیے تیار نہیں ہیں جبکہ روس
اور چین پر کسی حد تک اعتماد کی فضا بن چکی ہے۔ ویسے بھی افغانستان کو یہ
بات سمجھ لینی چاہیے کہ امریکہ اور بھارت خطے میں امن اور ترقی سے ذیادہ
چین کی معاشی ترقی کو روکنے کے لیے اپنا کردار ادا کررہے ہیں ۔دوسری طرف
امریکہ روس کے بڑھتے ہوئے تعلقات سے بھی خائف نظر آرہا ہے ۔یہ امریکی
بدقسمتی ہے کہ ڈونلڈ ٹرمپ جیسا صدر ایسے موقع پر ان کا مقدر بنا جب دنیا
مخاصمت کی بجائے مفاہمت اور جنگ کی بجائے تجارت کے ذریعے معاملات حل کرنا
چاہتی ہے ۔ ڈونلڈ ٹرمپ کا رویہ پھرسے سرد جنگ کے انتہائی عروج کے دور کی
یاد تازہ کر رہا ہے لیکن اس بار دنیا شاید تیسری عالمی جنگ کے لیے تیار نہ
ہو پائے ۔ اس لیے افغان تنازعہ کے حل میں امریکہ کا کردار محض ایک مبصر کا
ہونا چاہیے اور علاقائی قوتوں کو موقع دینا چاہیے کہ وہ اس تنازعہ کو مثبت
طریقے سے تمام قوتوں کے باہمی تعاون سے سیاسی حل نکال سکیں۔ |